0
Tuesday 1 Oct 2013 23:59

گوادر میں‌ نمودار ہونیوالا جزیرہ

گوادر میں‌ نمودار ہونیوالا جزیرہ

گوادر کے ساحل کے قریب نمودار ہونے والے نئے جزیرے پر سروے کے دوران مرجان، سیپی، مرجان نما الجائی، بڑی تعداد میں مردہ مچھلیاں، کیکڑے اور جھینگے حاصل ہوئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے منگل کے روز سندھ اور بلوچستان کے بہت سے حصوں میں آنے والے زلزلے سے گوادر کے ساحل پر ایک جزیرہ اُبھر آیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق مکران کی ساحلی پٹی پر سمندری سطح سے سینکڑوں میٹر کی گہرائی کے اندر منجمد میتھین گیس کے وسیع ذخائر گیس اور پانی کے مرکب کی صورت میں موجود ہیں۔ اور جب گیس کا دباؤ انتہائی درجے تک بڑھ جاتا ہے اور اس توانائی کے اخراج کے لیے کوئی کمزور جگہ ملتی ہے تو سمندر کی گہرائی میں یا سطح سمندر پر گنبد کی مانند ایک اسٹرکچر سا اُبھر آتا ہے۔ پھر اس کے اگلے روز یہ اطلاع ملی کہ بلوچستان کے ساحل کے ساتھ دو مزید جزیرے اُبھرے ہیں۔ ورلڈ وائڈ فنڈ برائے نیچر کے ٹیکنیکل ایڈوائزر محمد معظم خان نے بتایا کہ ”پسنی اور اورمارا کے ساحل کے ساتھ دو دیہاتوں سے چند میل کے فاصلے پر دو نئے جزیرے دریافت ہوئے ہیں۔

مقامی مچھیروں اور قبائلی عمائدین نے ان جزیروں کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔“ جب نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنوگرافی کی ایک ٹیم نے پچھلے بدھ کو اس جزیرے کا دورہ کیا جو گوادر کے ساحل کے قریب اُبھرا تھا تو وہاں پر مختلف حصوں سے انہیں میتھین گیس خارج ہوتی محسوس ہوئی۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی کے کے ڈاکٹر آصف انعام کہتے ہیں کہ ”توانائی کا اخراج ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات کچھ پرتوں میں شگاف پڑجاتا ہے اور کچھ ٹوٹ جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں اس طرز کا اسٹرکچر سمندر کے اندر تشکیل پاتا ہے، اس لیے ہمارے علم میں نہیں آتا۔“ اس علاقے کے مقامی جغرافیہ کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر انعام نے کہا کہ یہ متحرک سیسیمک خطہ ہے، جہاں تین ٹیکٹونک پلیٹیں انڈین، یوریشین اور عریبین، مختلف اطراف سے متحرک ہیں۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس علاقے کا سروے کرکے اس کا مکمل نقشہ مرتب کیا جائے تاکہ ان مقامات کی تفصیلات سامنے آ سکیں جو خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس علاقے میں توانائی کے بھی بیش بہا جزائر موجود ہیں، جنہیں اگر دریافت کرلیا جائے تو ملک میں جاری توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یاد رہے کہ دسمبر 2010ء میں بھی مکران کے ساحل پر ایک جزیرہ اُبھرا تھا اور اس کی وجوہات اور وہاں پائی جانے والی مٹی کے کیمیائی تجزیے کے نتائج گذشتہ ہفتے اُبھرنے والے جزیرے سے ملتے جلتے تھے۔ ماہرین نے وہاں بھی میتھین گیس کا اخراج دریافت کیا تھا۔ پچھلے پندرہ سالوں کے دوران یہ تیسرا موقع ہے کہ اس طرز کا عجوبہ بلوچستان کے ساحل کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے، سب سے پہلے 1999ء میں پھر 2010ء میں مکران کے ساحل سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر اس مقام کے نزدیک جہاں ہنگول دریا سمندر میں گرتا ہے، ایک جزیرہ اُبھرا تھا۔ خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے مطابق امریکی جیولوجیکل سروے کے ایک جیولوجسٹ بل برن ہارٹ، جو پاکستان اور ایران میں آنے والے زلزلوں پر ریسرچ کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ جزیرہ حقیقت میں مٹی کا بہت بڑا ڈھیر ہے، جو شدید دباؤ کے سبب سطح سمندر پر اُبھر آیا ہے۔

دنیا کے اس خطےکی جیولوجی اپنی ساخت کو درست کر رہی ہے، اور یہاں خدوخال میں اس طرز کی بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آ سکتی ہیں۔“ ورلڈ وائڈ فنڈ برائے نیچر پاکستان (WWF-P) کے رابطہ کار، نے مقامی ماہرین کی مدد سے اس جزیرے کے ایک سروے کا انتظام کیا۔ اس ٹیم کے اس جزیرے پر زندہ یا مردہ حالت میں بڑی تعداد میں سمندری حیاتیات کا مشاہدہ کیا، یہ جزیرہ دراصل حیاتیاتی تنوع سے بھرپور ہے۔ یہاں سیپیوں اور مرجان کی چار مختلف نوعوں کی شناخت ہوئی ہے۔ اس ٹیم نے گیس کا اخراج محسوس کیا، ان کو یقین ہے کہ یہ میتھین گیس تھی۔ مرجان پورے جزیرے پر پائے گئے، یہ مثبت علامت ہے کہ سمندر میں بہت سے دیگر حیاتیاتی عناصر اپنی حیاتیاتی تنوع کے لیے مرجان کی آبادی پر انحصار کرتے ہیں۔ خاص طور پر اس علاقے کی حیاتیاتی صورتحال بہت اطمینان بخش ہےاور یہ علاقہ حیاتیاتی تنوع سے بہت زیادہ مالامال ہے۔

مذکورہ ٹیم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ شواہد بھی سامنے آئے ہیں کہ اس علاقے میں وسیع پیمانے پر ماہی گیری کی جاتی ہے۔ مقامی مچھیروں کے مطابق دو سو سے زیادہ مچھیرے روزانہ اس پورے علاقے سے مچھلیاں پکڑتے تھے، جس کے بیچوں بیچ یہ جزیرہ اُبھرا ہے۔ اس جزیرے سے ملنے والی مردہ مچھلیوں میں گروپر، چپٹے سر والی مچھلی، مورے ایل، اور گرنٹ شامل ہیں۔ سروے ٹیم کے مطابق تقریباً پچاس فٹ لمبا اور سطح سمندر سے ساٹھ فٹ بلند یہ مٹی کا جزیرہ ساحل سے تقریباً دو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مقامی ماہی گیروں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی طرح کا ایک جزیرہ 1945ء میں گوادر کے ساحل کے نزدیک زلزلے کے نتیجے میں اُبھرا تھا، اس زلزلے کا مرکز شمالی بحیرہ عرب کی گہرائی میں واقع تھا۔

ماہی گیروں کے مطابق اُس جزیرے کا رقبہ اِس جزیرے کے برابر تھا، لیکن موجودہ جزیرے کے مقابلے میں اس کی بلندی کم تھی۔ مقامی لوگوں نے اس جزیرے کو زلزلہ جزیرہ کا نام دے دیا تھا، مچھیروں کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً ایک سال پہلے تک وہ جزیرہ دکھائی دیتا تھا، ماہی گیروں نے اس کو اپنا عارضی ٹھکانہ بنا رکھا تھا، وہ وہاں پر اپنے جال سکھانے کے لیے پھیلا دیتے تھے، اور وہاں کھانا پکایا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہم نے شروع میں بیان کیا کہ بلوچستان کے ساحل پر تین جزیرے اُبھرے ہیں، صرف گوادر کے ساحل کے نزدیک جزیرے پر ہی پہنچا جا سکا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ جیسے جیسے گیس کا پریشر کم ہوگا، اور سمندری لہروں کی شدت بڑھے گی وہ دونوں جزیرے چند ماہ کے اندر اندر نظروں سے اوجھل ہو جائیں گے۔

خبر کا کوڈ : 307097
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش