0
Thursday 31 May 2012 02:02

اسکردو بے روزگاری اور بدعنوانی کی لپیٹ میں آچکا ہے

اسکردو بے روزگاری اور بدعنوانی کی لپیٹ میں آچکا ہے
اسلام ٹائمز۔ ملک بھر کی طرح بلتستان میں بھی بے روز گاری کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ہر سال ملک کی بڑی اور مستند یونیورسٹیوں سے درجنوں طلباء ماسٹرز اور بیچلرز کی ڈگری لیکر آتے ہیں۔ لیکن سرکاری اداروں میں نوکریاں تو خواب بن چکی ہے کیونکہ سرکاری اداروں میں میرٹ کے لیے جیالہ ہونا یا صاحب ثروت ہونا ضروری ہے جبکہ پرائیوٹ سیکٹر میں گنجائش نہ ہونے کے باعث یہاں کے پڑھے لکھے جوانوں کا مستقبل داو پر لگ جاتا ہے۔ فی الوقت زمینی حالات ایسے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان بھی معمولی سی نوکری کیلئے دفاتر کے باہر ٹیسٹ انٹرویوز کی سینکڑوں افراد پر مشتمل لمبی قطاروں میں اپنی فائل لئے نظر آتے ہیں۔

تاہم سیاسی اثر رسوخ اور رشوت کلچر یہاں سے بھی ان کو خالی ہاتھ واپس جانے پر مجبور کردیتی ہے کیونکہ میرٹ اب صرف ایک تصور بن کر رہ گیا ہے۔ جس کا حقیقت میں کوئی اطلاق نظر نہیں آتا۔ اعلیٰ پوسٹوں پر بھی سفارش کی تعیناتی سے ایک طرف قابل غریب اور متوسط طبقے کے اہل افراد کا حق مارا جاتا ہے تو دوسری جانب یہ نااہل افراد محکموں کیلئے بھی ناسور بن جاتے ہیں۔

تاہم موجودہ صورت حال مین اعلیٰ سفارش کے بغیر میرٹ پر کام ہوتا ہوا کسی محکمے میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ سیاسی شخصیات جو عوام کی آواز اور پشت پناہ ہوتی ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنا ان کا فرض اولین ہے لیکن ان نمائندوں کو نہ عوام کی فکر ہے اور نہ میرٹ کی۔ بلکہ چند محکموں باالخصوص محکمہ تعلیم کو تباہ و برباد کرنے میں بھی ان کا ہاتھ ہے۔ ان دنوں منتخب ارکان اسمبلی نے سرکاری محکموں باالخصوص محکمہ تعلیم میں اپنی مداخلت کو اپنا ذاتی حق سمجھ لیا ہے جبکہ محکمے کے سیاست پرست ملازمین کا طبقہ بھی آقاوں کے گن گانے اور سیاسی بنیادوں پر محکمانہ اور چلانے کو اپنا فرض عین سمجھنے لگے ہیں۔

بلتستان کے سرکاری محکموں میں محکمانہ امور بجائے محکمے کے قواعد و ضوابط کے عوامی و سیاسی نمائندوں کی ایما پر چلنے لگے ہیں۔ بالخصوص محکمہ تعلیم، محکمہ تعمیرات عامہ، محکمہ سول سپلائی جیسے ادارے تو سیاسی مداخلت کے بغیر چلتے ہی نہیں ہیں۔ محکمہ تعلیم میں تعیناتی، تبادلے اور سکول امور سے متعلق دیگر کاموں کے حوالے سے عوامی رائے عامہ یہ پائی جاتی ہے کہ منتخب ارکان کی ایما اور سفارش کے بغیر یہ محکمہ اپنے امور انجام نہیں دیتا جبکہ یہی حال دوسرے محکموں کا بھی ہے۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے سختی سے ہدایات جاری کی ہوئی ہیں کہ ارکان اسمبلی سرکاری اداروں میں جبکہ ادارے سیاست میں مداخلت نہ کریں لیکن وزیر اعلیٰ خود اوروں کو نصیحت خود میاں فصیحت بن چکا ہے۔ سکردو میں ان کو وزارت ملنے کے بعد قابل اور اہل افراد کو نوکریاں ملتی تو باعث فخر ہے لیکن یہاں بھی الٹی گنگا بہتی ہے۔  موصوف نے اپنی  فہم کے مطابق یہاں سے بیروزگاری کو ختم کرنے کے لیے نا اہل افراد کو سرکاری اداروں میں بھرتی کرکے اہل افراد کے پاوں پر کلہاڑی مارنے مین زرا بھی شرم محسوس نہیں کی۔

اس وقت بہت سارے ایسے میٹرک پاس افراد بھی محکمہ تعلیم میں قوم کی معمار کے استاد بنے بیٹھے ہیں جو دو جملے بھی درست نہِں لکھ سکتے۔ ہمارے نمائندے سے ایک ایسے استاد کی ملاقات ہوئی جنہیں سیاسی اثر رسوخ اور دو لاکھ کی رشوت کے عوض محکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد لیا گیا جو نہ صرف دس سال قبل میڑک ڈگری یافتہ ہے بلکہ ترکھان بھی ہے۔ ان سے انٹرویو کے لیے گزارش کی تو یہ کہہ کر انکار کیا کہ مشکل سے روزگار ملی ہے میڈیا میں آکے ٹرمینیٹ ہونا نہیں چاہتا۔
  
سکردو میں بےروزگاری کی گرداب میں عام افراد اور فارغ التحصیل طلبا ہی نہیں آئے بلکہ بلتی   ثقافت کے امانت دار لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ بلتی ثقافت اور فنون لطیفہ کی نمائندگی کرنے والے بلتستان کے مقامی اور باصلاحیت فنکار بے روزگاری اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور حکومتی عدم توجہی اور حوصلہ شکنی کے باعث یہ فنکار دن بہ دن اپنے فن سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

بلتستان کے نوجوان فنکاروں کی صلاحیت اور فن کا سکہ نہ صرف ملک بھر میں بلکہ سرحد پار ہمسایہ ملک کے شہروں کارگل اور لداخ میں مستند قرار دیا جاچکا ہے اور ان فنکاروں کے بنائے ہوئے سٹیج ڈرامے بہترین تفریح کے ساتھ ساتھ مقامی کلچر کو فروغ دینے کیلئے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن فنکاروں کی حوصلہ شکنی کا یہ عالم ہے کہ غوڈی بخستون جیسے شہرہ آفاق اور مقبول ترین بلتی ڈرامہ کے مرکزی کردار میں جلوہ گر ہونے والا فنکار سکندر حسین آبادی بلدیہ سکردو کے کچرہ اٹھانے والے ٹریکٹر کی ڈرائیونگ کرکے اپنا گزر بسر کررہا ہے۔

جبکہ اسی ڈرامے کا تخلیق کار اور معروف فنکار علی کاظم گولڈن ٹیکسی چلا کر دن گزار رہا ہے۔ ڈرامے میں کام کرنے والے دیگر فنکار فدا حسین اور دیگر فنکار بھی بے روزگاری کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان فنکاروں نے بتایا کہ ملک کے دیگر بڑے شہروں میں فنکاروں کو قدر دانی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ فنکاروں کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ سٹیج پر آکر فنکاروں کے مسائل حل کرنے کے دعوے تو سب ہی ارباب اختیار کرتے ہیں اور عوام تالیاں بجاتے ہیں۔ لیکن بعد میں فنکاروں کی فریاد تک کوئی نہیں سنتا۔ فنکاروں نے کہا کہ اسی سبب نوجوان باصلاحیت فنکار دن بہ دن اپنے فن سے دلبرداشتہ ہوکر دور ہورہے ہیں۔ ان فنکاروں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی اور روزگار کی فراہمی کے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 166729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش