0
Friday 19 Oct 2012 22:12

اصغرخان کیس، اسلم بیگ،اسد درانی اور رقوم لینے والے سیاستدانوں کیخلاف کارروائی کا حکم

اصغرخان کیس، اسلم بیگ،اسد درانی اور رقوم لینے والے سیاستدانوں کیخلاف کارروائی کا حکم
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے سولہ سال بعد اصغرخان کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی اور رقوم لینے والے سیاستدانوں کے خلاف وفاقی حکومت کو کارروائی کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اصغرخان کیس کی سماعت کے بعد مختصرفیصلہ جاری کردیا ہے، جس میں عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے حلف سے روگردانی کی ہے اس لئے ان سابق فوجی افسروں کےخلاف کارروائی کی جائے۔ 

سپریم کورٹ نے ان سیاستدانوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا ہے جن میں ان فوجی افسروں نے رقوم تقسیم کیں۔ سپریم کورٹ نے 1990ء میں سیاستدانوں میں تقسیم کی جانے والی رقم آٹھ کروڑ روپے منافع کے ساتھ حبیب بنک میں جمع کرانے کا بھی حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ ایوان صدر یا آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل ہے تو اسے بھی فوری بند کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ 1990ء کے انتخابات میں کرپشن ہوئی، ایوان صدر میں الیکشن سیل بنایا گیا اور ایک گروپ آئی جے آئی کی حمایت کی گئی۔ ان انتخابات میں ایوان صدر کے الیکشن سیل نے اسلم بیگ اور جنرل درانی کی مدد سے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر سیاست میں مداخلت کی، مگر یہ افراد کا عمل تھا فوج یا ادارے کا نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کوئی الیکشن سیل قائم نہیں کر سکتے تھے۔ صدر مملکت وفاق کی علامت ہوتا ہے وہ اپنے حلف کے تحت کسی ایک گروپ کی حمایت نہیں کر سکتا۔ مختصر فیصلہ چیف جسٹس نے تحریر کیا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ 

دیگر ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کہتے ہیں کہ نوے کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی، نوے میں انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اسلم بیگ اور اسد درانی کا انفرادی فعل تھا، فوج اور خفیہ اداروں کا کوئی ہاتھ نہیں تھا، صدر اسحاق مرحوم نے بھی غیر قانونی کام کیا، موجودہ حکومت ذمہ داران کیخلاف قانونی کارروائی کرے اور رقم منافع سمیت وصول کی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سولہ نکات پر مشتمل مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نوے کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، انتخابی عمل کو آلودہ کرنا اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کا انفرادی فعل تھا، خفیہ اداروں اور فوج کا انتخابی عمل میں کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ 

سپریم کورٹ نے مرزا اسلم بیگ،اسد درانی اور یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے، جبکہ رقم لینے والے سیاستدانوں کیخلاف بھی تحقیقات کے بعد کارروائی کا کہا گیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ بچ جانے والے آٹھ کروڑ روپے سود سمیت حبیب بینک کے اکاوٴنٹ نمبر تین سو تیرہ میں جمع کرائے جائیں اور سیاستدانوں سے بھی منافع سمیت رقم وصول کی جائے۔ آئین کے مطابق ضروری ہے کہ ریاست اپنی اتھارٹی منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے، صدر تمام جمہوریہ کا نمائندہ اور حلف سے وفا نہ کرے تو ائین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایوان صدر میں نوے میں الیکشن سیل قائم ہوا جو انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش تھی۔ 

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج سیاست میں حصہ نہیں لے سکتی، منتخب حکومت کی معاونت کرسکتی ہے مداخلت نہیں کر سکتی، ملک کے لئے فوج نے ہمیشہ قربانیاں دیں، لیکن اسلم بیگ اور اسد درانی کا عمل فوج کے لئے بدنامی کا باعث بنا۔ ایم آئی والوں نے غیر قانونی کام کیا اور سابق صدر غلام اسحاق خان نے بھی آئین کی خلاف ورزی کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایوان صدر اور آئی ایس آئی سمیت کسی بھی ایجنسی میں سیاسی سیل ہے تو ختم کیا جائے۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں اصغر خان کی سولہ سال قبل دائر ہونے والی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔
خبر کا کوڈ : 204904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش