0
Sunday 18 Aug 2013 13:23

مصر، تازہ جھڑپوں میں مرنیوالوں کی تعداد 173 ہوگئی، اخوان المسلمون پر پابندی لگانے پر غور

مصر، تازہ جھڑپوں میں مرنیوالوں کی تعداد 173 ہوگئی، اخوان المسلمون پر پابندی لگانے پر غور
اسلام ٹائمز۔ مصر میں معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں اور فوج کے درمیان مسلح جھڑپوں کا سلسلہ گذشتہ روز بھی جاری رہا۔ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران جاں بحق افراد کی تعداد 173 ہوگئی ہے۔ اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کے صاحبزادے انجینئر عمار محمد بدیع بھی مصری فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہوگئے۔ انجینئر عمار محمد بدیع جمعہ کو اخوان المسلمون کی طرف سے ”یومِ غضب“ کے دوران مظاہرین پر مصری فوج کی فائرنگ میں شدید زخمی ہوگئے تھے اور ہفتہ کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔ عمار محمد بدیع کی چند سال قبل شادی ہوئی تھی اور انکے دو معصوم بچے ہیں۔ مسجد الفتح میں بڑی تعداد میں مصری فوج کی فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالوں کی نعشیں اور زخمی موجود ہیں۔ ہزاروں لوگ رات بھر اس میں محصور رہے جس سے مزید زخمی دم توڑ گئے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق مسجد کو اخوان المسلمون سے خالی کرا لیا گیا ہے۔ مصری حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمین پر پابندی عائد کرنے اور اسے قانون طور پر تحلیل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ 

القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کے بھائی محمد الظواہری کو مصر سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق معزول صدر محمد مرسی کی حمایت کرنے پر ایمن الظواہری کے بھائی کو گرفتار کیا گیا۔ مصر میں ایک ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اخوان المسلمون کے سینکڑوں حامیوں نے رات محاصرے میں گزاری۔ مسجد میں موجود ایک خاتون نے ٹی وی چینل الجزیرہ کو ٹیلیفون پر بتایا کہ "یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں، وہ مسجد کے اندر فائرنگ کر رہے ہیں۔" مصر کے سرکاری خبر رساں ادارے مینا نے سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا کہ مسجد الفتح کے اندر سے "مسلح افراد" نے فائرنگ کی۔ اخوان المسلمین نے اعلان کیا ہوا ہے کہ وہ اب روزانہ کی بنیاد پر مظاہروں کا انعقاد کریگی۔ 

ہلاک شدگان میں سے بیشتر قاہرہ میں رعمسیس اسکوائر اور اس کے قرب و جوار میں اس وقت مارے گئے جب فوج نے مظاہرین پر گولی چلائی۔ ان مظاہرین نے ایک تھانے پر دھاوا بولا تھا جس پر انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ دریائے نیل کے ڈیلٹا کے علاقوں میں 25 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے چھ سکندریہ میں مارے گئے۔ بی بی سی کے نامہ نگار نے جمعہ کو رعمسیس اسکوائر کے قریب کم از کم 12 نعشیں دیکھیں۔ ان کے مطابق جمعہ کو ہونے والے مظاہروں نے جلد ہی پرتشدد صورتحال اختیار کرلی اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کر دیا گیا۔ معزول صدر مرسی کے حامیوں کا نعرہ تھا کہ "عوام فوجی بغاوت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔" مظاہروں کے موقع پر قاہرہ میں سکیورٹی سخت رہی اور سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں۔
 
سابق صدر حسنی مبارک کیخلاف چلنے والی تحریک کے مرکز تحریر اسکوائر تک جانے والے راستوں کو بھی فوج نے بند کر دیا تھا۔ مصر کی وزارتِ داخلہ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد پولیس کو اپنے دفاع اور اہم تنصیبات کی حفاظت کے لئے گولی چلانے کی اجازت بھی دی ہوئی ہے۔ جرمنی نے مصر کی امداد بند کر دی ہے۔ عالمی برادری نے مظاہرین پر طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی۔ مسجد کے اندر سے ایک خاتون نے بتایا کہ غنڈوں نے مسجد کی عمارت پر دھاوا بولنے کی کوشش کی، مگر مردوں نے دروازوں کو بند کر دیا۔ اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ فوجی حکومت کسی بھی صورت قبول نہیں۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے فرانسیسی صدر فرانسو اولاند سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے مصری بحران پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں رہنماں نے مصر کے ساتھ ملکی اور یورپی سطح پر قائم باہمی روابط پر نظرثانی کرنے اور انہیں مکمل طور پر جانچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 
اس موقع پر مرکل اور اولانڈ نے خونریزی کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔ دونوں رہنماﺅں کی گفتگو کے دوران اس حوالے سے بھی فیصلہ کیا گیا کہ اگلے ہفتے یورپی وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہوگا، جس میں غور کیا جائیگا کہ مستقبل میں مصر کے ساتھ روابط کیسے ہوں گے۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے مصری سفیروں کو بلا کر احتجاج کیا۔ قطر نے بھی واقعہ کی مذمت کی ہے۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے مصر میں ہونیوالے تشدد کی ذمہ داری ملک کی عبوری حکومت پر عائد کی ہے۔ برطانیہ، ہالینڈ، ناروے اور سپین سمیت دیگر یورپی ممالک نے الگ الگ بیانات میں مصری حکومت کی حالیہ کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔ 

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ پرتشدد کارروائی قابل مذمت ہے، جن سے مفاہمت کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے اور مسئلے کا سیاسی حل اب مزید مشکل ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ مصری حکام نے بات چیت پر طاقت کے استعمال کو ترجیح دی۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مصر کی صورتحال پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ تشدد سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اخوان المسلمون کے ترجمان نے کہا کہ مصر کے المیے پر عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ، اس کے یورپی اور خلیجی اتحادی مرسی کے حامیوں اور فوج کے درمیان دو ہفتے قبل امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اے ایف پی کے مطابق اسرائیل کے علاقے نظارت کے 4 ہزار حامیوں نے شیخ وعد صلاح کی قیادت میں مرسی کے حق میں احتجاجی ریلی نکالی۔ 

ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے مصر میں قتل عام پر سلامتی کونسل اور یورپی یونین کے ردعمل کو شرمناک قرار دیکر اس کی مذمت کی ہے۔ مصر کے عبوری وزیر اعظم حاذم الببلاوی نے اخوان المسلمون کو غیر قانونی قرار دینے کا عندیہ دیہ دیا ہے۔ مصر کی عبوری حکومت کے ترجمان کے مطابق الببلاوی چاہتے ہیں کہ اخوان پر پابندی عائد کر دی جائے، تاہم وزیراعظم کی طرف سے اپنی کابینہ کے ارکان کے سامنے رکھی گئی اس تجویز کے قانونی پہلووں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق الاخوان المسلمون چونکہ فلاح عامہ کے لئے کام کرنے والی تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے، اس لئے وزیراعظم نے اپنی یہ تجویز سب سے پہلے سماجی امور سے متعلق وزیر کے سامنے رکھی تھی۔ حکومت کے ترجمان شریف شوقی کے مطابق ابھی اس تجویز پر فیصلہ نہیں ہوا البتہ غور جاری ہے۔ 

مصر کے عبوری صدر کے ترجمان نے کہا ہے کہ مصر انتہا پسندوں کی جانب سے شروع کی گئی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں فائرنگ سے بچنے کیلئے مظاہرین کو ایک پل سے نیچے کودتے دکھایا گیا ہے۔ یہ ویڈیو قاہرہ کی ہے، جہاں نمازِ جمعہ کے بعد شہر بھر میں معزول صدر مرسی کے حق میں مظاہرے کئے جا رہے تھے۔ شہر کے ایک پل پر بھی مظاہرہ جاری تھا کہ وہاں سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کر دی۔ گولیوں سے بچنے کے لئے مظاہرین نے پل سے نیچے اترنا شروع کر دیا، کچھ لوگ تو رسیوں کی مدد سے اترے اور پھر کچھ لوگوں نے اپنی جان بچانے کے لیے چھلانگیں بھی لگا دیں۔ نیچے موجود لوگوں نے اوپر سے کودنے والوں کو بچانے کے لیے بڑی بڑی چادریں بھی تان رکھی تھیں۔ مصر کے 14 صوبوں میں آج بھی کرفیو نافذ ہے۔ مصری حکام نے کہا ہے کہ اخوان المسلمون کے عدم تشدد پر یقین رکھنے والے افراد کی عبوری حکومت میں شمولیت کا خیرمقدم کرینگے۔


دیگر ذرائع کے مطابق مصر میں معزول صدر مرسی کے حامیوں اور سکیورٹی فورسز میں جھڑپیں جاری ہیں، جمعہ سے جاری کشیدگی میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سو تہتر ہوگئی ہے۔ حکومت نے اخوان المسلمون کے خلاف پابندی پر غور شروع کر دیا ہے۔ فوج نے القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کے بھائی کو حراست میں لے لیا ہے۔ مصر میں سابق صدر مرسی کے حامی ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔ جمعہ سے شروع ہونے والے مظاہروں کو ختم کرنے کے لئے فوجی کارروائی بھی جاری ہے۔ کشیدگی کی تازہ ترین لہر میں ایک سو تہتر افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ قاہرہ میں سابق صدر مرسی کے ایک ہزار سے زائد حامی الفتح مسجد میں جمع ہو گئے۔ فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے فائرنگ کی اور مسجد میں داخل ہوگئی۔ فائرنگ کے ایک واقعے میں اخوان المسلمون کے سربراہ محمد بدیع کا بیٹا بھی جاں بحق ہو گیا ہے۔ مصر کی عبوری حکومت نے اخوان المسلمون پر پابندی عائد کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ دوسری جانب فوج نے القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کے بھائی ربیع الظواہری کو گرفتارکر لیا ہے۔ محمد ربیع الظواہری کو مصر سے غزہ جاتے ہوئے چیک پوائنٹ پر گرفتار کیا گیا۔ جرمنی اور قطر نے مصری حکومت سے کشیدگی ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 293549
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش