0
Saturday 18 Aug 2012 18:06

سانحہ بابوسر، جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے عینی شاہد سے ٹیلی فونک گفتگو

سانحہ بابوسر، جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والے عینی شاہد سے ٹیلی فونک گفتگو
اسلام ٹائمز۔ سانحہ بابوسر یا لولوسر کے فوراً بعد جس مسافر کا جائے وقوعہ سے گزر ہوا، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان کی ٹیلیفونک گفتگو کی۔ تفصیلات کے مطابق سید مصطفیٰ اپنی گاڑی میں راولپنڈی جارہے تھے، بابوسر یا لولوسر ٹاپ پہنچنے سے پہلے صبح سویرے محفوظ ٹریولز کی تین بسوں کو کراس کیا۔ بس والوں نے انہیں کسی قسم کی تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ سید مصطفیٰ کے بقول جب میں بابوسر ٹاپ سے کچھ دیر پہلے ایک اترائی میں پہنچا تو پولیس کی موبائل گاڑی سے 6 کے قریب افراد اترے۔ گاڑی پولیس وین کو کراس کرکے تھوڑا آگے پہنچی تو کیا دیکھا کہ سڑک پر سات، آٹھ لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔ گاڑی سے اترنے سے پہلے اندازہ ہوا کہ پھر کوئی قیامت خیز واقعہ پیش آیا ہوگا۔ میں نے اپنے دوست کو کہا کہ اتر کر دیکھیں کیا ہوا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ اس لمحے میرے ذہن میں  چلاس اور کوہستان کے واقعات گردش کرنے لگے۔ دل کی حرکت تیز ہونے لگی۔ کانپتے جسم کے ساتھ گاڑی سے اترا اور بکھری لاشوں کی طرف نگاہ کی، کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لاشوں پر ضربوں کے نشانات بھی تھے۔ ان کے ہاتھوں کو رسیوں سے پس گردن سے باندھا گیا تھا۔

میری نگاہ ایک جب لاش پر پڑی جس کے سر سے بےتحاشا خون جاری تھا، اس کا سر کسی پتھر پہ تھا، میں نے جب غور کیا تو وہ میرے جاننے والے شاہ جی تھے۔ جب میں نے شاہ جی کو پہچانا تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور ان کی طرف دوڑا، میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا، مجھ پر جنون و کرب کی کیفیت طاری تھی اور کچھ نہ سوجا تو اچانک خیال آیا کہ میرے ہاتھ میں جو شرٹ ہے ان کے سر پر باندھوں تاکہ خون رک جائے اور پتھر کی اذیت سے بھی بچ جائیں۔ جب میں نے شاہ جی کے سر کو اٹھایا اور شرٹ کو ان کے سر سے باندھا تو معلوم ہوا کہ شاہ جی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے لیکن بدن میں حدت اب بھی باقی ہے۔ اتنے میں میری نگاہ پولیس پر پڑی جو وہاں کے حالات کا جائزہ لیتی پہاڑ کی طرف دیکھنے میں مصروف تھی۔ میں نے اوپر پہاڑ کی طرف نگاہ کی تو وہاں سے پتھر گررہے تھے۔ اندازہ ہوا قاتل یہیں سے فرار ہوئے ہیں۔

میری چیخ و پکار کو سن کر ایک پولیس آفیسر میرے قریب آیا اور کہا  یہ تمہارا رشتہ دار تو نہیں؟ میں نے کہا کہ میرے علاقے کا ہے۔ اس نے کہا اس کو چھوڑو اور دفع ہوجاؤ ورنہ تمہیں اٹھا کر بند کر دونگا، کیا پتہ دہشت گرد واپس آکر تمہاری بھی تکہ بوٹی کردیں۔ جب میں شدت غم سے اٹھ نہیں سکا تو پولیس والے نے پیچھے سے مجھے لات ماری اور کہا بھاگ کمینے اپنے آپ کو پھنسانے کا شوق تو نہیںہے تجھے۔ اس سکیورٹی اہلکار نے لات بھی اس طاقت سے ماری تھی کہ میری چیخ نکل گئی۔ اسی لمحے میں نے شاہ جی کے چہرے پر نگاہ کی تو ایسا لگا کہ شاہ جی مجھ سے کہہ رہے ہوں کہ جاؤ مصطفیٰ جاؤ۔ تمہارے یہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ظالموں نے ہمیں نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا ہے۔ اب میں واپس نہیں آنے والا، تم واپس جاؤ۔

اسی لمحے میں نے سوچا، ہائے عالم غربت و مسافرت میں تمہیں اور دیگر شہداء کو اس چٹیل پہاڑی کے بیچ چھوڑ کے جانے پر مجبور ہوں۔ میں نے اشاروں سے تمام شہداء کو سلام کیا جن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ جن کے چہرے خون آلود تھے۔ مجھ سے اٹھا نہیں گیا۔ پولیس والے نے مجھے بازو سے تھام کر گاڑی کے پاس چھوڑا۔ میں اب اس قابل بھی نہیں رہا تھا کہ گاڑی چلا سکوں، چابی دوست کو دی۔ اس نے گاڑی چلائی اب جب ہم آگے بڑھے تو کیا دیکھا کہ وہاں کھائی کی طرف ایک درجن کے قریب شہداء کہ جن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے،کو گرایا گیا تھا۔ انہی باتوں کے ساتھ سید مصطفیٰ فون پہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور مزید کسی قسم کی گفتگو اور سوال ممکن نہیں ہوسکا۔
خبر کا کوڈ : 188200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش