0
Monday 18 Oct 2010 11:18

جھوٹی خبر کو وزیراعظم کی تردید پر ترجیح دینا اس کے منصب کی توہین ہے،ججوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں،وزیراعظم گیلانی

جھوٹی خبر کو وزیراعظم کی تردید پر ترجیح دینا اس کے منصب کی توہین ہے،ججوں کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں،وزیراعظم گیلانی
اسلام آباد:اسلام ٹائمز-وقت نیوز کے مطابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اگر کسی ذریعے سے پھیلائی گئی جھوٹی خبر کو وزیراعظم کی جاری کی گئی تردید پر ترجیح دی جائے گی تو یہ وزیراعظم کے منصب کی توہین ہو گی۔میں نے اس خبر کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے،یہ قوم کو معلوم ہو جائے گا کہ کس نے عدلیہ اور حکومت کے درمیان تعلقات پر شب خون مارنے کی کوشش کی ہے۔ہم اگر فوج کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں،سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر اتفاق رائے پیدا کر سکتے ہیں،تو عدلیہ کے ساتھ مل کر بھی چل سکتے ہیں،آج عدلیہ اور حکومت کو مل کر قانونی، سماجی اور معاشی انصاف کے لئے کمربستہ ہونا ہو گا،اس مقصد کے لئے معزز جج صاحبان کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوں،میں اس کے لئے فورم بنانے کو تیار ہوں۔ 
انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں افواہوں کی اتنی حکمرانی ہو کہ ان کے مقابلے میں وزیراعظم کی بات بے وزن ہو جائے،تو قوم کو سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ٹی وی اور ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہا ہے کہ کسی کو ہم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ ہماری موجودگی میں اداروں کے درمیان تصادم کا امکان ہے،میں نے خبر کے بارے میں انکوائری کا حکم دے دیا ہے،معلوم کیا جائے کہ کس نے عدلیہ اور حکومت کے تعلقات پر شب خون مارنے کی کوشش کی،تاریخ واقعات کا ایک تسلسل ہے۔اس کا ہر دور افراد اور اقوام کے لئے نئے چیلنج اور نئی ذمہ داریوں کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔1947ء میں تاریخ نے ہمارے آباﺅ اجداد کے سامنے ایک چیلنج رکھا تھا۔قائد اعظم رہ کی قیادت میں ہمارے بزرگوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور تاریخ میں سرخرو ہوئے۔آج وقت نے ایک چیلنج ہمارے سامنے رکھا ہے۔یہ چیلنج قائداعظم رہ کے پاکستان کی تعمیر ہے۔تاریخ لکھی جا رہی ہے۔یہ فیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کہ ہم تاریخ میں کس عنوان کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں، یہ فیصلہ صرف مجھے نہیں کرنا۔یہ فیصلہ آپ نے،آپ کے ریاستی اداروں اور آپ کے منتخب نمائندوں نے کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج میں اکیلا نہیں۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام صوبوں کے نمائندہ لوگ میرے ساتھ بیٹھے ہیں۔وزیراعظم آزاد کشمیر یہاں موجود ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت ہے،لیکن یہ اتحادی حکومت ہے،آج کا سب سے بڑا چیلنج سیاسی استحکام ہے۔اس بارے میں سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور گفتگو ہوتی ہے۔ 
میں آج امید کو زندہ کرنا چاہتا ہوں۔پاکستان مشکلات کے باوجود معرض وجود میں آیا،اُس وقت اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی۔قیام کے بعد بھی اسے اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا رہا۔اسے آمریت کے زخم لگے،خارجی قوتوں نے بھی اسے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔لیکن اس کے ساتھ تاریخ کا پیغام یہ بھی ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لئے اس کی سلامتی اور استحکام کے لئے بھی اس قوم کے لوگوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔1965ء ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے،1973ء بھی جب قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو ملک کا پہلا متفقہ آئین دیا۔اس آئین کو آمریت کے بہت سے زخم لگے۔اس کو ترامیم سے چھلنی کیا گیا،لیکن یہ اعزاز بھی اللہ نے ہمارے مقدر میں لکھا تھا کہ عوام کی نمائندہ قوتوں کے ساتھ ہم نے ان زخموں پر مرہم رکھا اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے 1973ء کا اصل آئین بحال کیا۔ 
آج اللہ کا شکر ہے کہ یہ آئین اپنی وفاقی اور پارلیمانی روح کے ساتھ اس ملک کی سب سے مقدس دستاویز ہے۔اس جمہوریت اور آئین کی بحالی کے لئے ہم دوسری جمہوری قوتوں کی خدمات کے بھی معترف ہیں۔میاں نواز شریف نے بھی ایک مشکل وقت دیکھا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے جدوجہد کی۔تاریخ ان کے اس کردار کی تحسین کرے گی اور ان کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو آئین کا احترام کرتے ہیں۔یہ بھی ہماری اس مفاہمت پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے اس آئین اور اداروں کی بقاء کے لئے جدوجہد کی ہے۔ہمیں ان کی بقاء سب سے زیادہ عزیز ہے۔یہ اعزاز بھی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے حصے میں آیا کہ فوج اور عدلیہ کی بعض شخصیات کا زخم خوردہ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے غم کو افراد سے اداروں کی طرف منتقل نہیں ہونے دیا۔شہید بے نظیر بھٹو نے فوجی قیادت کو تمغہ جمہوریت دے کر یہ اعلان کیا کہ وہ جنرل ضیاءالحق کی ذات اور فوج میں فرق کرتی ہیں اور فوج انہیں ایسی ہی عزیز ہے،جتنی کسی پاکستانی کو ہوسکتی ہے۔ 
شہید محترمہ یہ جانتی تھیں کہ وطن کا دفاع قائد عوام کو کتنا عزیز تھا۔انہوں نے ہر خطرے کا سامنا کیا۔خود موت کو گلے لگا لیا،لیکن پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا خواب مرنے نہیں دیا۔محترمہ نے خود جب میزائل ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی،تو یہ وطن سے محبت اور اس کے دفاع کا اظہار تھا۔شہید نے لیاقت باغ میں اپنی آخری تقریر میں جس طرح اپنے اس عزم کو دہرایا تھا اس ملک کے عوام اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔اسی طرح قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو ساری دنیا عدالتی قتل کہتی ہے،لیکن یہ شہید بے نظیر بھٹو تھیں جو 3 نومبر2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد چیف جسٹس کے گھر پہنچیں اور اعلان کیا کہ یہاں ایک بار پھر پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا۔اس جدوجہد میں وہ گرفتار ہوئیں اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اس مقصد کے لئے کئی دن تھانے اور حوالات میں گزارے۔ملتان میں ہوتے ہوئے میں اپنے گھر نہیں سویا اور جب ہماری حکومت بنی تو ججوں کی رہائی ہمارا پہلا ایجنڈا تھا۔
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے میں نے جج حضرات کی بحالی کا فیصلہ کیا،تو مجھے بتایا گیا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔یہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔آپ پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہو سکتا ہے۔میں نے ان آوازوں پر کان نہیں دھرا۔میں نے کسی خطرے کو اہمیت نہیں دی اور جج حضرات کی بحالی کا اعلان کر دیا۔مجھے یہ بھی کہا گیا کہ اس ایگزیکٹو آرڈر کی پارلیمنٹ سے توثیق ضروری ہے۔میں نے بعد میں اپنی ایک تقریر میں اس کا حوالہ دیا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے تھے،لیکن میں پھر بھی جج صاحبان کی بحالی کے فیصلے پر ڈٹا رہا۔میری اس تقریر کو مختلف معنی پہنائے گئے۔ میں نے اُس وقت واضح کر دیا تھا کہ میں نے اپنی رائے کا اظہار نہیں،صرف وہ پس منظر واضح کیا تھا جس میں ہم نے یہ فیصلہ کیا۔
ہم ایک پارلیمانی جمہوری نظام میں زندہ ہیں۔جمہوریت کا یہ تصور تقسیم کار اور باہمی احترام کے اصول پر کھڑا ہے۔یہ ہمیں ہر ریاستی ادارے کے احترام کا درس دیتا ہے۔ اس میں عدلیہ،مقننہ،انتظامیہ اور میڈیا سمیت سب ادارے احترام کے مستحق ہیں۔اس میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام ہے،جن کے جوان وطن کے دفاع کے لئے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔اس میں انتظامیہ کا احترام ہے، جو رات دن کام کر کے ملک کے نظم و نسق کو برقرار رکھتے ہیں۔اس میں پارلیمنٹ کا احترام ہے،جو قانون ساز ادارہ ہے اور عوام کا منتخب ادارہ ہونے کی وجہ سے سپریم شمار ہوتا ہے۔وزیراعظم کو اس نظام میں لیڈر آف دی ہاﺅس کہا جاتا ہے۔یہ منصب بھی احترام کا مستحق ہوتا ہے۔
وزیراعظم کوئی بات زبان سے کہے یا قلم سے اس کا احترام ہوتا ہے۔اگر وہ زبان سے کہے کہ جج حضرات کی نظربندی ختم کی جائے تو پھر انہیں پابند نہیں رکھا جا سکتا۔اگر وہ معزز جج صاحبان کی بحالی کا اعلان کرے تو اسے تسلیم کیا جاتا ہے۔اسی طرح اگر آج وہ کسی خبر کی تردید کرتا ہے تو اس منصب کا تقاضا ہے کہ اس کی بات کو ہر فورم پر تسلیم کیا جائے۔اگر کسی ایک ذریعے سے پھیلائی گئی جھوٹی خبر کو وزیراعظم کے قول پر ترجیح دی جائے گی،تو پھر یہ وزیراعظم کے منصب کی توہین ہو گی،میں نے اس خبر کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔اس سے قوم کو معلوم ہو جائے گا کہ کس نے عدلیہ اور حکومت کے تعلقات پر شب خون مارنے کی کوشش کی۔آپ کو یاد ہو گا کہ جب یہ خبر سامنے آئی کہ ایگزیکٹو آرڈر واپس لیا جا رہا ہے،تو میں نے اسی وقت اس کی تردید کر دی تھی۔صدر نے بھی اسے غلط قرار دیا۔اس کے باوجود اگر اسے تسلیم نہ کیا جائے تو پھر مجھے یاد دلانا پڑے گا کہ ہم باہمی احترام کے اس اصول کو نظرانداز کر رہے ہیں،جو آئین کی روح ہے۔ہم آئین کی اس روح کو کبھی نظرانداز نہیں کرسکتے۔ 
کسی کو ہم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ ہماری موجودگی میں اداروں کے درمیان کسی تصادم کا امکان ہے۔اس آئین کا ہم سے یہ تقاضا ہے کہ ہم عوام کی فلاح و بہبود کو ہر کام پر ترجیح دیں۔ہم انتظامیہ کو اس کے لئے یکسو کریں اور دیگر ریاستی اداروں کو بھی اس کام میں اپنے ساتھ شریک کریں۔اس میں سب کی بھلائی ہے۔اس کا ایک مظاہرہ ہم نے حالیہ تاریخ میں ریاستی اداروں کے اتفاق رائے میں دیکھا۔سوات آپریشن ہماری تاریخ کا ایک سنہری باب ہے،جب ہم نے اس خوبصورت اور جنت نظیر وادی کو ان لوگوں سے آزاد کرایا جو اس کے حسن کو پامال کر رہے تھے اور انسانی جانوں سے کھیل رہے تھے۔ہم نے جنوبی وزیرستان میں سماج دشمن عناصر کے خلاف جانوں کے نذرانے پیش کئے،تاکہ عوام کو دہشت گردی سے نجات دلائی جائے۔
ہم نے سیلاب کے دنوں میں بھی ثابت کیا کہ ریاستی ادارے مل جائیں تو بڑی سے بڑی مصیبت کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔جب سیاسی قوتیں مل بیٹھیں تو ہم نے ایک طرف 18 ترمیم سے 1973ء کے آئین کو بحال کیا اور دوسری طرف این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں اور مرکز میں موجود غلط فہمیوں کو دور کیا۔اسی طرح اگر حکومت اور عدلیہ مل کر اقدام کریں تو ہم اس ملک کے غریب لوگوں کو انصاف دلا سکتے ہیں۔ہم عوام کی غاصب قوتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں۔ہم اگر فوج کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں،اگر سیاسی قوتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرسکتے ہیں،تو یقینا عدلیہ کے ساتھ مل کر بھی چل سکتے ہیں۔اس مقصد کے لئے ہم کوئی بھی لائحہ عمل مرتب کر سکتے ہیں،صورت کوئی بھی ہو ہمیں سوچنا ہو گا کہ حکومت اور عدلیہ مل کر کیسے اس ملک کے عوام کو انصاف فراہم کر سکتے ہیں۔ 
میں عوام کا نمائندہ ہوں میں جانتا ہوں کہ آج معاشرے میں انصاف کی طلب کتنی شدید ہے۔ہم انتظامی اور عدالتی نظام میں بہتری لا کر عوام کی توقعات پر پورا اتر سکتے ہیں۔آج عدلیہ اور حکومت کو مل کر قانونی،سماجی اور معاشی انصاف کے لئے کمربستہ ہونا ہو گا۔میں اس مقصد کے لئے عدالت کے معزز جج صاحبان کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے تیار ہوں۔میں اس کے لئے فورم بنانے پر بھی آمادہ ہوں۔میں عوام کو انصاف کی فراہمی کے لئے ہر قدم اٹھانے کے لئے تیار ہوں اور اس کے لئے جو تجویز بھی سامنے آئے گی،حکومت اس کا خیرمقدم کرے گی۔
آج میں منتخب عوامی نمائندوں کے ساتھ آپ کے سامنے موجود ہوں اور آپ تک یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں ہم اپنی ترجیحات پر نئے سرے سے غور کر رہے ہیں۔عوام کے لئے انصاف معاشی مواقع کی فراہمی،جان و مال کا تحفظ ہماری پہلی اور آخری ترجیح ہے۔بقاء کی اس بے معنی جنگ میں ہم مزید اپنی صلاحیتیں اور وقت ضائع نہیں کر سکتے۔آئین،دستور،ریاستی اداروں اور ملکی حالات پر ہمارا موقف واضح اور دوٹوک ہے۔میں اس کا بار بار اعادہ کر کے اپنا اور قوم کا وقت برباد نہیں کرسکتا۔اب ہمیں عوام کے جان و مال کے تحفظ،مہنگائی،انصاف اور سماج دشمن عناصر کے خلاف متحد ہونا اور اسے اپنی ترجیح بنانا ہو گا۔معاشی استحکام کے لئے بھی ہم اقدامات کر رہے ہیں۔
صوبوں کے نمائندے یہاں موجود ہیں۔ہم نے اس سے پہلے صوبوں کو خط لکھا تھا جس میں واضح کیا گیا کہ 18 ویں ترمیم کے ساتھ مالی اور انتظامی اختیارات کا رخ صوبوں کی طرف کر دیا گیا ہے۔اس طرح این ایف سی ایوارڈ سے بھی صوبوں کے وسائل میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ پالیسی بنائیں،تاکہ ان تاریخی اقدامات کے فوائد براہ راست عوام تک پہنچ سکیں۔اسی طرح ہم صوبوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کے خلاف بھی اعلان جنگ کر رہے ہیں۔اگرچہ ہم نے پہلے بھی اس مسئلے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا،لیکن آج اس کے خلاف ایک نئے عزم سے کام کا آغاز ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے بعض اسباب عالمی ہیں،جن کا سامنا کرنا ہماری مجبوری ہے۔بعض مقامی اور مصنوعی ہیں۔جیسے ناجائز منافع خوری،ذخیرہ اندوزی اور مختلف مافیا کا وجود ہے۔چونکہ اس کا تعلق زیادہ صوبوں کے ساتھ ہے اس لئے صوبائی حکومتوں کی نمائندہ شخصیات یہاں موجود ہیں اور میرے اس عزم میں پوری طرح شریک ہیں۔اس حکمت عملی کے خدوخال جلد قوم کے سامنے آجائیں گے۔
ہم نے ان آٹھ پبلک اداروں کی تشکیل نو کا بھی فیصلہ کیا ہے،جن کی کارکردگی قابل اطمینان نہیں رہی۔اس سے جہاں قومی خزانے پر بوجھ میں کمی آئے گی،وہاں یہ ادارے بہتر طور پر عوام کی خدمت کے قابل ہوں گے۔یہ بھی آپ کے علم میں ہے کہ ہم نے یورپی منڈیوں تک پاکستانی مصنوعات پہنچانے کے لئے کوشش کی۔یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج یورپی یونین نے بہت سی مصنوعات کو ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی بھی ہماری اہم ترجیح ہے۔موسم سرد ہوتا جا رہا ہے اور ہمیں اس سے پہلے ان کے لئے مناسب خوراک لباس اور رہائش کا اہتمام کرنا ہے۔میں بین الااقوامی برادری کا بطور خاص مشکور ہوں،جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں ہمارا ساتھ دیا۔تاہم ہم اس مشکل گھڑی میں کبھی اس تصور سے بے نیاز نہیں ہوئے کہ اپنے ہم وطنوں کی بحالی اور اس مشکل وقت میں ان کی دل جوئی ہماری ذمہ داری ہے۔ 
اس ضمن میں آپ بعض اقدامات سے واقف ہیں،جو حکومت اٹھا چکی ہے۔ہم نے وطن کارڈ سکیم کا اجراء کیا،جس کے تحت تمام متاثرین کو ایک لاکھ روپے کی گرانٹ دی جا ئے گی۔اس کی پہلی قسط بیس ہزار روپے متاثرین کو دی جا رہی ہے۔اس میں پچاس فیصد وسائل مرکز اور پچاس فیصد صوبے فراہم کر رہے ہیں۔یہ ایک مکمل شفاف عمل ہے،جس کا سب اعتراف کرتے ہیں۔اسی طرح ہم نے ایک اور سکیم کی بنیاد رکھی ہے جس کے تحت متاثرہ کسانوں کو زرعی مقاصد کے لئے 2400 روپے فی ایکڑ کے حساب سے امداد دی جا رہی ہے۔اس سے 25 ایکڑ تک زمین رکھنے والے کسان استفادہ کرسکیں گے۔ربیع کی فصل کے لئے قرضوں میں بھی چھوٹ دی جا رہی ہے۔کسان 8 فیصد مارک اپ پر قرضہ لے سکیں گے۔اس میں اضافی مارک اپ جو 5.5 فیصد ہے وہ حکومت ادا کرے گی۔
کشمیر بھی ہمارے قومی ایجنڈے کا حصہ ہے اور اسے ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔کشمیری لوگ ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔یہ محبت بھی ہم نے اپنے قائد شہید بھٹو سے ورثے میں پائی ہے۔آج ہماری کوششوں سے پہلی بار یہ ہوا کہ دنیا اسے ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرنے لگی ہے۔یہ ہماری بڑی کامیابی ہے کہ یورپی پارلیمنٹ نے اس تنازعے پر تین فریقی مذاکرات کا اہتمام کیا۔اس میں کشمیر کی نمائندگی وزیراعظم آزاد کشمیر نے کی۔بھارتی مندوب نے اس عالمی فورم پر تسلیم کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھارتی فوج کے مظالم کا نشانہ بنے ہیں۔ہماری اس تجویز کو بھی تسلیم کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی کو شامل کرتے ہوئے اس تنازعہ کا حل تلاش کیا جائے گا۔ کرپشن اور احتساب کی باتیں یہاں بہت سنی جاتی ہیں۔مجھے اس کے وجود سے انکار نہیں،لیکن میں اس بات سے بھی باخبر ہوں کہ اس ملک میں جتنا احتساب ایک سیاست دان کا ہوتا ہے کسی دوسرے کا نہیں۔ایک سیاست دان کا احتساب اس دن شروع ہو جاتا ہے،جب وہ انتخابی عمل میں شریک ہوتا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ اگر میں نے ایک مہینے یوٹیلٹی کا بل نہ دیا تو ریٹرننگ افسر میرے کاغذات کو مسترد کر دے گا۔دوسرا مرحلہ عوامی احتساب کا ہے جب عوام ووٹ دیتے ہیں۔تیسرا مرحلہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی اور پارلیمنٹ ہے۔اس کے ساتھ ملک کی عدالتوں میں بھی اس کا احتساب کیا جا سکتا ہے۔ہم نے پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا سربراہ قائد حزب اختلاف کو بنایا۔یہ سب اس لئے ہے کہ اگر کوئی ملک کے آئین اور قومی وسائل کے ساتھ کھیلے تو بچ کر نہ جائے۔ہم اسے مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔اس کے لئے ایک مسودہ ِقانون زیرِبحث ہے۔
 اس میں تاخیر ہے تو اس لئے کہ دوسرے معاملات کی طرح میں اس معاملے میں بھی اتفاق رائے کی تلاش میں ہوں۔میں اس پر پوری طرح واضح ہوں کہ اگر اڑھائی سال میں ہم نے کسی محاذ پر پیش رفت کی تو اس کی بنیاد ہماری مفاہمت کی سیاست ہے۔ہم نے دوسروں کا احترام کیا ¾ انہیں عزت دی۔لوگوں نے ہمارے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا،لیکن ہم نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور ہم خاموش رہے۔صرف اس لئے کہ آصف زرداری یا یوسف رضا گیلانی کسی فرد کے نام نہیں۔یہ بعض آئینی مناصب پر فائز ہیں اور ان کے مناصب کا تقاضا ہے کہ اپنی ذات کو نظرانداز کیا جائے اور اپنے منصب کے تقاضوں کو فوقیت دی جائے۔لیکن اگر کوئی اسے ذاتی جنگ بنا دے اور اس کام میں قومی مفاد کو نظرانداز کر دے،تو پھر حکومت کو سوچنا پڑتا ہے اور یقینا قوم کو بھی سوچنا چاہئے۔
اگر ملک میں افواہوں کی اتنی حکمرانی ہو کہ ان کے مقابلے میں وزیراعظم کی بات بے وزن ہو جائے تو قوم کو سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔اگر چند میڈیا کے لوگ یہ گواہی دیں کہ تبدیلی کی خبروں کی آڑ میں جوا،سٹہ اور دوسرے سماجی جرائم ہو رہے ہیں تو پھر سوچنا پڑے گا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔اگر ان خبروں کی آڑ میں سٹاک ایکسچینج اور کاروبار میں عام آدمی کی جمع پونجی ڈبو دی جائے تو قوم کو سوچنا چاہئے کہ اس کا دوست کون ہے اور دشمن کون؟ قوم کے سنجیدہ لوگ یقینا اس پر سوچ رہے ہیں اور حکومت بھی۔ 
آج قوم کے نمائندے آپ کے رُوبرُو ہیں۔آج محض ملک کا وزیراعظم آپ سے مخاطب نہیں،منتخب حکومتوں کے نمائندے آپ کے سامنے ہیں۔یہ اسی عزم کی تجدید ہے کہ ہم اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ اور عوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ 2013ء میں ہمیں ایک بار پھر آپ کے پاس جانا ہے۔جو سیاست دان عوامی جواب دہی کے احساس سے عاری ہو جاتا ہے اس کی سیاست ختم ہو جاتی ہے۔جس طرح کوئی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وقت سے پہلے اس کی بساط لپیٹ دی جائے،اسی طرح کوئی سچا سیاست دان بھی نہیں چاہتا کہ وہ عوام میں رسوا ہو۔ہم نے مفاہمت کی جس حکمت عملی کو پہلے دن سے اپنایا ہے ہم اسے برقرار رکھیں گے۔یہ مفاہمت سیاسی قوتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان بڑھے گی۔اس کی بنیاد محض ایک نکتہ ہے: عوام کی فلاح بہبود :انشاءاللہ تعالیٰ ہم عوام کے سامنے سرخرو ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 40741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش