0
Tuesday 8 Oct 2013 10:46
افغانستان آج بھی غیر محفوظ ہے

امریکہ اور اتحادی مسلسل ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حامد کرزئی

امریکہ اور اتحادی مسلسل ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حامد کرزئی
اسلام ٹائمز۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے افغانستان کمزور نہیں ہوگا۔ ملک میں مکمل طور پر امن چاہتے ہیں، نیٹو کی حکمت عملی ناکام رہی کیونکہ معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ افغانستان آج بھی غیر محفوظ ہے۔ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے میں ملک کی خودمختاری جیسے معاملات وجہ تنازع بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے پر افغان رہنماﺅں کا جرگہ ایک ماہ کے اندر ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوموار کے روز بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا۔ امریکہ اور اتحادی مسلسل ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ تمام مسائل کا حل مذاکرات ہوتے ہیں اور افغان مسئلے پر بھی مذاکرات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کی حامی ہے۔ افغانستان کی سکیورٹی کے حوالے حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ابھی تک بھی افغانستان میں خطرات موجود ہیں اور افغانستان کو ابھی تک مکمل طور پر پُرامن نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم امریکی افسر نے کہا ہے کہ معاہدے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔

دیگر ذرائع کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے معاملے پر نیٹو کی کارروائیوں سے افغانستان کو بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور حاصل کچھ نہیں ہوا کیونکہ ملک ابھی تک محفوظ نہیں ہے۔ نیٹو نے غلطی کرتے ہوئے لڑائی میں توجہ پاکستان میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کی بجائے افغان دیہات پر دی۔ افغانستان میں نیٹو کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موجودگی کے باوجود ملک مستحکم نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے نیٹو پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی نہیں ہوتی کہ یہاں جزوی سکیورٹی ہے۔ یہ وہ نہیں تھا جو ہم چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تھے کہ مکمل طور پر سکیورٹی ہو اور دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپور جنگ ہو۔ اب میری ترجیح ہے کہ افغانستان میں امن اور سکیورٹی قائم ہو اور جس میں طالبان کے ساتھ اقتدار کی شراکت داری کا معاہدہ ہو۔ 

صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ حکومت کی تمام اسلامی شدت پسندوں گروہوں سے بات چیت جاری ہے۔ طالبان کو حکومت میں شامل کئے جانے کی صورت میں خواتین کے حقوق پر پائی جانی والی تشویش کو رد کرتے ہوئے کہا صدر کرزئی نے کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین پڑھیں گی اور اعلٰی تعلیم اور ملازمتیں حاصل کریں گی۔ تاہم اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اگر طالبان بھی آتے ہیں تو یہ عمل سست روی کا شکار ہوگا۔ واضح رہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ 2014ء میں افغانستان میں امریکی افواج کی اکثریت وہاں سے چلی جائے البتہ وہ اس کے بعد بھی دس ہزار فوجی افغانستان میں رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ افغان صدارتی انتخابات سے پہلے صدر کرزئی سے سکیورٹی کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے، جس میں سال دو ہزار چودہ میں غیر ملکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان سے امریکی تعلقات کا باضابطہ تعین ہوگا۔ صدر کرزئی کا برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی آمد کے بعد شروع کے چند سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اچھے رہے، کیونکہ شروع کے سالوں میں ہمارے موقف میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔
خبر کا کوڈ : 309190
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش