0
Tuesday 25 Jun 2013 23:59

نانگا پربت سانحہ! کون کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟

نانگا پربت سانحہ! کون کیا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟
رپورٹ: سید تصور کاظمی

ضلع دیامر اپنی چند خصوصیات کی وجہ سے گلگت بلتستان کا ممتاز ضلع ہے۔ دنیا کی عظیم ترین چوٹی’’نانگا پربت‘‘ ضلع دیامر میں واقع ہے۔ جسے کلرمونٹین بھی کہا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے سب سے گھنے اور بڑے جنگلات ضلع دیامر میں واقع ہیں۔ قراقرام ہائی وے کا بڑا حصہ ضلع دیامر سے گزرتا ہے۔ دنیا کی سب سب سے لمبی عمر والا ڈیم بھی ضلع دیامر میں بن رہا ہے۔ ضلع دیامر گلگت بلتستان کا وہ واحد ضلع ہے جس میں سو فیصد دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہیں۔ نانگا پربت انسانی دنیا کا ایک عجوبہ ہے، نانگا پربت ضلع دیامر کے علاقے گوہرآباد رائیکوٹ میں واقع دنیا کا عظیم ترین خونی پہاڑ ہے۔ نانگا پربت محض ایک پہاڑ نہیں بلکہ ایک جادو ہے، طلسم ہے جو دنیا کے مختلف علاقوں سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ گذشتہ ڈھائی سو سال سے پوری دنیا سے سیاح اور کوہ پیما اس کی طرف کھنچتے چلےآ رہے ہیں۔ اب تک صرف دو دفعہ نانگا پر بت کی چوٹیوں کو ہاتھ لگایا جا سکا ہے۔ ایک دفعہ 1953ء اور دوسری دفعہ 1995ء کو۔ باقی جب بھی کوئی کوہ پیما اس کو سر کرنے نکلا ہے خود ہی اس کا شکار ہو گیا۔ کوئی پارٹی آخری سرے تک پہنچنے، پاتی ہی ہے کہ ہواؤں کے دوش پہ اڑ جاتی ہے اور اس کی ہڈیاں برف بن کر رہ جاتی ہیں۔ 

نانگا پربت کی بلند چوٹیاں ہمیشہ بادلوں سے ڈھکی رہتی ہیں۔ نانگا پربت کے قدموں میں ایک لمبی گلیشئر ہے جو دو رنگوں پر مشتمل ہے۔ سفید اور براؤن، مقامی لوگوں کے مطابق یہ جوڑا ہے اور اس کے اتصال سے گلیشئر میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی میاں بیوی کے اتصال سے نسل میں اضافہ ہوتا ہے اس طرح یہ جوڑا بھی گلشیئر بڑھانے کا کام دیتا ہے۔ خدا ہی جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نانگا پربت پر چڑھنے کے بنیادی طور پر تین راستے ہیں۔ ایک راستہ بذریعہ لنک روڈ رائیکوٹ فیری میڈو تک جاتا ہے جو سب سے دشوار ترین ہے ، ایک راستہ استور کی طرف سے بھی ہے اور تیسرا راستہ بونر نالہ سے جاتا ہے۔ فیری میڈو اور نانگا پربت کی سیر کے لیے جانے والے اکثر سیاح بذریعہ لنک روڈ رائیکوٹ پہنچ جاتے ہیں جبکہ کوہ پیمائی کے لئے اکثر بونر نالہ والا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ رائیکوٹ کی حسین ترین وادی ’’فیری میڈو‘‘ ہے، جسے شینا زبان میں’’ فری‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1953ء کو اسٹرین کے ایک کوہ پیما ہرمن بوہل نے اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر اسے فیری میڈو کا نام دیا ہے تب سے آ ج تک یہ فیری میڈو کے نام سے معروف ہے۔ فیری میڈو کو اللہ تعالیٰ نے بےحد قدرتی حسن سے نوازا ہے۔ اس کو پریوں کا مسکن اور چراگاہ بھی کہا جاتا ہے۔علاقائی کہاوت مشہور ہے کہ یہاں دیو پری رہتے ہیں۔ جو بھی نانگا پربت کو سَر کرنے کے لیے جاتا ہے وہ اس کو غائب کر دیتے ہیں۔

ہر سال موسم سرما میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مقامی لوگ دو تین مہینوں میں کروڑوں کماتے ہیں۔ نانگا پربت کی عظمت و بلندی کو اپروچ کرنے کے لیے چند کوہ پیماؤں نے بذریعہ بونر نالہ سفر شروع کیا۔ راستے میں کیمپ لگایا، رات کو جی بی اسکاؤٹس کی وردی میں ملبوس سفاک قاتلوں نے بےدردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں تین چین، دو یوکرائن، ایک چینی نژاد امریکی، دو سلواکیہ اور ایک ایک نیپال اور لھتوانیا کے باشندے ہیں اور دو پاکستانی۔ حالیہ غیر ملکی سیاحوں کے قتل کا سانحہ ملک پاکستان اور گلگت بلتستان کے امیج کو خراب کرنے کی سازش تو ہے ہی مگر اس کے پس پردہ کچھ اور محرکات بھی ہیں۔اس کی کئی وجوہات ہیں، یہ بات تو ہم سب پر عیاں ہے کہ یہ سانحہ بین الاقوامی گریٹ گیم کا اہم حصہ ہے۔ عالمی قوتیں مسلم دنیا کا تھوڑا سا مفاد بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ گوادر چین کے حوالہ کیا گیا ہے جو امریکہ کو ہضم نہیں ہو پا رہا ہے۔ گوادر بذر یعہ دیامر چین تک لنک کرتا ہے اور دیامر بھاشا ڈیم بھی ضلع دیامر میں بن رہا ہے۔ پاک چائنہ ریلوے ٹریک استعماری قوتوں کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ کچھ نادیدہ قوتیں ایسی ہیں کہ جنہیں عالمی سطح پر بالعموم گلگت بلتستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات کی مقبولیت پسند نہیں، اس لیے تو اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ امریکی استعماری قوتوں کا ایک اہم ایجنڈا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جہادی سرگرمیاں ہوں وہاں مداخلت کرتا ہے اور ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو امت مسلمہ کے لیے تباہ کن ہو یا پھر جہاں سے نام نہاد جہادی سرگرمیاں پیدا ہونے کا امکان ہو وہاں بھی جان بوجھ کر ایسے واقعات کراتا ہے کہ مقامی حکومتیں وہاں کے عوام سے نبرد آزما ہو اور باآسانی ایسے علاقوں کے جاہل اور سادہ لوح عوام کو اسلام کے نام پر اپنی مرضی کے جہاد کیلئے استعمال کیا جا سکے جیسا کہ ماضی میں افغان جنگ اور 1988ء میں گلگت بلتستان کے شیعہ مسلمانوں پر دیامر اور کوہستان کے جاہل ملاوں کی مدد سے انکو استعمال کیا گیا۔ پھر افراتفری پیدا ہو جائے اور اندرونی خانہ جنگی ہو۔

حالیہ واقعہ سے پہلے لولو سر، چلاس اور کوہستان کے سانحات ہوئے ہیں جن کے مرکزی مقاصد گلگت بلتستان میں مذہبی تفرقہ اور خانہ جنگی پیدا کرنا تھا مگر افسوس کہ اگر اس وقت حکمران روایتی سستی کا مظاہرہ نہ کرتے اور بعض مقامی سیاستدانوں کے دباو میں آئے بغیر چلاس، داریل اور تانگیز میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ آپریشن کیا جاتا تو آج اتنا بڑا سانحہ رونما نہ ہوتا؟
ہماری دیامر کے علماء و عمائدین، جی بی حکومت، پاکستان آرمی اور حساس اداروں سے درمندانہ گزارش ہے کہ عالمی حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے ایسا کوئی لائحہ عمل تیار کرے کہ صیہونی اور استعماری مقاصد خاک میں مل جائیں اور دجالی قوتیں امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے میں ناکام ہو جائیں۔ اگر نااہلی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا گیا تو ضلع دیامر تو ہو گا ہی تباہ مگر پاکستان اور پورے گلگت بلتستان کا بھی نقصان عظیم ہو گا۔

گلگت بلتستان کے تمام مکاتب فکر کے سیاسی و مذہبی راہنماوں، علماء کرام، عمائدین،طلباء اور عوام الناس نے اس بربریت پر مبنی واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔ ہر طبقے کے لوگوں نے کھل کر مذمت کی ہے۔ مختلف جگہوں میں اس کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں۔ اسلام ایسی بزدلانہ حرکتوں کی سخت مخالفت کرتا ہے کہ بے آسرا اور مسافر لوگوں کو یوں قتل کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سانحہ کے پس منظر میں کوئی ایسی طاقت ہے جو پورے ملک میں اس طرح کے واقعات کروا رہی ہے۔ اگر صاحبان اقتدار اور اصحاب بست و کشاد نے اب بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے چلاس، داریل ، تانگیر میں بین الاقومی دہشت گرد نیٹ ورک سے منسلک شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ آپریشن نہ کیا تو گلگت بلتستان میں بھی سوات، وزیریستان جیسے حالات پیدا ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور یہ پرامن اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ بین الاقوامی قوتوں کیلئے جنگ کا میدان بن جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 276642
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش