0
Saturday 9 Mar 2024 21:40
دین اور دینداری ہماری پہچان

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی دوسری اہم خصوصیت

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی دوسری اہم خصوصیت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

"أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ۔"، "اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و نا چار اللہ ہی کی تابع فرمان ہیں اور اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟" اسی سورہ مبارکہ میں قرآن پاک دین اور نظام کا تعارف کرواتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ "انّ الدین عند اللہ الاسلام۔" یعنی: "دین تو اللہ کے نزدیک بس اسلام ہی ہے۔" اسی سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت نمبر ۸۵ میں ارشاد ہوتا ہے کہ: "وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلامِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الخاسِرينَ۔" یعنی: "اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو اس سے وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت کے دن خسارے والوں میں ہوگا۔" آیات اور روایات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم کے نزدیک دین حق اور حقیقی نظام صرف اور صرف اسلام ہے اور جس فرد نے اس کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی پیروی کی یا اپنی پہچان کو اس دین کے علاوہ کسی اور نظام سے متعارف کروایا تو اس نے نقصان اور خسارے کا سودا کیا۔

شہید ڈاکٹر کے مکتب میں اسلامی شناخت کی اہمیت کو اس آیہ مبارکہ کی روشنی میں درک کیا جا سکتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی دوسری اہم خصوصیت دین، دینداری، تدیّن اورخالص اسلامی و مذہبی شناخت ہے۔
شہید نے جس تنظیم کی بنیاد رکھی، اس کی پہلی اور آخری شناخت اسلامی تعلیمات پر یقین اور اس پر عمل درآمد تھا۔ آپ نے ایک ایسے دور میں آئی ایس او کے نوجوانوں کو دینی و مذہبی شناخت دی جب پاکستانی معاشرہ کمیونیزم کی شدید لپیٹ میں تھا اور شیعہ تعلیم یافتہ نوجوان اشتراکیت کو اپنے لیے ایک آئیڈیل نظام حیات تصور کر بیٹھا تھا۔ شہید ڈاکٹر اور ان کے رفقاء نے جب تنظیم کی تاسیس کے لیے علماء کرام سے مشورہ کیا تو سید مرتضیٰ صدرالفاضل جیسے علماء نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: "اس تنظیم میں اشتراکیت یعنی کمیونزم کی بو آرہی ہے!" شہید ڈاکٹر اور ان کے ساتھیوں نے جب تنظیم کے اہداف و مقاصد قدرے تفصیل سے بتائے تو حجۃ الاسلام سید مرتضیٰ صدرالفاضل نے نہ صرف تنظیم کے پہلے دستور کا ابتدائیہ تحریر کیا بلکہ برسوں تک آئی ایس او کی مرکزی مجلس مشاورت کے رکن بھی رہے۔

ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں:
"میں یہ بات کر رہا ہوں کہ 72ء کے اندر جب کوئی اور تنظیم نہیں تھی، شیعوں میں عام تاثر یہ تھا کہ جس نے بھی اسلام کا نام لیا، وہ اسلامی جمعیت طلباء تنظیم کا حامی ہے۔ لہذا عام طور پر شیعہ leftist تھے۔ ادبیات کے اندر، تنظیموں کے اندر، مزدوروں کے اندر، پروفیسروں کے اندر، فوجیوں کے اندر ہر جگہ پر لیفٹسٹ تھے۔ ایک جو مشکل آغاز میں پیش آئی، وہ یہی تھی۔ یہاں پر میں مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ خود مولانا مرتضیٰ حسین صاحب قبلہ کے پاس جب گیا تو انہوں نے کہا کہ تم سے اشتراکیت کی بو آتی ہے، لیکن الحمدللہ آئی ایس او نے اپنے عمل و کردار اور فکری استقلال سے ان کو ثابت کیا کہ ہم لوگ مخلص ہیں۔" شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے علامہ صفدر حسین نجفی اور مولانا مرتضیٰ صدرالفاضل کو پہلے دن آئی ایس او کے قیام کے بارے میں جو بریفنگ دی، وہ اپنی شہادت تک اس پر قائم رہے۔آئی ایس او کے پلیٹ فارم سے نوجوان نسل میں دینی تعلیمات کی طرف جو رجحان شروع ہوا، اس کی چھاپ بعد میں وجود میں آنے والی تمام تنظیموں پر محسوس کی جا سکتی ہے۔

کمیونزم سے متاثر اور روایتی شیعہ ماحول سے آنے والے طلباء کو نظریاتی اور متدین افراد میں تبدیل کرنا آسان کام نہ تھا، لیکن آپ نے کمر ہمت باندھی اور بہت جلد دین، دینداری اور مذہبی عبادات کی انجام دہی آئی ایس او کی پہچان بن گئی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے ساتھیوں نے عاشورا سمیت اہم ماتمی جلوسوں مین نماز باجماعت کا اجراء کر کے جو منفرد کام شروع کیا تھا، اس نے آئی ایس او کی دینی شناخت کو منوانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک دینی خاندان اور مکتبی انسان تھے، لہذا آپ جس تنظیم میں گئے آپ نے اس تنظیم یا اجتماع پر دینی اثرات مرتب کیے۔ برصغیر کی روایتی تشیع میں عزاداری کو جو اہمیت حاصل تھی، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ نماز، قرآن اور دعا و مناجات سے عام شیعہ بہت دور تھے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے رفقاء نے آئی ایس او اور بعد میں بننے والی قومی و ملی تنظیموں میں نماز، قرآن اور معروف دعاوں کو رواج دیا۔

نماز شب تو ایک طرف پانچ وقت کی نمازیں بھی علماء اور متدین گھرانوں تک محدود تھیں۔ آئی ایس او کے کلچر میں نماز یومیہ، تلاوت قرآن اور دعا و مناجات کو فروغ دیا گیا اور اس میں نماز شب کا بہترین اضافہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی قیادت کے دور میں نمایاں ہو کر سامنے آیا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے ساتھ میرا کوئی ایسا وقت نہیں گزرا کہ نماز کا وقت ہو جائے اور شہید ڈاکٹر نے اول وقت پر نماز نہ پڑھی ہو۔ بعض انتہائی طویل اور تکلیف دہ سفروں میں ان کی نماز شب کا عینی گواہ ہوں۔ ایک واقعی نقل کر دیتا ہوں: "1985ء میں آئی ایس او کا ایک وفد گرمیوں کی چھٹیوں میں حسب معمول زیارات کے لیے ایران آیا۔ اس وفد میں بڑے نمایاں افراد شریک تھے، جو بعد میں آئی ایس او اور اب بھی شیعہ قومیات میں اچھے خاصے فعال ہیں۔ حجۃ الاسلام سید حسنین گردیزی، زاہد علی کاچو، انیس عباس زیدی، ڈاکٹر یاسر، عاشق حسین طوری، غلام حیدر حیدری، ابوالحسن وغیرہ اس کاروان میں شامل تھے۔ اس وقت ایران میں جنگ اپنے عروف پر تھی۔

اس وفد میں پہلی بار ڈاکٹر شہید کو زیادہ قریب سے سننے اور درک کرنے کا موقع ملا۔ تقریباً ایک ماہ کے اس سفر میں ڈاکٹر صاحب وفد کے ہمراہ رہے۔ کوئٹہ سے تفتان کا وہ زمینی سفر جس میں ایک پرانی سی بس پر جولائی کے مہینے میں سفر کیا تھا، یادگار ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک شاپنگ بیگ جس میں ایک پینٹ اور شرٹ تھی، ہمارے ساتھ بس میں بیٹھے تو پہلے ہم نے یہی سمجھا کہ آئی ایس او کے برادران کو خدا حافظ کہنے کے لیے آئے ہیں، کیونکہ بظاہر ایک مہینے کے بیرون ملک سفر کا زاد راہ ان کے ہمراہ نہ تھا۔ تفتان بارڈر پر ہم رات دیر سے پہنچے، لہذا وہیں ویرانے میں سب نے ڈیرے ڈال دیئے۔ عاشق حسین طوری کے ذمہ وفد کی سکیورٹی تھی۔ بس کے طویل تکلیف دہ سفر کا نتیجہ تھا کہ سب اس ویرانے میں زمین کے فرش پر لمبی تان کر سو گئے۔ رات کے آخری پہر کسی انجانے سے خوف کے تحت آنکھ کھلی تو دیکھا دور ایک شخص خشوع و خضوع کی حالت میں ایک ہاتھ دل پر رکھ کر اور دوسرا بلند کرکے نماز شب میں مشغول ہے۔ آنکھیں جب اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو ڈاکٹر صاحب شہید کو نماز شب میں دعا کرتے دیکھا۔"

میرے ساتھ بیسیوں مرتبہ یہ پیش آیا کہ آفس سمیت دوسری جگہوں پر جب دوست اکٹھے ہوتے تو ڈاکٹر شہید سب کو دائرے میں بٹھا دیتے اور قرآن پاک لے کر سب کو ایک ایک آیت کی تلاوت کا کہتے۔ یوں دائرے میں بیٹھا ہر فرد ایک آیت کی تلاوت کرتا اور جب سب ایک ایک آیت تلاوت کر لیتے تو آپ آخر میں کسی ایک آیت یا قرآن پاک کی تلاوت کی مختصر فضیلت بیان کرکے یہ سلسلہ ختم کر دیتے۔ جن دنوں تفسیر نمونہ کی یکے بعد دیگرے جلدیں شائع ہو کر مارکیٹ میں آرہی تھیں تو ان دنوں شہید ڈاکٹر کے ساتھ کئی بار تفسیر نمونہ کا اجتماعی مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ کئی دوستوں نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ شہید نے زندگی کے آخری ایام میں جب لاہور سمیت مخلتف علاقوں میں سٹڈی سرکل کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں بھی مطالعہِ قرآن اور دعا و مناجات کو ترجیح دیتے تھے۔

اجتماعی سطح پر دعائے کمیل کی محافل کا انعقاد بھی ڈاکٹر صاحب شہید کے کارناموں میں شامل ہے۔ تحریر کو طوالت سے بچانے کے لیے لاہور کے معروف شیعہ مرکز گامے شاہ میں آپ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دعائے کمیل کا جو سلسلہ شروع کیا، وہ لاہور کی تاریخ میں دعا و مناجات کے حوالے سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے خداوند عالم نے چند بار توفیق دی کہ ڈاکٹر شہید کے ہمراہ اس دعائے کمیل میں شریک ہوا۔ گامے شاہ لاہور میں دعائے کمیل کی ایک محفل تو کبھی بھی فراموش نہیں کی جا سکتی جس میں قائد شہید علامہ عارف الحسینی نے دعائے کمیل کی تلاوت کی تھی۔ بعض اوقات کسی تننظیمی اجتماع میں کوئی اچھا دعائے کمیل پڑھنے والا نہ ہوتا تو خود ہی دعائے کمیل پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔ ایک بار چنیوٹ میں کسی تنظیمی اجلاس کے دوران دعائے کمیل پڑھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا دیا اور کہا: "آپ نے اور میں نے مل کر دعا پڑھنی ہے۔"

خدا کا شکر کہ میرے پاس ڈائری میں دعائے کمیل کا ترجمہ اور تشریح موجود تھی۔ میں نے ڈائری سے دیکھ کر ترجمہ و تفسیر کی اور ڈاکٹر صاحب نے دعائے کمیل کی عربی تلاوت کی۔ دعائے کمیل کے خاتمے کے بعد آپ اس بات پر خوش ہوئے کہ میں نے شہید عارف اور دیگر علماء کے دعائے کمیل میں پڑھے الفاظ و مفاہیم کو اپنی ڈائری میں نوٹ کر رکھا ہے۔ البتہ ساتھ یہ بھی کہا کہ اگر آپ زبانی پڑھتے اور اپنے الفاظ میں خدا سے راز و نیاز کرتے تو زیادہ تاثیر گزار ہوتے۔ شہید کے تنظیمی مکتب میں دین کے ظواہر کی انجام دہی اور عبادات کی بجا آوری لازمی اور ضروری تھی۔ وہ اس بات کے سختی سے قائل تھے کہ ہماری تنظیم اور ہمارے کارکنان کی شناخت دینی و مذہبی ہو اور انہیں معاشرے میں ایک متدین اور دیندار فرد کے طور پر جانا اور پہچانا جائے۔

آئی ایس او اور دوسری ملی تنظیموں میں بعض احباب نے دینی رنگ کو کم رنگ کرنے کی کوششش کی، لیکن آپ ہمیشہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ جب شیعہ قومی تنظیم تحریک جعفریہ سیاسی مسائل میں زیادہ مصروف ہوگئی تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا رنگ قومی جماعت کے دفتروں اور عہدےداروں میں بھی رسوخ کرنے لگا تو آپ نے اس کے سامنے بھی بند باندھنے کی کوشش کی۔ آپ اکثر اوقات شہید عارف الحسینی کے اس جملے سے دوست احباب کو روایتی سیاست کی آفات اور بیماریوں سے بچانے کی تلقین کرتے۔ "ہماری سیاست کا مرکز و محور اسلام ہے۔"
آپ اس حوالے سے ایران میں شاہ کے زمانے کے ایک بزرگ عالم دین آیت اللہ مدرس کی مثال دے کر روایتی سیاست کے شوقین تنظیمی کارکنان کو ان کی دینی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے تھے۔

آخر میں یہ عرض کرتا چلوں کہ دین اور دینداری کی پہچان صرف نماز، روزے اور دعا و مناجات تک محدود نہیں بلکہ دینی جماعت کے کارکن کا عمل اور کردار بھی اسلامی اور قرآنی تعلیمات سے آراستہ ہونا چاہیئے۔ ایسی مذہبی جماعتیں جن کی بظاہر مذہبی شناخت ہے، لیکن ان کے اقدامات اور ان کے قائدین اور کارکنان کا عمل اور کردار دینی اصولوں کے مطابق نہیں تو اسے عرفِ عام میں منافقت کہا جاتا ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اس منافقت کو اپنے تنظیمی مکتب کے سراسر منافی قرار دیتے تھے اور اسی لیے آپ نے پاکستان کی ایک معروف مذہبی جماعت کے لیے منافق جماعت کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کا تنظیمی مکتب اس بات کا متقاضی ہے کہ ہماری تنظیموں کی شناخت دینی و مذہبی ہونی چاہیئے، کیونکہ ممکن ہے اگر دینی و مذہبی شناخت کے بغیر اجتماعی امور کو آگے بڑھایا جائے تو "کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول بیٹھا" کے مصداق، فائدے کی بجائے نقصان کا امکان زیادہ ہو جائے۔

پاکستانی معاشرے کے معروضی حالات میں دینی تشخص کے ساتھ سیاسی و اجتماعی امور کیسے انجام دیئے جا سکتے ہیں، اس کو شہید ڈاکتر کے تنظیمی مکتب سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال شہید ڈاکٹر نے شہید قائد عارف الحسینی کی سیاسی روش کو ہمیشہ اپنے لیے روڈ میپ قرار دیا۔ آج بھی ان دونوں ہستیوں کے افکار اور نظریات کو سامنے رکھ کر قوم و ملت کی فلاح کے لیے نئے تقاضوں کے مطابق منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ واللہ العالم بالصواب
خبر کا کوڈ : 1121513
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش