0
Sunday 2 Nov 2014 15:41

کیا سحر بتول کو انصاف مل پائے گا؟

کیا سحر بتول کو انصاف مل پائے گا؟
رپورٹ: این ایچ حیدری

انسانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ماضی میں بہت سے ایسے معاشرے تھے، جن میں عورتوں کو انسانی معاشرے سے بالکل الگ کردیا گیا تھا اور ان کو حیوانات کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا۔ کبھی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا اور کبھی مویشیوں کیساتھ ان کا تبادلہ کیا جاتا تھا۔ کبھی خود غرض اور منافع پرست عیاش اور بدسرشت انسان عورتوں کی اہمیت کو ختم کر دیتے تھے۔ مثلاً یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا۔ لہذا سوائے خدمت گزاری اور نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کے علاوہ اسے ہر کام سے روک دیا جاتا تھا۔ اسی طرح رومی قوم عورتوں کو روحِ انسانی سے خالی جانتے ہوئے ان کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے لائق نہیں‌ سمجھتے تھے، جبکہ ساسانی بادشاہی کے زمانے میں ملکی قوانین کے مطابق عورت کو کوئی قانونی حیثیت نہ ہوتی تھی۔ لہذا اسکا شمار انسانوں میں ہونے کی بجائے اشیائے خرید و فروخت میں ہوتا تھا اور اسکے ساتھ ساتھ عرب دور کے زمانہ جاہلیت کی داستانوں سے تو حضرات خوب واقف ہیں۔

لیکن اسی اثناء میں صرف دینِ مبین اسلام ہی تھا، جس نے عورت کو انسانی اور حقیقی قدر و اہمیت دی۔ اس کو خاندان کی تکمیل اور اس کے بانی کے طور پر پیش کرتے ہوئے فکر و ایمان کی بنیاد قرار دیا۔ لیکن چودہ سو سال بعد آج ایک مرتبہ پھر انسان کے روپ میں چند درندہ صفت عناصر ایسے گھناؤنے اعمال کے مرتکب ہو رہے ہیں، جس سے شاید خود انسانیت بھی شرمندہ ہو۔ اسلام کے نام پر شیطانی قوتوں کے مذموم عزائم کی تکمیل کا خواب لئے، تکفیری دہشتگردوں نے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مرد بچوں اور بزرگوں کو نشانہ بنایا، اب وہی درندے حوا کی بیٹیوں اور کنیزان زینب (س) کو بھی بربریت کا نشانہ بناتے ہوئے بزدلانہ فعل کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسی سال جنوری کے مہینے میں‌ شیعہ زائرین کے بس کو مستونگ کے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ جس میں مردوں سمیت خواتین زائرین بھی موجود تھیں۔ اسی بس میں وومن یونیورسٹی کی ایک شیعہ ہزارہ طلبہ مہرین کوثر بھی دھماکے کی زد میں آگئی۔ مہرین کوثر کی ایک جوان بہن اور ماں بھی اسکے ساتھ موجود تھیں، جو شہید ہوگئں تھیں، جبکہ خود مہرین کوثر دھماکے کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئی۔ 

دھماکے کا خوفناک منظر اور اپنی عزیز ماں و بہن کو ہمیشہ کیلئے کھوں دینے کا غم اس کنیزہ کیلئے انتہائی دردناک ہوگا۔ لیکن پھر بھی اس نے اپنی پڑھائی کو دوبارہ جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔ مکمل صحت یاب نہ ہونے کے باوجود بھی یونیورسٹی جانے کی خواہش مند مہرین کوثر کو اس وقت بہت افسوس ہوا، جب اسے یہ خبر ملی کہ یونیورسٹی کی بس اب علمدار روڈ نہیں آتی۔ دہشتگردی کے خوف میں مبتلاء یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ دیگر مسالک کی طالبات شیعہ ہزارہ طالبعلموں کیساتھ سفر کرنے سے گریزاں ہیں۔ لہذا انکی بس علمدار روڈ کے اندر نہیں آسکتی۔ انہی وجوہات کی بناء پر اسے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔ لیکن ملالہ کی طرح یہ بچی اتنی خوش نصیب نہیں تھی، جسکے لئے ملکی حکومت سمیت بین الاقوامی ادارے امداد کیلئے آپہنچتے۔ 

ظلم کی یہ داستان یہی پر نہیں رکتی، بلکہ چند روز قبل اغواء ہونے والی ایک چھوٹی سے ننھی بچی کے دردناک واقعے نے اس وقت پورے کوئٹہ کی فضاء کو سوگوار بنایا ہوا ہے۔ شیعہ ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے ایک غریب سکیورٹی گارڈ جسکی چھے سالہ ننھی بیٹی جسکا نام سحر بتول تھا، اسے نامعلوم افراد نے چند روز قبل اغواء کیا۔ یوں تو اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کوئٹہ میں حکومتی نااہلی کے سبب آئے دن ہوتی رہتی ہیں، لیکن جب اس مظلومہ کی تشدد زدہ لاش کوئٹہ پولیس لائن کے نالے میں ملی، تو اسکے والدین کیلئے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ ظلم تو یہ کہ سحر بتول کو نہ صرف بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ اسے بے دردی سے ذبح بھی کر دیا گیا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں ایک تکفیری دہشتگرد مولوی کے ملوث ہونے کی اطلاعات ہے، جبکہ حکومت اور انتظامیہ اپنی ناکام روایتی کارروائیوں تک ہی محدود ہے۔ اسی طرح مظلوم ننھی سی بچی کیخلاف بربریت کو ملکی میڈیا بھی یکسر نظر انداز کر رہا ہے۔ بلوچستان کی قبائلی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کا واقعہ رونماء ہوا ہے۔ جہاں کی قبائلی روایات میں عورتوں‌ کو ہمیشہ ایک مخصوص مقام حاصل رہا ہے۔

داعش کے طرز پر پہلی مرتبہ ایک ننھی سی شیعہ بچی کو ذبح کیا گیا ہے۔ صوبے میں ان تکفیری دہشتگردوں کی موجودگی کا اعتراف وزیراعلٰی پہلے ہی کرچکے ہیں۔ اب یہ مذکورہ گھناؤنے واقعات کس جانب اشارہ کر رہے ہیں۔؟ چاہے اس واقعے میں داعش کے دہشتگردوں کا خفیہ پیغام ہو، یا اس میں ہوس کا پجاری کوئی تکفیری درندہ ملوث ہو۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا ملالہ کی طرح اس بچی کو بھی انصاف مل پائے گا۔؟ یا اس واقعے کو یونہی نظر انداز کرتے ہوئے مستقبل کیلئے ایسے عناصر کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے گی۔؟
خبر کا کوڈ : 417734
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش