0
Thursday 30 Aug 2012 10:55

خیبر پختونخوا اور فاٹا میں تعلیمی ادارے تباہ کرنیوالے''فسادی نظریہ'' کے صومالیہ میں دہشتگردی تربیت کے سکول

خیبر پختونخوا اور فاٹا میں تعلیمی ادارے تباہ کرنیوالے

خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں صبح سویرے سکولوں کو جانے والے ہزاروں بچے آج اپنے ان تباہ حال تعلیمی اداروں کو دیکھ کر رنجیدہ ہو جاتے ہیں جنہیں اسلام کے نام پر فساد برپا کرنے والوں نے بم دھماکوں سے ملیا میٹ کر دیا ہے، ایک محتاظ اندازے کے مطابق 2005ء سے اب تک فاٹا اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک ہزار سے زائد تعلیمی اداروں کو تعلیم دشمن طالبان اور ان جیسی سوچ رکھنے والے تخریب کاروں نے تباہ کر دیا ہے، خیبر پختونخوا کے اضلاع پشاور، سوات، چارسدہ، مردان، صوابی، نوشہرہ، لکی مروت، بنوں، کوہاٹ، درگئی جبکہ فاٹا کی تمام 7 قبائلی ایجنسیوں میں اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے نظریہ نے تعلیمی اداروں کی تباہی کی۔

خیبر پختونخوا میں بعض سکولوں کی تعمیر نو شروع کی گئی ہے، تاہم اب بھی ایک بہت بڑی تعداد تعلیمی اداروں کی ایسی ہے جہاں بچے ان تباہ حال عمارتوں کے ملبے پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، سکولوں کو تباہ کرنے کے بزدلانہ اقدام کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے رہنمائوں نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طالبان کیلئے قابل تقلید نظریہ عالمی دہشتگرد تنظیم القاعدہ کا ہی ہے، ایک برطانوی اخبار ڈیلی میل نے حالیہ دنوں میں انکشاف کیا ہے کہ القاعدہ نے صومالیہ میں ایسے سکول قائم کر لئے ہیں، جہاں بلا کسی روک ٹوک بچوں کو دہشتگردی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ 

اخبار اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ القاعدہ سے وابستہ تنظیم الشباب صومالیہ میں بچوں کو دہشت گردی کی تعلیم دینے کے اسکول قائم کر رہی ہے، جہاں اغواء شدہ بچوں کو رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مغربی ممالک پر حملوں کے لیے ''ذہنی غسل اور تربیت'' بھی دی جا رہی ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ان اسکولوں میں سات سے دس سال کی عمر کے بچوں کو رکھا جا رہا ہے۔ انہیں زنجیروں سے باندھ کر دہشتگردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں خودکش حملوں کی تربیت بھی دی جا رہی ہے اور انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر وہ فدائی کارروائیوں میں حصہ لیں گے تو سیدھے جنت میں جائیں گے۔

دہشت گردی کی تحقیقات کرنے والے ایک برطانوی مصنف نیل ڈائیل نے صومالی دارالحکومت موغادیشو کے ایک اسکول میں زنجیروں میں بندھے بچوں کی تصاویر کا انکشاف کیا ہے۔ اس اسکول پر صومالی حکام نے حکومت کی اجازت کے بعد حال ہی میں چھاپہ مارا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سکول میں کلاسیں جاری تھیں اور وہاں القاعدہ سے وابستہ صومالی تنظیم الشباب کا ایک رکن تعلیم دے رہے تھا۔ اس چھاپہ مار کارروائی کے دوران دو سو افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس استاد نے پکڑے جانے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ بچوں کو سبق نہ پڑھنے پر سزاء کے طور پر زنجیروں کے ساتھ باندھا گیا تھا لیکن ان بچوں کے والدین بھی اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ وہ کہاں ہیں؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے امن کو جتنا نقصان امریکہ و اسرائیل نے پہنچایا ہے اتنا ہی القاعدہ نے بھی، جبکہ بعض سنجیدہ حلقے تو آج بھی القاعدہ کو امریکی عزائم کی تکمیل میں معاون کا درجہ دیتے ہیں، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں معصوم بچوں کے تعلیمی ادارے تباہ کرنے کا یہ فسادی نظریہ القاعدہ کا ہی ہے، جس پر چلتے ہوئے طالبان نے افغانستان کی طرح پاکستان میں بھی تعلیمی ادارے تباہ کرنے کا مشن بلا کسی روک ٹوک جاری رکھا ہوا ہے، اور وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں، علم پھیلانے کے مراکز تباہ کر دیتے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں پولیس اور فاٹا میں پولیٹیکل انتظامیہ کے اہکار اب تک تعلیمی ادارے تباہ کرنے والے کسی تخریب کار کو گرفتار نہیں کرسکے، اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی کوئی خاطر خواہ آواز نہیں اٹھا پائیں اور نہ ہی سیاسی، مذہبی اور سماجی تنظیموں نے اس جانب کوئی توجہ دی، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ صومالیہ میں دہشتگردی کی تربیت دینے والے نظریہ کو اگر وہاں اس قبیح عمل سے روکنا ممکن نہیں تو کم از کم وطن عزیز پاکستان میں اس ’’فسادی نظریہ‘‘ کو معصوم بچوں کے تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے سے روکا جائے۔

خبر کا کوڈ : 190679
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش