0
Sunday 24 Mar 2024 18:13

اسرائیل کو حزب اللہ سے بچانے کی امریکی کوششیں

اسرائیل کو حزب اللہ سے بچانے کی امریکی کوششیں
تحریر: محمد بیات
 
کچھ ہفتوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر امریکی صدر جو بائیڈن کے خصوصی مشیر آموس ہوچیسٹین نے لبنان کا رخ کیا ہے جس کا مقصد بیروت اور تل ابیب کے درمیان ثالثی کا کردار نبھانا ہے۔ ایسے وقت جب سب کی نگاہیں قاہرہ میں جاری جنگ بندی کیلئے مذاکرات پر لگی ہیں اور سب اس کے ممکنہ اعلان کا انتظار کر رہے ہیں، کچھ ماہرین مقبوضہ فلسطین کے شمال میں لبنان کے خلاف ایک نیا فوجی محاذ کھل جانے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ ہوچیسٹین نے لبنان پہنچ کر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے اعلان کا مطلب یہ نہیں کہ لبنان کی سرحد پر جاری جھڑپیں بھی رک جائیں گی۔ صیہونی فوج کی لاجسٹک سرگرمیوں اور اسلامی مزاحمت کے ٹھکانوں پر حملوں نے لبنان پر اسرائیل کے ممکنہ فوجی حملے کا امکان بڑھا دیا ہے۔
 
دوسری طرف لبنان میں اسلامی مزاحمت نے اعلان کیا ہے کہ وہ محاذوں کے درمیان وحدت کی حکمت عملی کے تحت غزہ میں جنگ بندی قائم ہونے کے بعد مقبوضہ فلسطین پر فوجی کاروائیاں روک دے گی۔ الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق لبنان کے وزیراعظم نجیب میقاتی نے بتایا کہ انہیں اسرائیل اور لبنان کے درمیان جاری تنازعہ کے حل کیلئے ہوچیسٹین کی جانب سے ایک پیشکش کی گئی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لبنان کی جنوبی سرحد پر پائیدار امن برقرار ہونے کیلئے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنان کے مقبوضہ علاقے چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا لازمی ہے۔ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران حزب اللہ لبنان نے اپنے قومی مفادات اور غزہ میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی حمایت کیلئے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف محدود فوجی کاروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔
 
اب تک حزب اللہ لبنان کے 245 مجاہد شہید ہو چکے ہیں جو غزہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اسلامی مزاحمت کے عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔ آموس ہوچیسٹین نے لبنان کو پیش کردہ راہ حل میں اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان اپنی فورسز مقبوضہ فلسطین کے ساتھ مشترکہ سرحد سے 8 کلومیٹر پیچھے ہٹا لے اور ان کی جگہ لبنان آرمی اور اقوام متحدہ کی فورسز تعینات کر دی جائیں۔ دوسری طرف امریکہ اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ اسرائیل جنوبی لبنان پر زمینی حملہ نہیں کرے گا۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیر جنگ یوآو گالانت نے آموس ہوچیسٹین سے ملاقات کے دوران اپنے بیانات سے یہ تاثر دیا ہے کہ اسرائیل کے سامنے سفارتی اور فوجی، دونوں راستے کھلے ہیں۔
 
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جنوبی لبنان پر اسرائیلی جارحانہ اقدامات میں تیزی آئی ہے۔ لبنان کے سرحدی قصبے نبطیہ، صیدا اور بعلبک بارہا اسرائیلی بمباری اور گولہ باری کی زد میں آ چکے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد عام شہری شہید اور کئی فوجی اور سویلین عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح 9 مارچ کے دن شمال میں تعینات صیہونی فوج کے ایک اعلی سطحی کمانڈر نے کہا تھا کہ ہم لبنان پر حملہ کرنے کیلئے مسلسل اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد، صیہونی رژیم کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے بھی گالانت سے مخاطب ہوتے ہوئے اس سے مطالبہ کیا تھا کہ حزب اللہ لبنان کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے لبنان پر زمینی حملہ شروع کر دیا جائے۔ ان تمام شواہد سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل، غزہ میں جنگ بندی اور آموس ہوچیسٹین کی سفارتی سرگرمیوں کی ناکامی کی صورت میں لبنان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
 
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اب تک حزب اللہ لبنان اور اسرائیل محدود پیمانے پر جھڑپوں کے ذریعے ایکدوسرے کی ریڈ لائنز عبور کئے بغیر فنی ضربیں لگانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن گذشتہ چند دنوں میں اسرائیل کی جارحانہ کاروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب ریڈ لائنز تبدیل کر کے حزب اللہ لبنان سے وسیع پیمانے پر جنگ شروع کرنے کے درپے ہے۔ ان تجزیات کے ساتھ ساتھ وائٹ ہاوس کے بعض آگاہ ذرائع نے بھی اعلان کیا ہے کہ انہیں موصول ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل آئندہ چند ماہ کے دوران لبنان پر حملہ کرنے والا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں باقی رہنے کیلئے غزہ جنگ کو طول دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل کے چینل 13 نے حال ہی میں ایک سروے رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نئے الیکشن کی صورت میں نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں کو کینسٹ میں بہت کم سیٹیں ملیں گی۔
 
خطے کے موجودہ حالات ایک وسیع علاقائی جنگ کی صورت اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان تناو کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو یہ نیا بحران صرف لبنان اور مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا۔ غزہ جنگ کے دوران عراق، شام اور یمن میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل حزب اللہ لبنان سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے متعدد محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔ اگر اسرائیل جنوبی لبنان پر زمینی حملہ شروع کرتا ہے تو مقبوضہ گولان ہائٹس پر بھی محاذ کھل جانے کا قوی امکان ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ آیا آموس ہوچیسٹین حزب اللہ لبنان اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان سفارتی مفاہمت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا خطے میں ایک اور جنگ شروع ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 1124573
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش