0
Friday 20 Jul 2012 00:18

فاٹا کا مستقبل، تحریک انصاف بھی میدان میں آگئی

فاٹا کا مستقبل، تحریک انصاف بھی میدان میں آگئی
قبائلی علاقہ جات میں انگریز دور حکومت سے قائم فرسودہ اور غیر انسانی قوانین کی وجہ سے قبائل گوناگوں مسائل کا شکار رہے ہیں، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات صدر مملکت اور مرکزی حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں اور ہر قبائلی ایجنسی میں تمام تر انتظامی حکمرانی پولیٹیکل ایجنٹ کی ہوتی ہے، تاہم زیادہ تر مقامی لوگ جرگوں کو اپنی قبائلی روایات کا اہم جزو سمجھتے ہیں اور انہی جرگوں کے ذریعے اپنے مسلئے مسائل حل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، فاٹا میں پولیس اور عدلیہ کا کوئی تصور نہیں، قیام امن کی ذمہ داری مقامی لیویز، ملیشیاء یا پھر آج کل ایف سی (فرنٹیئر کور اور فرنٹیئر کانسٹیبلری) اور فوج کی ذمہ داری ہے، جبکہ عدلیہ کی جگہ فیصلوں کا اختیار مقامی پولیٹیکل انتظامیہ کو ہوتا ہے، جو پولیس کے اختیارات بھی استعال کرسکتی ہے۔

صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا ہونے کے بعد اور قبائلی علاقوں میں امن و امان کی مسلسل خراب صورتحال کے پیش نظر فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے بحث چھڑ پڑی، اور تین تجاویز پر مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں، مرکزی و خیبر پختونخوا حکومت اور قبائلی عمائدین سنجیدگی سے غور کررہے ہیں، پہلا آپشن فاٹا کی صوبہ خیبر پختونخوا میں شمولیت ہے، دوسرا فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا اور تیسرا آپشن فاٹا کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے وہاں قانون ساز کونسل قائم کرنا ہے، ان تجاویز پر غور و خوص کیلئے اے این پی اور جمعیت علماء اسلام کی جانب سے قبائلی جرگہ منعقد کئے جا چکے ہیں، اور اب تحریک انصاف بھی فاٹا کی نئی حیثیت پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلئے میدان میں آگئی ہے، جس کا اظہار دو روز قبل پشاور میں پی ٹی آئی کے یر اہتمام منعقد ہونے والا قبائلی جرگہ ہے۔

پشاور پریس کلب میں منعقد ہونے والے اس جرگہ میں اگرچہ کسی اہم سیاسی و مذہبی جماعت کو دعوت نہیں دی گئی البتہ قبائلی نمائندے موجود تھے، جن میں تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر کے علاوہ فاٹا کے رہنماء دوست محمد محسود، اقبال آفریدی، احمد زیب خان، گل ظفر، ملک دائود مہمند سمیت دیگر قبائلی عمائدین نے شرکت کی۔ گرینڈ قبائلی جرگہ کے بعد جاری اعلامئے میں حکومت سے فاٹا میں آپریشن اور امریکی ڈرون حملے روکنے کیلئے موثر کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اعلامئے میں کہا گیا کہ اب تک تیس ہزار بیگناہ قبائلی بچے، خواتین، بزرگ اور نوجوان بیگناہ شہید ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی بھی ہوئے۔ لہذا فوری طور پر قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ روکا جائے۔

جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے میزبان اور تحریک انصاف کے صوبائی صدر اسد قیصر نے قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں اب تک ہزاروں بے گناہ قبائل بچے، نوجوان، بوڑھے اور خواتین شہید کردیئے گئے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں قبائلی اپنے ہی ملک میں مہاجرین بن کر زندگی کے شب و روز انتہائی مشکل حالات میں گزار رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے قبائلی عوام سے وعدہ کیا ہے کہ جب بھی وہ برسر اقتدار آئے، سب سے پہلے قبائلی عوام کی محرومیوں کو دور کیا جائیگا اور قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن سمیت وہاں ہو نے والے ڈرون حملے بھی بند کرائے جائینگے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں کالجز و یونیورسٹیاں بنائی جائینگی تاکہ قبائلی عوام بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح زندگی کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا سکیں۔ موجودہ حکمران امریکہ کی غلامی سے تاحال نہیں نکل سکے، جس کا منہ بولتا ثبوت قبائلی علاقوں میں جاری شورش اور ڈرون حملے ہیں، جن میں اپنے ہی بے گناہ لوگ مر رہے ہیں۔ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف فاٹا کے قبائلی رہنماء دوست محمد خان محسود نے کہا کہ عمران خان دو ٹوک کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت میں اگر ایک بھی ڈرون حملہ ہوا تو یا وہ رہینگے یا پھر ائیر چیف۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ سیاست دانوں کو بھی عمران خان کی طرح امریکہ سے دو ٹوک بات کرنی چاہیئے۔ 

فاٹا کے رہنماء اقبال آفریدی نے جرگے سے خطاب میں کہا کہ حکومت قبائل کو مہاجر بنا کر بھول چکی ہے اور کیمپوں میں مقیم قبائلی مہاجر بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے ہیں اور انکی فریاد سننے والا بھی کوئی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کی آمد آمد ہے اور جلوزئی کیمپ میں متاثرین کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ انہیں رمضان پیکج سے بھی محروم رکھا جائیگا۔ گرینڈ جرگہ سے قبائلی مشران نے بھی خطاب کیا اور قبائلی علاقوں کی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد سے امریکہ کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کو نہ صرف یہ کہ براہ راست نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ پاکستانی افواج کو قبائل کے خلاف لڑوا کر دونوں اطراف سے بے تحاشہ جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار کیا جارہا ہے۔ 

قبائلی عمائدین کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور جاری آپریشن کے باعث ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک تیس ہزار سے زائد بے گناہ قبائلی مارے جا چکے ہیں، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی و معذور ہوگئے ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس شورش سے جہاں شدید جانی نقصان کا سامنا ہے وہاں قبائلی عوام گزشتہ گیارہ سال سے زندگی کے ہر شعبہ میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ قبائل پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں جنہوں نے ہر محاذ پر پاکستان کا دفاع کیا اور اسے دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنی جانوں تک کے نظرانے پیش کئے لیکن آج انہی قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ 

گرینڈ قبائل جرگہ نے مشترکہ طور پر آٹھ نکات پر مبنی مطالبات کا اعلامیہ بھی جاری کیا، جس کے تحت حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کی قرار داد کے مطابق حکومت پاکستان دہشتگردی کے نام پر لڑی جانے والی امریکی مفادات کی جنگ فی الفور بند کرے، قبائلی علاقوں کے لئے قبائلی علاقہ میں منتخب اسمبلی کا قیام اور اختیارات قبائل کے منتخب نمائندوں کو دیئے جائیں، بے مقصد فوجی آپریشن بند کئے جائیں، فوج کو بیرکوں میں واپس بلایا جائے، ڈرون حملے بند کئے جائیں اور امریکہ سے اس حوالے سے دو ٹوک بات کی جائے، قبائلی علاقوں میں جنگی بنیادوں پر تعمیر و بحالی کا کام شروع کیا جائے، آغاز حقوق بلوچستان کی طرز پر اقتصادی پیکج دیا جائے، بنیادی انسانی و ریاستی حقوق کی محرومیوں کو دور کیا جائے اور ایف سی آر کا خاتمہ یقینی بناتے ہوئے قبائلی علاقوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر معافی مانگی جائے۔
خبر کا کوڈ : 180017
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش