0
Monday 14 Sep 2020 23:03

قومی اسمبلی اجلاس، خاتون زیادتی کیس پر حکومت اور اپوزیشن کی ایکدوسرے پر تنقید

قومی اسمبلی اجلاس، خاتون زیادتی کیس پر حکومت اور اپوزیشن کی ایکدوسرے پر تنقید
اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی میں موٹروے زیادتی کیس پر بحث کے بجائے بھی حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے پر تنقید ہی کرنے لگی۔ اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ جس میں اپوزیشن کی جانب سے لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون سے اجتماعی زیادتی کے واقعے اور سی سی پی او لاہور کے بیان کی شدید مذمت کی گئی جبکہ جواب میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن پر الزامات لگائے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ موٹر وے واقعے پر ہر آنکھ اشک بار ہوئی، اس واقعے پر سب کے سر شرم سے جھک گئے، اس حوالے سے سی سی پی او کا بیان شرمناک ہے، پولیس افسر نے بیان دیا کہ پیٹرول نہیں تھا تو رات کے اندھیرے میں کیوں نکلی، پولیس افسر کے بیان سے پوری قوم کے دل زخمی ہوگئے، اداروں کی رپورٹ کہہ رہی تھی یہ پولیس افسر کرپٹ ہے لیکن ڈھٹائی کے ساتھ اس پولیس افسر کو سی سی پی او تعینات کیا گیا۔ شکر کی بات ہے کہ آج واقعے کا ایک مجرم گرفتار ہوگیا، حکومت اس بحث پر الجھی ہوئی تھی کہ موٹروے پر کس کا کنٹرول ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ زینب واقعے کو پی ٹی آئی نے سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی تھی، موٹروے واقعے پر اپوزیشن پارٹیوں نے ذمہ داری کا کردار ادا کیا، اس واقعے پر سیاسی پارٹیوں نے کوئی سیاست نہیں کی، ہماری حکومت نے زینب واقعے میں 1300 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے تھے، نوازشریف کے دور میں پولیس ریفارمز کی گئیں، ڈولفن پولیس فورس اور فرانزک لیب نواز شریف کے دور میں بنا، پنجاب فرانزک لیب دنیا کی سب سے بڑی دوسری لیب ہے، پنجاب میں پولیس افسروں کی تعیناتیاں 95 فیصد میرٹ پر ہوتی تھیں، وزیراعظم کو کوئی پرواہ نہیں ہے، وزیراعظم کو کوئی پرواہ نہیں ہے، کمیٹی تشکیل دی جائے کہ موٹروے پر تعیناتی میں تاخیر کی کیا وجہ تھی۔

قائد حزب اختلاف کے اظہار خیال کے جواب میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے کہا کہ موٹروے واقعے پر جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے، موٹروے واقعے پر پورے ملک کو غم ہے، ہم نظام کو ٹھیک کرنے پر بحث نہیں کر رہے۔ ہمارے ہاں بحث برائے بحث اور برائے سیاست ہو رہی ہے ایوان میں ہم نے دو قسم کی بحث شروع کر رکھی ہے، اس بات پر بحث نہیں ہو رہی ہے کہ درندوں کو کیسے عبرت کا نشان بنایا جائے، بحث ہو رہی ہے کہ سانحہ موٹر وے پر مراد سعید مستعفیٰ ہو جائے، دوسری بحث یہ ہو رہی ہے کہ پنجاب فرانزک لیب کس نے بنائی۔ خدا کے لیے یہ بحث نہ کریں کہ لیب کس نے بنائی اور مراد سعید کہاں ہے۔ مراد سعید کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ موٹر وے پر نہیں ہوا، 130 پر کی گئی کال میں نے خود سنی، جن کی ذمہ داری تھی ان کے ساتھ رابطہ کرایا گیا تھا، بحیثیت مرد موٹر وے واقعے کا میں ذمہ دار ہوں، اس واقعے کی ذمہ دار ریاست ہے، یہ واقعہ جہاں پر بھی ہوا میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ یہ ایوان اگر متاثرین کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتا تو نمک پاشی نہ کرے، اس واقعے کے بعد بچیاں خوفزدہ ہیں ایوان ان خواتین کا خوف دور کرے۔ ان بچیوں اور خواتین کو بتایا جائےکہ ریاست آپ کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔

قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وفاقی وزیرانسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈرکی یہ بات درست نہیں کہ وہ قوم کی بیٹی تھی بلکہ کہیں عورت تھی، ہماری عزت کسی کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی کے طور پر نہیں عورت کی حیثیت سےکی جائے، ہمیں یہ قبول نہیں کہ ہمیں کسی محرم کو ساتھ لے کر نکلنا ہے، اگر مرد اپنے آپ کو قابو نہیں کرسکتے تو انہیں گھروں میں بند کریں، شہباز شریف کو عورتوں کا بڑا درد ہے تو ماڈل ٹاؤن کا بھی ذکر کرلیتے، ہم عابد باکسر بھول گئے، ماڈل ٹاؤن میں 2 خواتین کے منہ میں گولیاں ماری گئیں۔ شیریں مزاری نے کہا کہ ہمیں سزائے موت پر بھی سوچ سمجھ کر بات کرنا چاہیے، بہت سے ممالک میں موت کی سزا دی گئی مگر جرائم نہیں رکے، بعض ممالک میں کیمیائی مواد سے نامرد کرنے کی سزا نافذ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ ریاست مدینہ میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ خاتون کو کوئی ہاتھ لگاسکے، ریاست مدینہ میں خلفائے راشدین سے کُرتے سے متعلق سوال ہوئے، گزشتہ 2 سال ثبوت ہیں کہ وعدے صرف اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی ہے۔ مانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں ناصردرانی نے پولیس ریفارمز کیں لیکن انہیں پنجاب میں 2 ماہ بھی کام نہیں کرنے دیا گیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سرعام سزاؤں کے لئے اسلام کا حکم ہے، مسلم لیگ (ن) کے رکن کھیل داس کوہستانی کا سرعام سزاؤں کا بل قائمہ کمیٹی میں زیر غور ہے اس بل کو ایوان منظور کرلے۔ زیادتی کے واقعات معاشرے پر بدنما داغ ہیں، مغرب میں ہراسانی پر بھی سخت سزاہے، جب تک سزاوَں پر عمل درآمد نہیں ہوگا، جرائم کم نہیں ہوں گے، ہمیں صرف قانون بنانا نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کرانا ہے، این جی اوز سے متعلق ہم نے قانون سازی کی لیکن عملدرآمد نہیں ہورہا، صرف قراردادیں منظور کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اس ایوان نے بڑی قراردادیں منظور کی ہیں۔

نبی آخر الزمانﷺ نے بچیوں کے ساتھ ظلم کرنے والوں کی سرعام گردن کاٹنے کا اصول متعین کردیا تھا، ظلم کرنے والے کی کوئی جنس نہیں ہوتی، اس کو مرد یا عورت نہ کہیں، ہمیں بحث انسانیت کی تذلیل ہونے پر کرنی ہے، ہمیں قانون سازی کرنی ہے، ایسے درندے کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔ ہمیں قرآن اور سنت کے مطابق سزاؤں کا تعین کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 886256
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش