0
Thursday 21 Mar 2024 09:11

حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے کمالات اور صفات

حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے کمالات اور صفات
تحریر: ڈاکٹر علی عباس نقوی

کمالات کی دو قسمیں ہیں۔ بعض کمالات غیر اختیاری ہوتے ہیں، یعنی ہمارے اختیار میں نہیں ہوتے۔ بعض کمالات اختیاری ہوتے ہیں، ان کا تعلق انسان کی ذات سے ہوتا ہے۔ مثلاً حسن و خوبصورتی، انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ انسان کی عقل و خرد۔ بعض افراد بہت زیادہ عقل مند ہوتے ہیں، با خرد ہوتے ہیں۔ مسائل کو سمجھتے ہیں، مسائل کو تشخیص کرنے کی ان کے اندر صلاحیت ہوتی ہے۔ بعض بڑے فصیح و بلیخ ہوتے ہیں۔ ایسی صفات کو صفات غیر اختیاری کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسرے کمالات اور صفات اختیاری یا اکتسابی ہوتی ہیں۔ جیسے کہ سخاوت، لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہونا، امانتداری، ہر شخص ان صفات کو، ان کمالات کو، ان خوبیوں کو کسب کرسکتا ہے۔ حاصل کرسکتا ہے۔ اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کو کوشش کرنا پڑتی ہے۔

پہلی قسم کو اسوہ نہیں بنایا جاسکتا، یعنی نمونہ عمل نہیں بنایا جاسکتا۔ کیونکہ وہ پہلے سے انسان کے اندر ہوتی ہیں۔ مثلاً (حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا معصوم ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا گیارہ اماموں کی والدہ گرامی ہیں۔ یہ ان کی ذاتی صلاحیت ہے یا آپ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر ہیں، بیٹی ہیں۔ اس کو نمونہ عمل نہیں بنایا جاسکتا۔) جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں آیا ہے: "وَکانتْ منْ اَحْسَنِ النِّسَاءِ جَمَالاً وَاکمَلُهُنَّ عَقْلاً وَاَتَمُّهُنّ رَأیاً؛"، "خدیجہ سلام اللہ علیہا سب سے خوبصورت عورتوں میں سے تھیں، وہ عقل میں سب سے کامل اور سوچ و فکر و رائے میں بہترین تھیں۔" حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اپنے زمانے کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے تھیں اور عقل کے اعتبار سے کامل ترین عقل کی مالک تھیں۔ رائے، نظر، فیصلہ اور سوچ کے اعتبار سے کامل ترین تھیں۔ حضرت خدیجہ ظہور اسلام سے قبل ان صفات کی حامل تھیں۔

رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں: "حضرت خدیجہ کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ کی باقی تمام ازواج اسلام آنے کے بعد آپ کی ہم سری میں آئیں۔پیغمبر اکرمؐ مدینہ میں جب وضو کرتے تھے تو لوگ اس پانی کو متبرک سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے خواتین میں بڑا اشتیاق پایا جاتا تھا، سبقت پائی جاتی تھیں۔ ہر خاتون طلب گار تھی کہ رسول اللہ کے عقد میں آئے، اس پر اللہ کی طرف سے سورۃ احزاب کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: "لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَ لَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّ لَوۡ اَعۡجَبَکَ حُسۡنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتۡ یَمِیۡنُکَ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ رَّقِیۡبًا" (۵۲) "اس کے بعد آپ کے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ اس بات کی اجازت ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں، خواہ ان (دوسری) عورتوں کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو سوائے ان (کنیز) عورتوں کے جو آپ کی ملکیت میں ہوں اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔"

مدینہ میں آپ ؐ متعدد خصوصیات کے حامل تھے، آپ حکومت اسلامی کے سربراہ تھے، آپ کا اعلیٰ مقام تھا، خدا کے محبوب تھے۔ ایسے میں خواتین کا آپ کی جانب مائل ہونا فطری تھا۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ اس وقت آپ کی زوجیت میں آئیں، جب آپ کی پیغمبری کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ آپ ایک جوان تھے، مالی اور اقتصادی حوالے سے اتنے مضبوط نہ تھے۔ حتیٰ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے تجارت کے کاروبار کے سلسلے میں تجارتی سفر پر جایا کرتے تھے۔ ان حالات میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے اس شرف و فضیلت کو حاصل کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجیت میں آئیں، جبکہ پندرہ سال بعد آپ پیغمبری کے لیے مبعوث ہوئے۔ یہ حضرت خدیجہ کی بڑی فضیلت ہے۔

جنھوں نے حضرت خدیجہ کے بارے میں تحقیق، تالیف اور قلم فرسائی کی ہے، اس شخص نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی تعریف کی ہے، ان کو سراہا ہے۔ ابن تیمیہ کہتا ہے کہ حضرت خدیجہ علیہ السلام نے پیغمبر کے نور نبوت کو پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔ پہلے ہی نور نبوت سے آشنا ہوگئیں تھیں۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ آپ کی پہلی خصوصیت ایثار وفداکاری ہے۔ ایثار انفاق نہیں ہے۔ ایثار کے معنی انفاق کرنے کے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کے پاس اگر ایک ہزار ہے تو 500 روپیہ کسی فقیر یا کسی ضرورت مند کو دے دیتے ہیں۔سورۃ فرقان میں ذکر ہے: "وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا" (۶۷) "اور یہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں بلکہ ان کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔"

لیکن ایثار کسے کہتے ہیں، مجھے پانی کی طلب ہے، جو میرے پاس بیٹھا ہے، وہ بھی پیاسا ہے، اگر میں پانی پیوں تو وہ پیاسا رہ جائے گا، چونکہ پانی کا ایک گلاس موجود ہے۔ اگر وہ پی لے تو میں پیاسا رہ جاؤں گا۔ ہم میں سے ایک بندہ اپنی پیاس کو بجھا سکتا ہے۔ اپنی تشنگی کو دور کرسکتا ہے۔ اگر میں پانی نہ پیوں اور ساتھ بیٹھے ساتھی کو پانی دے دوں اور خود پیاسا رہوں تو اس کو ایثار کہتے ہیں۔ اگر دو گلاس پانی ہو، ایک میں خود پی لوں، ایک میں اس کو دے دوں، اسے انفاق کہتے ہیں۔ پس ایثار و انفاق میں فرق واضح ہے۔ "الایثار و من اعلی الفضائلایثار اسے کہتے ہیں، جو انسان اپنے آپ سے عبور کرلے، گزر جائے۔ وہ کام جو حضرت زہراؑ نے تین رات کیا۔ اپنی افطار، یتیم و مسکین و فقیر و اسیر کو دے دی اور خود پانی سے افطار کیا۔ اس کو ایثار کہتے ہیں۔

پہلی خصوصیت حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی ایثار وفداکاری ہے۔ یاد رکھیں ایثار تین طرح کا ہوتا ہے، بسا اوقات ایثار اپنی جان کے نذرانے سے ہوتا ہے۔جیسے حضرت ابوالفضل عباس علیہ السلام نے۔ عباس نہیں چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے بعد زندہ رہتے۔ بسا اوقات مال کے ذریعے ایثار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خدیجہ علیہ السلام نے کیا۔ کبھی ایثار مقام و مرتبے کا ہوتا ہے۔ حضرت خدیجہ علیہ السلام نے ان تینوں قسموں میں ایثار کیا۔ حضرت آیت اللہ العظمیٰ وحید خراسانی فرماتے ہیں: "حضرت خدیجہ علیہ السلام کی وفات شعب حضرت ابو طالب کے تین سال واقعہ گزرنے کے بعد ہوئی۔ آپ کی وفات شعب ابو طالب کے مشکل حالات میں بھوک و پیاس کی وجہ سے ہوئی۔ میرے استاد حجۃ الاسلام والمسلمین جناب آقا رفیعی کا کہنا ہے کہ ایک شخص میرے لیے ایک کتاب لے کر آیا۔ کتاب کا نام تھا، حضرت خدیجہ کی ولادت تا شہادت۔ میں نے اس کتاب کو پڑھا اور دیکھا کہ حضرت آیت اللہ العظمیٰ جعفر سبحانی نے اس پر تقریظ لکھی ہے کہ اس پر آپ نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ آپ کی وفات معمولی نہ تھی۔

2۔ ایثار مال، مال کا ایثار
اپنا تمام مال، اپنی دولت، اپنی ثروت سب کا سب آپ نے (آپ کی ثروت بہت زیادہ تھی، زیادہ ہونا اہمیت کا حامل نہیں ہوتا) اپنے تمام مال کو پیغمبرؐ کے اختیار میں دے دیا۔
3۔ ایثار مقام و مرتبہ
آپ کا مذاق اڑایا گیا۔ آپ کی توہین کی گئی کہ تم تو بہت دولت مند ہوں، بہت ثروت مند ہو۔ تمھاری یہ حیثیت ہے، تمھارا یہ مقام ہے۔ تم اس پیغمبر کی زوجہ بن رہی ہو۔ تاریخ میں کچھ ایسی شخصیات ہیں، جن پر بہت کم لکھا گیا ہے، مظلوم واقع ہوئی ہیں، جیسا حضرت ابو طالب علیہ السلام، حضرت فاطمہ بنت اسد، حضرت خدیجہ علیہ السلام، حضرت حمزہ علیہ السلام، بسا اوقات دیگر شخصیات کو برجستہ کرنے کے لیے، نمایاں کرنے کے لیے، بعض شخصیات کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ توجہ نہیں دی جاتی۔ ان سے غفلت برتی جاتی ہے۔

آیت اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں: "حضرت خدیجہ ؑ کی یہ عمر نہ تھی، جو بتائی جاتی ہے۔ آپ کی عمر پچیس سے ستائیس سال بتاتی ہے۔ ایسا اس لیے کیا گیا، چونکہ ان کی شخصیت کو زیادہ اہمیت نہ دی جائے، نیز ام المومنین کے لقب کے حوالے سے، تمام ازواج ام المومنین ہیں، قرآن کی آیت بھی ہے، لیکن ام المومنین رہنا یہ اہم ہے۔ ایک صفت کو جب کوئی حاصل کرتا ہے، اس صفت کا استمرار ہونا، باقی رہنا اہم ہے۔ خود پیغمبر اسلامؐ سے ایک روایت نقل ہے، صحیح بخاری میں بھی آئی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ میرے بعض اصحاب کو جہنم میں لے جایا جا رہا ہے۔ میں نے کہا یہ میرے اصحاب ہیں، جواب آیا کہ یہ اصحاب تھے، تمھیں نہیں معلوم تمھارے بعد انھوں نے کیا کیا۔

مسلمان پیغمبر کے بعد جس خطرے سے دوچار تھے، وہ ارتداد کا خطرہ، مرتد ہونے کا خطرہ تھا۔ اپنے دین سے پلٹ جانے کا خطرہ تھا۔ ارشاد رب العزت ہے: "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ"(۵۴) "اے ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ بہت جلد ایسے لوگوں کو پیدا کرے گاو جن سے اللہ محبت کرتا ہوگا اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہوں گے، مومنین کے ساتھ نرمی سے اور کافروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والے ہوں گے۔ راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہےو وہ جسے چاہتا ہے، عطا کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑا علم والا ہے۔"

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اس چیز کو سمجھتی تھیں اور آپ نے استقامت دکھائی۔ عالم اسلام کو حضرت خدیجہؑ کی خدمات کے حوالے سے بیان کرنا چاہیئے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ازواج مطہرات کے بارے میں کتابیں لکھی جاتی ہیں یا کچھ بیان ہوتا ہے تو بعض ازواج پیغمبر ؐکے بارے میں کم لطفی کی جاتی ہے۔ حالانکہ سب سے زیادہ جس زوجہ نے پیغمبر کے ساتھ زندگی گزاری، وہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں۔ اسلام کے راستے میں جس نے سب سے زیادہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں، وہ آپ کی ذات ہے۔ باقی ازواج مدینہ میں حکومت قائم ہونے کے بعد پیغمبر ؐ کی ہم سری میں آئیں۔سورۃ الم نشرح میں ہے: وَ وَضَعۡنَا عَنۡکَ وِزۡرَکَ ۙ(۲) "اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا۔" مدینے میں اطمینان و سکون تھا۔ سختیاں نہیں تھیں۔ یہ ایک خصوصیت ہے، جو بیان کی گئی۔

دوسری خصوصیت آپ کی یہ تھی کہ آپ باتدبیر خاتون تھیں۔ آپ ایک عقلمند اور باحکمت خاتون تھیں۔ قرآن کریم میں انسان ہونے کے ناطے اور قدر و منزلت کے اعتبار سے عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ "مَنْ عَمِلَ صَـٰلِحًۭا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌۭ فَلَنُحْيِيَنَّهُۥ حَيَوٰةًۭ طَيِّبَةًۭ ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ"(۹۷) "جو نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انھیں اجر (بھی) ضرور دیں گے۔" مرد و عورت میں ہرگز فرق نہیں۔ قرآن کریم انسانیت کی قدر و قیمت کے اعتبار سے مرد و خواتین میں کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے رشتے کے لیے جب آئے تو حضرت خدیجہ علیہ السلام نے کہا:"میں شادی کے لیے تیار ہوں، چند دلائل کی بنیاد پر" ۱۔ آپ کی امانتداری، آپ کا حسن خلق اور آپ کی سچائی۔ مگر آج ہمارے معیارات بدل چکے ہیں، آیا امانتداری، سچائی اور حسن خلق کو شادی بیاہ میں بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔ کیوں احادیث میں آیا ہے کہ جب کوئی شادی کے لیے یا رشتہ کے لیے آئے تو دو چیزوں کو ملحوظ رکھنا چاہیئے، اس کا اخلاق اور اس کا دین۔ بہت زیادہ مالدار ہو، لیکن بداخلاق ہو، اس کا کیا فائدہ۔

حضرت خدیجہ علیہ السلام کی تیسری خصوصیت آپ کی شجاعت ہے۔ شجاعت ایک ایسی صفت ہے، جس کے حوالے امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں۔ شجاع ترین انسان وہ ہے، جو اپنے نفس پر قابو پا لے۔ اپنی خواہشات پر، اپنے نفس پر غالب آنا ہی شجاعت کے مصادیق ہے۔ حضرت خدیجہؑ ایک بہادر اور شجاع انسان تھیں۔ آج جب میں آپ سے گفتگو کر رہا ہوں، بات کر رہا ہوں، آپ سے بات کرنا آسان ہے، صدر اسلام یا اوائل اسلام کے وقت یا اسلام سے پہلے نظر ڈالیں۔ اس وقت جب بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ بچیوں کو زندہ دفنا دیا جاتا تھا، خرافات تھیں، جہالت تھی، اس وقت کیا حالات ہوں گے۔ آیت اللہ سبحانی نے اپنی کتاب فروغ ابدیت میں اس دور جہالت کی خرافات کی فہرست بیان کی ہے۔ ایسے زمانے میں یہ شجاع خاتون یک و تنہاء پیغمبرؐ کے ساتھ کھڑی رہیں، خرافات کے ساتھ مقابلہ کیا، پیغمبرؐ کے ساتھ ہمراہی کی اور پیغمبرؐ اکرم کی ناموس کا دفاع کیا۔ ایک حدیث میں آیا ہے، جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے فضائل میں بعض فضائل ان سے مختص ہیں، ان میں سے ایک خداوند کریم کا جبرائیل کے ذریعے حضرت خدیجہ کو سلام بھیجنا اور فخر و مباہات کرنا ہے۔

حضرت خدیجہؑ کی ایک اور خصوصیت ان کا اپنے شوہر سے عشق و محبت ہے۔ پیغمبر ایک دن تجارتی سفر پر تھے، جب آپ واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے یہ شعر کہا:
جاء الحبيب الذي أهواه من سفر
 والشمس قد أثرت في وجهه أثرا

"میرا محبوب سفر سے آیا ہے، دیکھو سورج نے اس کے چہرے کو تپش سے جھلسا دیا ہے۔" پھر حضرت خدیجہ نے سورج کو دیکھتے ہوئے کہا:
عجبت للشمس من تقبيل وجنته
والشمس لا ينبغي أن تدرك القمرا

"میں تعجب کرتی ہوں سورج پر کہ کیوں میرے چاند کے پیچھے پڑا ہے۔" (آپ ایک ادیب و شاعرہ تھیں، کس انداز سے اپنے محبوب سے محبت کا اظہار کیا)

استاد رفیعی فرماتے ہیں، ایک دن میں آیت اللہ وحید خراسانی کے پاس گیا۔ جب میں نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا پر سیمینار کے حوالے سے بات کی تو آپ نے بہت گریہ کیا۔ اس کے بعد فرمایا حضرت خدیجہؑ کے لیے جو بھی قدم اٹھایا جائے، تو سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کی ذات آپ کا شکریہ ادا کرے گی۔ پیغمبر آپ کے اس عمل سے خوش ہوتے ہیں، مسرور ہوتے ہیں اور آپ کے نامہ اعمال میں یہ نیکی لکھی جاتی ہے۔ استاد رفیعی کا کہنا ہے کہ اس کانفرنس کے سلسلے میں میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں گیا تو میں نے کہا کہ حضرت خدیجہ ؑ جو گیارہ اماموں کی ماں ہیں، ہم ان کے حوالے سے کانفرنس منعقد کرنا چاہتے ہیں تو رہبر معظم نے فوراً فرمایا کہ وہ گیارہ اماموں کی نہیں، وہ بارہ اماموں کی ماں ہیں۔

کیسے بارہ اماموں کی ماں ہیں؟ حضرت علیؑ تو حضرت خدیجہؑ کے فرزند نہیں ہیں، تو آپ نے فرمایا: حضرت خدیجہؑ نے حضرت علیؑ کی بھی پرورش کی، ان کو پالا، ان کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتی تھیں۔ حضرت علی ؑ اسی گھر میں پیغمبرؐ کے ساتھ ان کے گھر پر رہتے تھے، یہ سعادت صرف حضرت علی ؑ کو حاصل ہوئی۔ روایات میں آیا ہے "رببتہ الخدیجۃ"، "حضرت خدیجہ نے آپ کی تربیت کی، آپ کی پرورش کی۔" حضرت علیؑ کا کہنا ہے کہ حضرت خدیجہؑ خود لقمے بنا کر میرے منہ میں ڈالتی تھیں۔ حضرت خدیجہ ؑ اور پیغمبر اکرمؐ حضرت کو ساتھ لٹا لیتے تھے۔ آغا جوادی آملی کے بارے میں ہے کہ جب حضرت خدیجہؑ کی کانفرنس ہوئی تو رو پڑے اور فرمایا کہ ہر شخص کی ایک شناخت ہوتی ہے اور اس کا شناختی کارڈ ہوتا ہے، ہماری شناخت یہ ہے کہ ہمارے باپ پیغمبرؐ اور حضرت علیؑ ہیں۔

ایک روایت میں پیغمبرؐ فرماتے ہیں: "انا و علی ابوا ھذہ الامۃ"، "میں اور علیؑ اس امت کے باپ ہیں۔" آیت اللہ جوادی آملی مزید فرماتے ہیں کہ ہماری ماں حضرت خدیجہؑ ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام شام میں منبر پر فرماتے تھے، ہم حضرت خدیجہؑ سے ہیں۔ تمام زیارت ناموں میں حضرت خدیجہؑ کا نام بڑے ادب واحترام سے لیا گیا ہے۔ یعنی بڑی نامور شخصیت کے طور پر آپ کا نام موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت خدیجہؑ کے حوالے سے ان کے کمالات و فضائل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیان کیا جائے۔ آپ کے نام پر مساجد تعمیر کروائی جائیں۔ آپ کے نام پر امام بارگاہ منسوب کیے جائیں۔ ویلفیئر کے کام بھی آپ کے نام سے منسوب ہوں۔ کیونکہ حضرت خدیجہ کی سب سے اہم خصوصیت آپ کا دولت مند ہونا، جو آپ نے اسلام کے راہ میں قربان کر دیا۔ کیوں نہ ہم جو بھی ایسے کام انجام دینا چاہیں، اسے حضرت خدیجہؑ سے نسبت دیں۔
خبر کا کوڈ : 1124019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش