0
Saturday 31 May 2014 20:16

جنت کی چابی کا اولین مستحق کون؟

جنت کی چابی کا اولین مستحق کون؟
رپورٹ: ایس این حسینی

جنت کی چابیوں کی تقسیم کی کہانیوں سے آج کل کون واقف نہیں ہوگا۔ کسی زمانے میں تو سنتے تھے کہ جنت کا اختیار اللہ تعالٰی نے چند مخصوص ہستیوں کے سپرد کیا ہے، جنت کے مختلف شعبوں کی سربراہی کے لئے اللہ تعالٰی نے جن پانچ ہستیوں کا انتخاب کیا ہے، ان میں سے صاحب لولاک حضرت محمد مصطفٰی (ص) اور علی مرتضٰی (ع) کو آب کوثر کی نگرانی، سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزاھراء (س) کو جنت کی خواتین کی سرداری جبکہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو سیدا شباب اھل الجنۃ کی سند یعنی جنت کے جوانوں کی سرداری سونپی گئی ہے، جو آخرت میں لوگوں کی شفاعت کریں گے، آب کوثر تقسیم کریں گے، وغیرہ۔ تاہم اسکے برعکس آج کل اسی دنیائے فانی میں، بلکہ ہمارے ہی وطن عزیز پاکستان میں جنت کی چابیوں کی تقسیم کا ٹھیکہ سرکار نے طالبان نامی ایک فرم کو دے رکھا ہے۔ جو بغیر کسی روک ٹوک کے، جوانوں کو مخصوص مقامات پر پہلے حوروں کی ملاقات سے شرفیاب کراتے ہیں، اور کچھ دن بعد ایک چابی اور ایک سند ہاتھ میں تھما کر جنت خلد کی جانب روانہ کر دیتے ہیں۔

فیس بک کے ناظرین کے مشاہدے میں شاید ایک ویڈیو آچکی ہوگی، جس میں پاکستانی شرپسند گروہ طالبان، ایک متذبذب خودکش بمبار کو اپنا مشن مکمل کرنے کے لئے مجبور کر رہے ہیں۔ مذکورہ ویڈیو میں ایک شخص، خودکش جیکٹ میں ملبوس پاکستانی لڑکے سے پوچھتا ہے کہ کیا تم خودکش مشن کے لئے تیار ہو۔؟ لگ بھگ سولہ یا سترہ سال کا یہ لڑکا اپنے قبائلی پشتون لہجے میں کہتا ہے کہ نہیں۔ عسکریت پسند اسکے منفی جواب کا کوئی لحاظ نہیں کرتے۔ ایک مٹی کے جھونپڑے سے زبردستی نکال کر جب اسے آگے لے جا رہے ہوتے ہیں، تو ان کا کمانڈر عسکریت پسندوں کو حکم دیتا ہے کہ اسے گاڑی میں بٹھا کر "قمر ویخ" لے جائیں، تاکہ یہ اپنا کام مکمل کرسکے۔ قمر ویخ کا علاقہ وادی تیراہ کی تحصیل جمرود کی پٹی میں واقع ہے۔ لڑکا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے اور رونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے گھرانے کا واحد کفیل ہوں۔

عسکریت پسند اس کے خدشات کی پروا نہ کرتے ہوئے مختلف طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض اسے گلے لگا کر اس کی "شہادت" پر مبارک باد دیتے ہیں، جبکہ دیگر اس کی ہچکچاہٹ اور انکار کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کمانڈر کہتا ہے کہ تمہیں کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑے گا۔ صرف ایک بٹن دبانا ہے اور بس۔ 72 حوریں تمہارے استقبال کے لئے انتظار کر رہی ہیں۔ حوروں اور شہادت میں عدم دلچسپی دکھا کر وہ بار بار اس جوان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وڈیو کے اختتام پر عسکریت پسند کہتے ہیں کہ وہ اسے آخری بار اپنے گاؤں جانے کی اجازت دیں گے، مگر اسے یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ واپسی پر اسے تفویض کردہ خودکش بم حملے کا مشن پورا کرنا ہوگا۔ اس اور اس جیسے دیگر واقعات کو دیکھ کر ذھن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کوئی بھی اچھی چیز ہر انسان سب سے پہلے اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ نفع دنیوی ہو یا اخروی، اس دوڑ میں شمولیت کی غرض سے ہر شخص سب سے پہلے اپنے ہی نام کا اندراج کراتا ہے۔

اب حیرانگی اس منطق پر ہوتی ہے کہ کئی سال کی محنت کی بجائے صرف ایک یا چند سیکنڈ کے وقفے میں جنت پہنچنے کی خوشخبری دینے والے یہ لوگ، خاص طور پر انکے روحانی سرپرست اور پیشوا مولوی حضرات اپنی اس خاندانی جنت میں خود یا اپنے بچوں کو کیوں نہیں بھیجتے۔ بلکہ اسکے برعکس انکے اپنے بچے تو ان کے تائسیس کردہ مدارس پر یورپ اور امریکہ میں پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان مولوی صاحبان کے جو بچے قدرے ذہین ہوتے ہیں، وہ یورپ اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ یہاں ہر مولوی کا ایک آدھ بچہ اپنے والد کا اکلوتا وارث بننے کے لئے بادل نخواستہ دینی تعلیم حاصل کرنے پر مبنی اپنے والد کی خواہش پوری کرتا ہے، تاہم والدین کے ایسے ورثاء کے لئے کچھ خصلتوں سے متصف ہونا بھی لازمی ہوتا ہے۔ جن میں سے چند اہم درجہ ذیل ہیں۔

1۔ کسی بھی پرائیویٹ سکول میں کم از کم ایک درجن سے زیادہ مرتبہ فیل ہونا۔
2۔ سکول میں کم از کم کئی سو مرتبہ لڑائی کا شرف حاصل کرکے بار بار خارج اور دوبارہ داخل ہونا۔
3۔ اخلاقی لحاظ سے سکول میں ترتیب نزولی کی طرف سے پہلی پوزیشن کا حامل ہونا۔
4۔ جبکہ سکول سے آخری مرتبہ سٹرک آف ہونا اسکی آخری اور سب سے اہم شرط ہے۔
یہ بچے مجبوراً اپنے والد کے مدرسے میں پڑھ کر بڑا ہوکر اسی ادارے کے انچارج پرنسپل اور کچھ عرصہ بعد فل پرنسپل بن جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ انکی سینیارٹی ہوجاتی ہے، اور مفتی اعظم کے اعلٰی عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ بالا چار مراحل سے گزرنے اور بار بار خود سزا بھگتنے، مرغا بننے، تشدد سے دوچار ہونے والے یہ مولوی دہشتگردوں کی حمایت نہیں کریں گے تو اور کس کی حمایت کریں گے۔ سادہ لوح بچوں اور جوانوں میں جنت کی اسناد تقسیم کرنے اور ہزاروں محب وطن افراد کو بزعم خود جھنم بھیجنے کا شرف ایسے لوگوں کے علاوہ کون حاصل کرسکتا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 387766
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش