0
Saturday 9 Mar 2024 16:03

قاضی اختر جوناگڑھی کے علمی آثار میں حکیم نظامی گنجوی کے افکار

قاضی اختر جوناگڑھی کے علمی آثار میں حکیم نظامی گنجوی کے افکار
تحریر: مجید مشکی ثقافتی
قونصلر سفارت خانہ اسلامی جمہوریہ ایران، اسلام آباد


جب بھی علم اور امن و محبت کے شیدائی نظامی گنجوی کی بات ہوتی ہے اور اس عالم اور ادیب کے عالمی دن کے اعزاز میں ہر سال علمی اور ادبی حلقے محافل سجاتے ہیں تو بلاشبہ قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کا نام بھی نمایاں طور پر سامنے آتا ہے، جو نہ صرف ایک باصلاحیت مصنف ہیں بلکہ فارسی زبان روانی سے بولنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے عربی، انگریزی، اردو اور گجراتی زبانوں میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ قاضی اختر ایک عالم اور بزرگ آدمی تھے جو ہندوستان کے علاقے جوناگڑھ کے ایک امیر اور بااثر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان جوناگڑھ کے امیر اور شاہی خاندانوں میں شمار ہوتا تھا اور سندھ کے علاقے سے ہجرت کرکے گجرات آیا اور اسی سفر کے دوران برصغیر کے لوگوں میں قاضی اختر ایک اہل علم، ادیب، شاعر، محقق اور اسلامی ثقافت کے امین کے طور پر مشہور ہوئے۔

یہ عظیم شاعر جو کہ 1897ء میں بھارت کے شہر جوناگڑھ میں پیدا ہوا، پاکستان کی آزادی کے بعد حیدرآباد چلا آیا۔ آپ کا اردو زبان کے ممتاز دانشوروں اور محققین میں شمار ہونے لگا۔ پھر انجمن ترقی اردو کا اعزازی نائب صدر بنا اور کچھ عرصہ انجمن کے اردو سہ ماہی کی ادارت کرنے والا یہ شخص خود کو گنجوی نظامی کا شاگرد قرار دیتا ہے۔ یہی شخص مسلم ایجوکیشن ایسوسی ایشن کا بانی بنا اور 1927ء سے 1935ء کے درمیان اس کمیونٹی کی سرپرستی بھی کی۔ قاضی اختر کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں فارسی زبان سے خاص لگاؤ ​​تھا اور وہ تقریباً اپنی مادری زبان کے برابر ہی فارسی بولتے تھے اور ایران اور فارسی زبان سے ان کا خاص لگاؤ اس حد تک تھا کہ فارسی زبان میں ان کے مضامین اور کتابیں اس دعوے کی تصدیق کرتی ہیں۔

اس ممتاز شاعر کی سوانح عمری میں کہا گیا ہے کہ قاضی اختر کو جوانی میں ہی ادب سے  گہری دلچسپی ہوگئی تھی اور انہوں نے جلد ہی کلاسیکی ادب سیکھ لیا۔ فارسی اور اردو کی علمی، ادبی، ثقافتی اور سماجی مطبوعات کا مطالعہ کرکے ان دونوں زبانوں کے ادب پر ​​عبور حاصل کیا اور مختلف رسائل میں اپنی علمی اور تحقیقی تحریریں شائع کیں۔ 1933ء میں انہوں نے جو ناگڑھ  میں "شہاب" کے نام سے ایک رسالہ بھی قائم کیا، جسے عوام  میں بے حد مقبولیت  ملی۔ برصغیر کے اس ممتاز شاعر کے ادبی کارناموں  کے حوالے سے ہم ان کی پہلی کتاب حیات نظامی گنجوی کا تذکرہ کرسکتے ہیں جو 1914ء میں لکھی گئی۔

یوں کہنا چاہیئے کہ ان کی دوسری کتاب جو 1920ء میں اردو میں" یورپ پر اسلام کے اثرات" کے عنوان سے شائع ہوئی، کئی محققین اور مفکریں کے مطابق گنجوی کے ادبی کام سے بے حد متاثر تھی اور یہی نقطہ نظر 1982ء میں اس مشہور شاعر کی عربی اور انگریزی زبانوں میں  تیسری تصنیف ’’زرگل‘‘ کی تخلیق کا باعث بھی بنا، جو ادبی مضامین کا مجموعہ ہے۔ قاضی اختر نے نظامی گنجوی کی یاد میں اپنے افکار کی آبیاری کرتے ہوئے، اپنی اہم ترین تصنیف ’’اسلامی لائبریریاں‘‘ شائع کی اور پھر اپنے شعری مجموعہ ’’دل کے تیس  پارے‘‘ لکھی، جو تیس غزلوں پر مشتمل ہے۔ اردو زبان میں ان کے اشعار اور ہر ایک بیت میں ایران کے عظیم شاعر نظامی گنجوی کے ساتھ مشترک خیالات دیکھے جا سکتے ہیں۔

قاضی اختر جوناگڑھ کی سب سے شاندار تصنیف "گنجوی  نظامی کی غزلیات" کے مجموعے کے طور پر متعارف کرائی جا سکتی ہے، جسے انہوں نے ناقابل بیان محنت اور بڑے جوش و جذبے کے ساتھ ایک جامع اور مکمل شکل میں مرتب کرنے میں کامیابی حاصل کی اور موجودہ مخطوطات کے مجموعے سے استفادہ کرتے ہوئے، حذف، تصحیح اور اضافے کے مراحل کو طے کرتے ہوئے  ایران اور ایرانیوں سے عقیدت کے پیش نظر یہ تصنیف ایران کے ہم عصر شاعر پروفیسر وحید دستجردی کے نام کردی۔ 6 اگست 1956ء کو قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھ نے حیدرآباد پاکستان میں اپنی رہائش گاہ پر وفات پائی۔ آپ کا نام دو ممالک اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ادبی تاریخ میں ایک ماہر "گنجوی شناس" کے طور پر درج ہے، ان کی روح شاد اور یاد تابندہ۔
خبر کا کوڈ : 1121388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش