0
Monday 30 Dec 2013 20:20

ڈی آئی خان جیل پر حملے کی انکوائری رپورٹ سامنے لایا گیا

ڈی آئی خان جیل پر حملے کی انکوائری رپورٹ سامنے لایا گیا
اسلام ٹائمز۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنے کے واقعہ کی انکوائری رپورٹ کو گہری نظر سے پڑھا جائے تو ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑنے لگتی ہے، خاص طور پر ان خاکوں کو دیکھ کر جن میں پولیس اور فوج کی اس وقت کی تعیناتی دکھائی گئی ہے، جس وقت جیل پر حملے کا خطرہ منڈلا رہا تھا، اسی دوران فوج اور پولیس اہلکاروں کو اس لئے تعینات کیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو روک سکیں۔ دہشت گردوں نے جس قدر آسانی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس حملے کا موثر جواب دینے سے ڈی موبیلائز کردیا، 253 قیدیوں کو آزاد کریا اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر اپنے قبائلی پناہ گاہوں میں واپس لوٹؕ گئے، اس کو دیکھتے ہوئے ہر سطح پرخطرے کی گھنٹیاں بج جانی چاہئیے تھیں۔21

صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ جو طاق کی زینت بنی ہوئی تھی، اب اس کی کاپی میڈیا کو دستیاب ہوئی ہے، دیکھا جائے تو اس کے بجائے ایک تجزیہ نگاروں کے الفاظ میں اس حملے کو مختصر طور پر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ پورے قصبے پر قبضہ کیا جاچکا تھا۔ یہ حملہ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر اس سال گرمیوں میں 29 جولائی اور 30 جولائی کی ایک درمیانی رات ہوا تھا۔ اس رپورٹ میں درج ہے کہ کس طرح محسود قبائل کے 20 سے 25 دہشت گرد، جنہیں پنجابی دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ساتھ اُزبک اور دیگر حمایتیوں کی بھی مدد حاصل تھی، شمالی وزیرستان میں اپنے ٹھکانوں سے بغیر کسی کی نظر میں آئے ہوئے جیل کی عمارت سے کچھ فاصلے پر واقع ٹاؤن ہال میں رات ساڑھے 8 بجے اکٹھا ہوگئے۔ 3 گھنٹے بعد ہی دہشت گردوں کی 7 ٹیمیں جیل کے اردگرد 10 مختلف مقامات پر سڑکوں اور چھتوں پر اپنی پوزیشن لے چکی تھیں۔ ایسا انہوں نے سیکیورٹی اہلکاروں اور ان کی متوقع کمک کی نقل و حرکت کو روکنے کے لئے کیا تھا، انہوں نے علاقے کو مکمل طور پرسیل کرکے شہر کے مشرقی اور مغربی کناروں سے رسائی کو مسدود کردیا تھا۔

رپورٹ میں درج ہے کہ اس کے بعد دھماکوں اور فائرنگ کے ایک حیرت انگیز سلسلے نے سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو خوف اور الجھن میں مبتلا کردیا تھا۔ جیل تک رسائی کے تمام راستوں کو بند کردینے کے بعد دہشت گردوں نے اس کے گیٹ پر راکٹ سے چلنے والے گرینیڈ فائر کیے، پہلے سے طے شدہ طریقے کے مطابق انہوں نے بیرکس اور سیل کو توڑا اور انہیں کھول کر 253 قیدیوں کو آزاد کروادیا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ان دہشت گردوں نے ایک اقلیتی فرقے کے 4 قیدیوں کی شناخت کرنے کے بعد ان کو پھانسی دے دی۔ رپورٹ میں حوالہ دیا گیا ہے کہ تقریباً 25 منٹ کے اندر ایک دہشت گرد نے کال سائن طارق2 (ڈی ایس پی سٹی) کا استعمال کرتے ہوئے پولیس کی وائرلیس فریکوئنسی پر ہی پولیس کو سخت الفاظ میں شہر کو مسمار کردینے کی دھمکی دی ۔ انکوائری کمیٹی کے نتائج کے مطابق جیل کے اندر یہ پوری کارروائی 45 منٹ سے زیادہ وقت تک جاری نہیں رہی۔ تاہم جیل کے اردگرد سڑکوں اور چھتوں پر اپنی چوکیوں پر دہشت گرد لگ بھگ 2 گھنٹے تک موجود رہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملہ آور پارٹی دربان روڈ اور آرا روڈ کو اپنی محفوظ کمین گاہوں تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا، اسی طرح کچھ دہشت گردوں نے یاراک (بنوں) روڈ کو اپنے فرار کے لئے مفید پایا، جبکہ ان سڑکوں پر سے انتظامی عملہ اور ان کی چوکیاں شہر سے غائب تھیں۔ تاہم یہ دستاویز اس حوالے سے بالکل خاموش ہے کہ اگر پولیس اور فوج بھی اپنی پوزیشن پر موجود تھی تو ان کی جانب سے فرار ہوتے دہشت گردوں اور قیدیوں کو پکڑنے کے لئے جو ایکشن لیا گیا وہ کیا تھا۔جیسا کہ اس رپورٹ کے ساتھ منسلک ایک رف اسکیچ میں دکھایا گیا ہے۔27 جولائی کو اس حملے کے سلسلے میں انٹیلی جنس وارننگ موصول ہونے کے بعد پولیس، ایلیٹ فورس، فوج اور ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل کمشنرز کی جانب سے اُٹھائے گئے جامع اقدامات کی تفصیلات کیا فراہم کی گئی ہیں۔ جیل کا معائنہ، مشترکہ فرضی مشقیں اور اہلکاروں کی تعیناتی کے معاملات ان اجلاسوں میں شامل تھے۔
خبر کا کوڈ : 335782
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش