0
Tuesday 13 Sep 2011 01:09

مذہبی جماعت ’’دعوت اسلامی ‘‘کے بھی نگرانی کا فیصلہ کر لیا گیا

مذہبی جماعت ’’دعوت اسلامی ‘‘کے بھی نگرانی کا فیصلہ کر لیا گیا
لاہور:اسلام ٹائمز۔ پاکستانی عسکری حکام نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد غیر معمولی اقدام کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ فوج کے اندر مذہبی عقائد کو تبدیل کرنے والی تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا جائے، مزید برآں ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ ان تنظیموں کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات کے مسلح افواج میں انتہائی سنجیدہ نتائج مرتب ہوں گے، ’’دعوت اسلامی ‘‘ بظاہر غیر سیاسی بریلوی مکتبہ فکر کی تنظیم ہے اور جس کے عدم تشدد کے مذہبی خیالات کی وجہ سے تاحال سکیورٹی ایجنسیوں نے کبھی کڑی نگرانی نہیں کی تھی، جنوری میں پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے کہ قاتل کا تعلق ایلیٹ پولیس گارڈز سے تھا اور وہ دعوت اسلامی کا پیرو کار تھا، گورنر کا اقبالی قاتل ممتاز حسین قادری تنظیم دعوت اسلامی سے وابستہ پہلا شخص ہے جو مذہب کے نام پر عوام میں پر تشدد طریقہ کار پر عمل کرتا تھا، گورنر کے قتل سے اس تنظیم کے متعلق رائے تبدیل ہوئی۔
انٹیلی جنس ایجنسی کے ذرائع کے مطابق دعوت اسلامی کی فوج میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور پھیلتے ہوئے اثرات پر ایجنسی نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق قتل کے واقعے کی ایک انفرادی حیثیت ہے لیکن ہم اس سے مطمئن نہیں ہو سکتے اسی لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دعوت اسلامی کی فوج میں نگرانی کی جائے۔ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق نہ صرف دعوت اسلامی کے عقائد تیزی سے پھیل رہے ہیں بلکہ فوج میں اسی تنظیم کے پیروکار سرمایہ فراہم کرنے کا اصل ذریعہ ہیں۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ صرف رمضان کے مہینے میں دو کروڑ سے زیادہ کا چندہ پاکستان ایئر فورس سے جمع کیا گیا ہے۔
فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، فوج میں ایسی تمام تنظیموں کی موجودگی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے تاہم کسی بھی فرد کو اس کے مذہبی عقائد پر عمل کرنے سے نہیں روکا جاسکتا جب تک کہ وہ فوج کے ڈسپلن کی خلاف ورزی نہ کرے۔ مغربی ممالک کی طرف سے پاکستانی فوجی حکام کے مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ رابطوں کا الزام اکثر لگایا جاتا ہے۔ فوجی حکام نے تصدیق کی کہ جون میں ایک اعلیٰ فوجی آفیسر کو اس کے چار ساتھیوں سمیت پکڑا گیا تھا جن کا تعلق کالعدم تنظیم حزب التحریر سے تھا، بریگیڈیئر علی خان اور چار میجر ابھی تک فوج کی حراست میں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 98267
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش