3
Tuesday 27 Feb 2024 19:26

خواب اور استخارے سے امام مہدی بننے کا عمل

خواب اور استخارے سے امام مہدی بننے کا عمل
تحریر: نذر حافی

کچھ عرصہ پہلے ایران کے صوبہ مازندران میں ایک عالم دین کا قتل ہوا۔ سب یہ جان کر ششدر رہ گئے کہ قاتل تو احمد اسماعیل بصری کا پیروکار نکلا۔ بصری کے پیروکار انصارالمہدی کہلاتے ہیں۔ اُن کے پیشوا احمد اسماعیل کی ولادت 1968ء میں عراق کے صوبہ بصرہ میں ہوئی۔ احمد اسماعیل بصری کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت امام مہدی ؑ کے ظہور کی علامات میں سے ایک ہیں۔ وہ اپنے آپ کو سید الیمانی کہتے ہیں، اُن کے مطابق اُن کا ذکر قرآن مجید، انجیل اور تورات کے ساتھ مسلمانوں کی روایات میں موجود ہے۔ ان کا صرف یہی دعویٰ نہیں بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو سب سے پہلے  ایک معلّم قرآن، پھر ایک سیاسی عالمِ دین، پھر حضرت امام مہدیؑ کے سفیر اور وزیر کے طور پر اور پھر امام مہدی ؑکے پہلے وصی اور پھر اپنے آپ کو ہی امام مہدی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو امام مہدی منوانے کیلئے یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ امام مہدی کے بعد اُن کی آل سے ایک نہیں بلکہ بارہ مہدی ہونگے اور اُن میں سے پہلا امام مہدی میں خود ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب امام مہدی ظہور کریں گے تو میں ہی اُس وقت بھی ان کا وزیر اور مشیر خاص ہونگا۔

ظاہر ہے کہ پہلے روز کوئی بھی شخص اتنا بڑا دعویٰ نہیں کرتا۔ ابتدا میں کچھ ہلکے پھلکے عرفانی تجزیات، چھوٹے موٹے الہامات اور روحانی خوابوں سے بات شروع ہوتی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ کاروان بنتا جاتا ہے۔ احمد اسماعیل بصری کو احمد الحسن بھی کہتے ہیں۔ ان کی سچائی کے دلائل اُن کے اپنے اصحاب کے خواب، استخارے اور مکاشفات ہیں۔ اُن کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ احمد الحسن کے سید یمانی ہونے کے بارے میں استخارہ کریں، اگر جواب ہاں میں آئے تو مان لیں۔ یاد رہے کہ ہر جھوٹے نبی یا ہر امام مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار نے اپنی دعوت کا آغاز بطورِ مصلح کیا۔ ان کے مجموعی حالات بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں، جیسے ایک شخص کسی علمی تخصص کے بغیر پہلے کچھ عرصہ علماء کی بزم میں بیٹھتا رہتا ہے، بعد ازاں وہ بغیر کسی دینی تخصص کے علمائے کرام پر تنقید شروع کر دیتا ہے اور آخرکار وہ اسی طرح تنقید کرتے کرتے مفکر اعظم اور مُصلح اعظم بن جاتا ہے۔

دور نہ جائیں اور اپنے ہاں کے لوگوں کی باتوں پر دھیان تو دیں! ہمارے ہاں جو ریڑھی لگاتا ہے، وہ ماہرِ اقتصاد، جو سکول کھولتا ہے، وہ ماہر تعلیم، جو جڑی بوٹیاں بیچتا ہے، وہ طبیبِ اعظم اور جو روزانہ اخبار پڑھتا اور سُنتا ہے، وہ اپنے زعم میں ایک مکمل سیاسی مفکر اور سیاستدان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسفہ پڑھے بغیر فلسفی، علمِ دین پڑھے بغیر علامہ و مولانا اور علمُ التعلیم حاصل کئے بغیر جتنے ماہرینِ تعلیم آپ کو ہمارے ہاں ملیں گے، اتنے دنیا میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ ہمارے ہاں چونکہ غیر متخصص افراد کی بھرمار ہے، لہذا تمام جھوٹے مدعیانِ نبوّت و امامت کیلئے یہ سرزمین انتہائی زرخیز ہے۔ شنید ہے کہ احمد الحسن الیمانی کے مبلغین پاکستان میں بھی سرگرم ہیں۔

احمد الحسن یمانی چار واسطوں سے امام مہدیؑ کا بیٹا ہونے کا مدعی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عراق میں بصرہ کے قریب جس گاؤں میں وہ پیدا ہوئے، وہ آج بھی آباد ہے اور اس گاوں میں اُن کا خاندان و قبیلہ بھی موجود ہے، وہ سب "احمد الحسن یمانی" کے سیّد ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ اسی لئے جواب میں احمد الحسن یمانی بھی  علمِ رجال کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے اپنے سیّد ہونے کا علم حضرت امام مہدیؑ کے ساتھ ملاقات ہونے سے پہلے نہیں تھا، مجھے خواب میں خود امام مہدی ؑ نے بتایا ہے کہ میں اُن کی نسل سے ہوں۔ اپنے دعوے کے مطابق انہوں نے حضرت نوح ؑ کو طوفان سے، حضرت ابراہیمؑ کو آگ سے اور حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوہِ طور پر ہم نے حضرت موسیٰؑ سے گفتگو کی اور حجرالاسود ہم ہی ہیں۔ احمد الحسن  نے 1992ء میں گریجویشن کی۔

گریجویشن کے بعد تقریباً دو سال نجف اشرف میں سید محمد صادق صدر شہید کے دینی مدرسے میں داخلہ لئے رکھا۔ اس دوران عراقی حکومت نے انہیں گرفتار کیا۔رہائی کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو ایک سیاسی عالم دین کی شکل میں پیش کیا۔ اس مرتبہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک مُصلح ہیں اور حضرت امام مہدی ؑ نے انہیں دینی مدارس کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا ہے۔ مدرسے کے کچھ  نئے طلبا اور عوام میں سے کچھ حضرات اُن کے ہم خیال بن گئے۔ چنانچہ مدرسے سے اُنہیں نکال دیا گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو مجتہدین کی نیابتِ عامہ کا انکار کیا۔ پھر خمس کے مروّجہ مصارف کے خلاف آواز اٹھائی اور آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی کھل کر مخالفت شروع کی۔ اسی دوران صدام کے خلاف بھی ایک بیانیہ نشر کیا۔ بیانئے کی اشاعت نے خود احمد الحسن اور ان کے ہمراہیوں کو خوفزدہ کر دیا۔

یہ لوگ صدام کے زوال تک پراگندہ اور زیرِزمین رہے۔ صدام کے زوال کے وقت انہوں نے دوبارہ اپنی زبانیں کھولیں اور مراجع کی طرف سے جہاد کا فتویٰ نہ دیئے جانے پر معترض ہوئے۔ صدام کے بعد عراق میں مراجع کی حمایت سے نئی حکومت تشکیل پائی تو احمد الحسن کے ہم فکر افراد نے بھی اپنی طاقت بڑھانی شروع کر دی۔ سال 2008ء میں بصره اور ناصریه کے مقام پر احمد الحسن کے گروہ کی عراقی افواج کے ساتھ سخت خونریز جھڑپ ہوئی۔ گرفتار ہونے والے افراد میں سے چالیس افراد کو عمر قید اور پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ گرفتار ہونے والوں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے احمد الحسن کی حقانیّت کو خواب میں دیکھ کر موصوف پر ایمان لایا تھا۔ اس کے بعد احمد الحسن نے روپوشی اختیار کر لی یا مارے گئے، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اس کے بعد یہ گروہ عراق میں پنپتا گیا اور 2018ء میں عراق میں ہونے والے فسادات میں بھی یہی گروہ صفِ اوّل کا کردار ادا کر رہا تھا۔ آج سے تقریباً بارہ، تیرہ سال پہلے یہ مکتب فکر ایران کے عرب نشین سرحدی علاقے خوزستان سے ہوتا ہوا مشهد، قم اور اصفهان تک پہنچ چکا ہے۔ مخفیانہ طور پر ان کے مبلغین اب ایران کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ قابلِ ذکر ہے کہ تاریخی منابع کے مطابق ماضی میں عبدالرحمن بن محمد بن اشعث پہلی ہجری میں، عبدالرحیم بن عبدالرحمان بن فرس نے چھٹی ہجری میں اور یزید بن ملهب اور عبدالرحمان بن منصور نے ہشام بن حکم الموید بالله کے دور میں سید الیمانی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ احمد الحسن کا کہنا ہے کہ مجھ سے پہلے یہ دعویٰ کسی نے نہیں کیا۔ آخر میں عرض ہے کہ ہمارے ہاں  خواب دیکھنے والوں، مکاشفات اور استخارے کرنے والوں کو بہت جلد مرید مل جاتے ہیں، لہذا پاکستانی ہونے کے ناتے ہمیں زیادہ چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: محترم بشیر دولتی صاحب نے کچھ روز پہلے اس موضوع پر "چند مذہبی استعماری شخصیات" کے عنوان سے ایک انتہائی مفید کالم لکھا ہے، جسے اس لنک پر (http://voiceofnation.blogfa.com/post/2063) کلک کرکے پڑھا جانا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1118938
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش