0
Monday 4 Jun 2012 18:31

لبنان میں شام کے بحران کی جھلک (1)

لبنان میں شام کے بحران کی جھلک (1)
تحریر: زاہد مرتضٰی
 
مئی کے اوائل سے لبنان کے شمالی شہر تریپولی میں اچانک ہونے والے فسادات نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ ان فسادات میں دو گروپوں کے درمیان چھڑ جانے والی لڑائی جو سات دن تک جاری رہی، بعدازاں اسی لڑائی کو روکنے کیلئے سکیورٹی فورسز سے انتہا پسند سلفی گروپ کی جھڑپوں میں 7 سے زائد لبنانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ بیسیوں زخمی ہوگئے۔ چہ جائیکہ سکیورٹی فورسز نے جبل محسن کے مکین شام کے حامی علویوں اور باب التبانیہ کے شام مخالف گروپوں کے خلاف آپریشن تین گھنٹوں میں مکمل کرلیا، لیکن اس لڑائی نے شہر کی اہم ترین فالٹ لائن کو عیاں کر دیا۔ 

لبنان کے شمالی شہر تریپولی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں امن و امان کے مسئلے کا شام کے داخلی بحران سے گہرا تعلق ہے۔ شام کی سرحد سے ملحقہ یہ علاقہ سنی غالب اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے اور شام کے بحران کے آغاز کے بعد سے ہی فری سیرئین آرمی کی کارروائیوں کا بیس کیمپ بن چکا ہے۔ تریپولی میں گزشتہ چھ ماہ سے پکنے والا لاوا اچانک پھٹنے کی کچھ ظاہری وجوہات بھی ہیں، لیکن اس کی جڑ شام کے حالات میں پنہاں ہے۔ وہ وجوہات درج ذیل ہیں۔
 
1۔ تریپولی میں مقامی مذہبی رہنما شادی المولوی کی انتہا پسند تنظیموں اور سرگرمیوں سے تعلق کی بنا پر گرفتاری۔
2۔ مئی کے پہلے عشرے میں شامی باغیوں کیلئے ترکی، قطر سے بھیجی جانے والی جدید ترین اسلحہ کی تین بڑی سپلائز کا پکڑے جانا۔
اوپر بیان کردہ دونوں وجوہات کا براہِ راست تعلق شام کی صورتحال سے ہے، بالخصوص اسلحہ کی سب سے بڑی سپلائز یکے بعد دیگرے پکڑے جانا (FSA) فری سیرئین آرمی کیلئے ایک بڑے دھچکے کا باعث ہے۔ تریپولی FSA کا بیس کیمپ بن چکا ہے اور پچھلے 6 ماہ سے جو صورتحال وہاں developeہو چکی ہے اس میں اسلحے کا عام ہو جانا، انتہا پسندانہ نظریات کا فروغ، چھوٹے چھوٹے جہادی دھڑوں کا ظہور شامل ہیں، ان سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے حکومتی اقدامات کسی صورت وہاں موجود گروپس اور ان کی قیادت کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتے تھے۔ اسی لیے جب لطف اللہ 2 چیک پوسٹ پر اسلحہ پکڑا گیا تو ردعمل میں تریپولی کے مضافاتی علاقے باب التبانیہ کے مسلح گینگز اور جبلِ محسن کے علویوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوگیا۔ البتہ یہ سوال قابل غور ہے کہ چھ ماہ سے تریپولی میں جاری مختلف گروپس کی سرگرمیاں، اور علاقے کو شام کے باغیوں کے بیس کیمپ میں تبدیل ہونے کے عمل کو سکیورٹی ادارے کیوں خاموشی سے دیکھتے رہے۔
 
لبنانی تجزیہ نگار غسان مصور اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ انتہا پسند گروپ صرف مقامی اہلکاروں کی غفلت کے باعث شہر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں آیا۔ تریپولی کی داخلی سکیورٹی فورسز ISFکے ڈی جی اشرف رفیع کہتے ہیں کہ صورتحال کو مختصراً بیان کرنے کیلئے یہ مثال کافی ہے کہ 2007ء کے واقعات کو دہرایا گیا۔ اگر حکومت معاملات سے لاتعلق رہے گی تو 70 مسلح مضبوط گروپ شمالی دارالحکومت کو قابو میں لاسکتے ہیں۔ 1980ء میں TAWHIDموومنٹ نے ایسے ہی کیا تھا۔ علاقے کی صورتحال کو مزید سمجھنے کیلئے وزیراعظم نجیب میکاتی اور وزیر یوتھ اینڈ اسپورٹس فیصل کرامی کے بیانات کا موازنہ کرتے ہیں۔ دونوں کا تعلق تریپولی سے ہے۔ 

وزیراعظم میکاتی نے حکام کو صورتحال کنٹرول میں لانے اور امن لانے کی ہدایت کی، جبکہ فیصل کرامی نے اپنے خدشات بیان کرتے ہوئے چھ ماہ قبل ہی عوام کو شہر کے امن و امان کو خراب تر ہوتی ہوئی صورتحال سے خبردار کر دیا تھا۔ کرامی نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز کو اپنی مکمل ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے مکمل سرپرستی فراہم کرے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم معاملہ دو دنوں میں حل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ فیصل کرامی وزیراعظم کی صلح کی پالیسی سے بیزار نظر آتے ہیں۔ کرامی جانتا ہے کہ فرقہ وارانہ اور امن و امان کی بڑھتی ہوئی لڑائی جو پچھلے چھ ماہ سے جاری ہے، ایک دھماکے کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ اگر آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یقیناً ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

شہریوں کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے حقیقی غیر حاضری اور عدم دلچسپی نے امن و امان اور لاقانونیت کی فضا پیدا کر دی ہے۔ تم کسی کو بھی مار کر آسانی سے فرار ہو سکتے ہو۔ کار چوروں کے گینگز اور دوسرے جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے، ڈالروں سے بھری جیبوں والے شامی جنگجو شہر میں گشت کرتے پھر رہے ہیں یا ساحلوں پر دھوپ سینکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ Switch Blades کی جگہ آٹومیٹک رائفلز نے لے لی ہے۔ قانون کا احترام ریاست اور سماجی اداروں سے مفقود ہو چکا ہے۔ صرف چند دنوں کے بعد سکیورٹی فورسز کی طرف سے فائرنگ ریاستی اتھارٹی کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔
 
شادی المولوی کی گرفتاری سے شروع ہونے والا بحران صرف ایک معذرت خواہانہ پیغام تھا۔ ایک باخبر حکومتی فرد کے مطابق گرفتاری کے بعد پانچ منظم گروپس حرکت میں آگئے۔ پہلے گروپ کا تعلق شیخ سلیم الرفیعی سے تھا جو فیوچر موومنٹ (المستقبل پارٹی) سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد ایک بڑے اسلامی گروپ کو لیڈ کر رہا ہے۔ اس گروپ میں جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور گروپ FSA (فری سیرئین آرمی) کا حمائتی ہے۔ وہاں شیخ حسین سباغ کا گروپ بھی موجود ہے، اس میں احمد محمود جس کے پاس جنگجوؤں کی اکثریت ہے، جو ایم پی محمد کبارہ سے مربوط ہے۔ ضلع عکار سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی بڑی اکثریت کی قیادت خالد داہر کر رہا ہے۔ 

فسادات کے دوران FSA کے درجنوں مسلح لڑاکا بھی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر پھرتے نظر آئے، جو حال ہی میں عوام میں ظاہر ہوئے ہیں، جن میں بیشتر کا تعلق ابو سمارا سے ہے۔ فیوچر بلاک کے اہم پی خالد داہر کے مطابق شادی المولوی کی گرفتاری کے بعد احتجاج کا طریقہ کار مہذبانہ نہیں تھا، یعنی سینکڑوں مسلح جنگجوؤں کا جدید ترین اور مکمل کیل کاٹنے کے ساتھ شہر میں پھیل جانا، پس منظر سے سامنے آکر مورچے بنا کر ہر آنے جانے والے کو غضبناک نظروں سے دیکھنا اور مسلح موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کا ٹائر جلا کر گلیاں، روڈ بند کر دینا قطعاً مہذبانہ نہیں تھا۔
 
تریپولی کے شہری اپنے اپارٹمنٹس کی کھڑکیوں سے یہ مناظر دیکھ رہے تھے کہ سورج غروب ہونے سے قبل شہر مسلح افراد اور شامی مخالفین کیلئے کھیل کا میدان بن چکا تھا جبکہ سکیورٹی فورسز کوئی بفر زون قائم نہ کرسکیں۔ بعثی پارٹی، عرب موومنٹ اور علویوں سے لڑائی کے بعد سنی مسلح گینگز کی فوج کے ساتھ جھڑپیں حالات کا انتہائی خطرناک شکل اختیار کر لینے کی طرف ایک واضح اشارہ تھا۔ سوال اُٹھتا ہے کہ شامی اپوزیشن کے حامی ان مسلح گینگز سے لبنانی فوج کے مدمقابل آنے کی آخر ضرورت کیوں محسوس کی۔
 
تریپولی کے مکینوں کے مطابق مسلح جنگجوؤں نے بعثی پارٹی، شامی حامیوں اور علویوں جن سے ان کی مخالفت چل رہی تھی کی بجائے فوج کے ساتھ حقیقی لڑائی چھیڑ دی۔ درحقیقت یہ جھڑپ شہر پر مکمل قبضے کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ کو ہٹانے کی ایک کوشش تھی۔ سلفیوں کے مسلح گینگز فوج کے مدمقابل آئے اور لڑائی پورے شہر میں پھیل گئی۔ اس وقت شادی المولوی جو اس تمام جھگڑے کی جڑ تھا کو بھلا دیا گیا۔
 
تریپولی میں موجود ذرائع ابلاغ کے مطابق شہر میں فسادات کے دو محرکات تھے، پہلا نقطہ یہ تھا کہ فوج کے خلاف لڑائی ایک جہاد سمجھ کر لڑی گئی، دوسرا نقطہ یہ ہے کہ لبنان میں مقیم شام مخالف عناصر تمام قوتوں کو ایک واضح پیغام دینا چاہتے تھے جو لطف اللہ II واقعہ میں ملوث ہیں، جس میں لبنانی فورسز نے شامی اپوزیشن FSA کیلئے بھیجی جانے والی اسلحے کی ایک بڑی کھیپ پکڑی تھی۔ لڑائی والے دن یہ بات زبان زد عام تھی کہ مرتدوں اور بے دینوں کے خلاف لڑائی ہو رہی ہے۔ سنی لڑاکا، کاروں پر لاؤڈ سپیکر لگا کر عام شہریوں کو جہاد کیلئے اکسا رہے تھے۔ 

المستقبل پارٹی کے ایک عہدیدار نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی ان فسادات پر قابو پانے میں اپنا اثر دکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس کا کہنا تھا کہ سلفی شیخ کویت، سعودی عرب اور قطر میں اپنے "فیاض" بھائیوں سے رابطے میں رہتا ہے، اس کی جیبوں میں اس سے  کہیں زیادہ رقم ہے، جتنی سعد حریری اپنی تجوریوں میں رکھتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ تریپولی چھ ماہ قبل ایسا نہیں تھا۔ اب یہاں لوگ درعا سے اُٹھتے ہیں اور ناشتہ بابا مرو میں کرتے ہیں، ظہر حما میں ادا کرتے ہیں اور دوپہر کا کھانا دمشق، عصر جبل الزاویہ اور فرقہ وارانہ چینلز کی سیٹی پر سوتے ہیں۔ 

سکیورٹی فورسز اور مسلح جنگجوؤں کے درمیان تین گھنٹے کی لڑائی کے بعد شمال کے مفتی مالک الشعار ایم پی کبارہ، خالد داہر اور معین المرجعی کی کوششوں سے دھرنا دیئے بیٹھے اسلام پسندوں سے مذاکرات ہوئے، البتہ مذاکرات وزیراعظم میکانی کے طے شدہ فارمولے کے تحت ہوئے نہ کہ کرامی کے فارمولے کے تحت۔ وہ یوں کہ فوج ان گھروں پر چھاپے نہیں مارے گی، جہاں سے فائرنگ کی گئی، چہ جائیکہ خفیہ ادارے ہر ایک کو بخوبی پہچانتے ہیں۔ اسلحہ کی نمائش پر پابندی نہ ہوگی، اور ہر جگہ مہیا ہوگا۔ 

سوال یہ ہے کہ میکاتی کیوں ان گروپس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا نہیں چاہتا، اور اس نے ان مسلح گینگز کو تریپولی میں کھلی چھٹی کیوں دے رکھی ہے، جس کی وجہ سے یہ شہر شامی باغیوں کا گڑھ بنتا چلا جا رہا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ حکومت خود جان بوجھ کر مسلح گینگز کی کارروائیوں سے صَرف نظر کر رہی ہے، کیونکہ اپنا انتخابی حلقہ ہونے کی وجہ سے میکاتی یہ نہیں چاہتا کہ سلفیوں کے موثر کیمپ سے اپنے تعلقات بگاڑ لے۔ تاہم تریپولی کے شہری اس صورتحال سے کافی برگشتہ ہو چکے ہیں، جو ان کے شہر کا امن اور اقتصادیات کو تباہ کر رہی ہے۔ 

تریپولی کے حالات کے بعد عکار، بیروت اور راس بیروت کے علاقے بیزارے میں بھی جھڑپوں اور کشیدگی کے واقعات پیش آئے۔ جو لبنان کی خراب صورتحال کی واضح نشاندہی کرتے ہیں۔ ضلع عکار شام کے سرحدی علاقے وادی خالد سے ملحقہ ہے۔ تریپولی میں شادی المولوی کی گرفتاری کے خلاف دھرنے میں شرکت کیلئے ضلع عکار سے تعلق رکھنے والے شیخ احمد عبدالواحد اور اس کے ساتھی محمد حسین مرحب کو حلیہ قصبے میں ایک چیک پوسٹ پر گاڑی نہ روکنے پر فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعہ کا براہ راست اثر بیروت پر پڑا اور وہاں کے علاقے "طارق الجدیدے" میں دو سنی گروپوں (شام کے حامی اور مخالفین) کے درمیان لڑائی چھڑ گئی، جو ساری رات جاری رہی، اس لڑائی میں 2 افراد ہلاک اور بیسیوں زخمی ہو گئے۔
 
یہ واقعہ 19 اور 20 مئی کی درمیانی رات پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ لڑائی شام کی حامی سنی جماعت "عرب موومنٹ" اور المستقبل پارٹی کے کارکنوں کے درمیان ہوئی۔ طارق الجدیدے میں المستقبل پارٹی کا دفتر مسلح نوجوانوں کے اسلحہ کے مرکز کا کردار ادا کر رہا تھا۔ میونسپل اسٹیڈیم اور فلیش پوائنٹ کے درمیان ایک ٹرانزٹ روڈ تھا، مسلح افراد وہان سے اسلحہ لیتے اور یونیورسٹی کی پچھلی طرف سے آخر فلیش پوائنٹ تک پہنچتے تھے اور المستقبل پارٹی کے دفتر کے کونے تک جاتے اور گنوں میں کارتوس لوڈ کرکے نیچے گلی تک فائر کرتے چلے جاتے۔
 
لبنان کے خراب حالات کے شام پر کس قدر اثرات مرتب ہوئے ہیں یا خطے میں رونما ہونے والے حالات کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اس بات کا اندازہ اس واقعہ سے لگاتے ہیں۔ چند دن قبل ترکی سے شام داخل ہوتے لبنان کے زائرین کی ایک بس اغوا کر لی گئی، جبکہ بغداد میں لبنانی زائرین کی بس پر بم حملہ ہوا، جس میں دو لبنانی شہری شہید ہوگئے، ان دو واقعات نے نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگا دی۔ لہٰذا لبنان میں بیروت کے مضافاتی علاقے راس بیروت میں امل ملیشیا کے جوان سڑکوں پر نکل آئے، سڑکیں بند کر دیں اور بعض شامی نوجوانوں کو اغوا جبکہ بعض مقامات پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا، لیکن حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوری طور پر ٹیلی ویژن پر خطاب کیا اور مظاہرین کو سڑکوں اور گلیوں کو چھوڑ دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کوئی بھی شامی مزدوروں پر تشدد نہ کرے اور انہیں نقصان نہ پہنچائے۔ سید کی ہدایات سنتے ہی گلیاں مظاہرین سے خالی ہوگئیں۔
خبر کا کوڈ : 168116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش