9
0
Wednesday 30 Apr 2014 20:32

تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ (3)

تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ (3)
تحریر: حسن عسکری 

يہ آفت فقط يونيورسٹی سطح تک نہيں رہی بلکہ حوزہ کے اندر کتنے علماء و طلاب بھی اس آفت کا شکار ہو گئے۔ اسی کو امام خميني ؒنے "التقاط" کا نام ديا۔ التقاط یہ ہے که  ايک ايسی آئيڈيالوجی تشکيل دی جائے جس ميں اسلامی ارکان کے ساتھ مغربی اور امريکی آئيڈيالوجيز کے ارکان بھي شامل کر لیے جائیں۔  امام خمينيی نے اسی وجہ سے اسلام نابِ محمدی یعنی خالص اور غیر ملاوٹ شدہ  اسلام پر تاکيد کی تاکہ اسلام و مسلمين کو  التقاط  جیسی  خطرناک آفت سے  سے بچایا جائے۔ رهبرِ معظم نے بھی التقاط کو اسلامِ نابِ محمدی کے فمس و عمل ميں مانع اور رکاوٹ قرار ديا۔
 
امام خمینی (رہ):
 امام خمینی کی پندرہ سالہ انقلابی تحریک اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ امام نے عوام کو مغربی و مشرقی کیپسولوں میں دعوت نہیں دی بلکہ ساری ایرانی عوام کو امت کے قالب میں ڈھالا اور جہانِ اسلام کو بھی امت کے الٰہی کے آئینے میں ڈھلنے کی دعوت دی۔ اسی طرح جب شاہِ ایران کی طرف سے جلا وطنی کے بعد امام کو عراق بھیجا گیا تو وہاں شہید باقرالصدر ؒسے ملاقات ہوئی۔ علمائے نجف میں سب سے زیادہ امام کی فکر کے نزدیک  یہی شخصیت تھی لیکن جب امام سے پوچھا کہ آپ ایران سے خارج کر دیئے گئے تو کیا کوئی تنظیم وغیرہ تشکیل دے کر آئے ہیں کہ جو آپ کی غیر موجودگی میں فعالیت جاری رکھے۔  تو امام نے فرمایا کہ میں پارٹی  بنانے کا قائل نہیں ہوں اور انقلاب کو اسلامی و قرآنی بنیادوں پر قائم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات سن کر شہید بہت متاثر ہوئے۔ (بحوالہ  حزب اللہ کی طرف سے بنائی گئی “روح اللہ” ڈاکومنٹری)۔
 
اسی طرح حضرت آیۃ اللہ جوادی آملی،  امام خمینی (رہ) کی شخصیت پر ایک کتاب میں فرماتے ہیں، "اسلامی انقلاب کے بنیادی عناصر میں سے ایک عنصر یہ ہے کہ معاشرے کا نظم و انضباط امام و امت کی صورت میں جلوہ افروز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی طریقے سے وحدت و انسجام کا پیدا ہونا محال ہے۔ (بنيان مرصوص،ص 24)۔  ايران کے اندر يہ مقدس تحريک ابتدائے پندرہ خرداد سے ہی سو فيصد اسلامی ہے اور فقط علماء کے ہاتھوں اور عوام کی حمايت سے اس کی بنياد بندھی نيز يہ تحريک علماء کی امامت و قيادت ميں بغير کسی گروہ و دھڑے اور شخص کی حمايت کے چلی اور جو اس تحريک کو علماء کی رہبریت سے نکال کر کسی حزب و تنظیم کی طرف لے جانا چاہتے ہيں وہ يقيناً نیت ِبد رکھتے ہيں۔ (احزاب و گروہہای سياسی از نظر امام خمينی، ص 10۔)
 
اسلامی انقلاب کی تحريک کی ابتدا ميں بعض علماء نےامام خمینی ؒ کو دو تنظیميں بنانےکا مشورہ ديا ايک تنظيم ظاہری اور کھلم کھلا  کام کرے اور دوسری خفيہ اور مخفيانہ فعاليت کرے تاکہ اس انقلابی تحريک کو منظم طور پر چلایا جا سکے تو  اس موقع کا مکالمہ درج ذيل ہے۔
امام: تنظيم کسی درد کی دوا نہيں ہے نہ ظاہری اور نہ مخفی ہم ايسے ہی عوام کو بیدار کریں  گے۔
 
عرض کيا گیا: کل حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑيں تو کن لوگوں کو بھيجيں گے؟ یا پارلیمنٹ میں جانا پڑے تو کیا کریں گے؟
 
امام: عوام کو بھيجيں گے کہ وہ پارليمنٹ کا دروازہ توڑ کر پارليمنٹ پر قبضہ کرليں۔
 
پھر جب تنظيم کے چند فوائد بيان کيے گئے تو امام نےفرمايا، ہر گز نہيں کسی صورت ميں بھی تنظيم کا نام نہ ليں کيونکہ اسی ميں مصلحت ہے کہ ہم تنظيم نہ بنائيں اور اگر ہم تنظيم بنائيں تو کيا عوام بھی تنظيميں بنانا شروع کر دے؟  نہيں بلکہ ہم پہلے کی طرح فقہ، فقاہت اور اجتہاد کے ذريعے سے تحريک چلائيں تاکہ عوام کو آمادہ کرسکيں۔
 
آيت اللہ طاہری خرم آبادی فرماتے ہيں کہ حضرت امام کا نہ صرف انقلاب سے پہلے حزب پر اعتقاد نہيں تاہم بلکہ انقلاب کے بعد بھی حزب کے ڈھانچے کی مخالفت کرتے تھے حتی جو حزبِ جمہوری اسلامی کی حمايت کی تو حقيقت ميں وہ اشخاص کی حمايت تھی نہ کہ حزب کی کيونکہ جب امام سے پوچھا گيا کیا آپ نے حزب جمہوری اسلامی کی مدد و حمايت کی ہے تو فرمايا، ميں اشخاص کو پہچانتا تھا اور ان کی مدد کی ہے نہ حزب کی۔ (سیرہ عملی امام خمینی در ادارہ امورِ کشور۔  فصل، احزاب۔)
ہرمسلمان جو اسلامی اصول و اقدار کو قبول کرتا ہو اور عمل و کردار ميں دقيق علوی خصوصيات کا پابند ہو حزب اللہ کا عضو اور ممبر ہے اور اس کو اگر ہم حزب کہہ رہے ہيں تو اس معنی ميں نہيں ہے جو رائج (اور مغربی طرز کی حزب ) ہے۔ (احزاب و گروہہای سياسی از نظر امام خمينی ص 119۔)
 
حزبِ مستضعفين کی تشکيل آرزوئے امام:
 پوری دنيا ميں ايک حزب عمومی تشکيل دی جائے يوم القدس کي مناسبت سے ميں اميد رکھتا ہوں کہ ايک حزب مستضعفين کے نام سے بنائي جائے دنيا کے تمام مستضعفين اس ميں باہم شرکت کريں اور مشرقي و مغربي مستکبرين و مستعمرين کے خلاف مبارزہ کريں اور يہ حزب مستضعفين وہي حزب اللہ  (یعنی امت ) ہے۔ (احزاب و گروہہاي سياسي از نظر امام خميني ص 119۔)
 
اے مختلف تنظیموں! اے مختلف گروہو! اگر قوم کے لیے درد مند ہو تو جان لو یہ تنظیمیں بنانا امت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ (صحیفہ امام ، ج8 ، ص 477۔) کچھ لوگ  اسلام کے نام پر احزاب بنا رہے ہیں اور کچھ لوگ غیر اسلام کے نام پر دونوں غلطی کر رہے ہیں۔ (صحیفہ امام، ج8۔)
"حزبِ جمہوری اسلامی" جو کہ امام کے شاگردانِ خاص انقلابی علماء نے اوائل میں ملکی امور کو منظم طور پر چلانے کے ہدف سے قائم کی تھی اس کو بھی  اسی لیے منحل کیا گیا کہ قیادت و رہبری کرنے والے علماء کو حزبی و تنظیمی ڈھانچے میں کام کرنے میں ناقابلِ جبران موانع اور مشکلات  پیش آتی ہیں۔ کچھ  ہی مدت گزرنے کے بعد  اسی تنظیم کے تمام ممبران اور اعضاء خود ہی ان مسائل کی طرف متوجہ ہو گئے اور امام خمینی کی طرف اس تنظیم کے انحلال کا خط لکھ دیا اور امام نے اس  انحلال کی تائید کردی۔
 
امام خمینی کی نظر میں تنظیم کے جواز پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ جن لوگوں نے امام کی طرف سے جواز کی بات کی ہے انہوں نے اس سے استفادہ کیا کہ امام نے کتنی تنظیموں کو شخصی طور پر منع  نہیں کیا اور ان کے ساتھ مالی و اجتماعی تعاون کیا، اگرچہ کلی طور پر انقلاب سے پہلے اور بعد تک تحزب کو غیر اسلامی  قرار دیتے رہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ باز نہیں آئے اور تنظیمیں وجود میں لے آئے۔ تو جس طرح آج رہبرِ معظم نے واضح طور پر کہا کہ ہم ان تنظیموں کی شرعی طور پر تائید نہیں کرتے لیکن پھر بھی یہ نظام کی طرف سے ممنوع نہیں ہیں اور تعاون بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح امام خمینی کی حقیقی نظر وہی سابقہ تھی لیکن امت کے اندر تنظیمی سوچ اتنی راسخ ہو چکی تھی کہ امام  کے منع کرنے کے باوجود وہ ختم نہ ہو سکی۔ اس طرح ان سلسلوں کی صرف اور صرف مالی اعانت و مدد  اور ہدایت و راہنمائی کی۔
 
مقام معظم رہبری:
ہم  تنظیم کے کلی طور پر مخالف نہیں ہیں۔ اگر کوئی خیال کرے کہ  ہم سرے سے تنطیم کے مخالف ہیں۔ نہیں ایسے نہیں ہے بلکہ   تنظیم دو قسم کی ہو سکتی ہے۔ ایک وہ ہے جو فکری، دینی، تربیتی، عقیدتی کام کرنا چاہتی ہے۔ حکومت و اقتدار کے حصول سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف امت کے اندر عقیدتی اور سیاسی معرفت  اور بصیرت  پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت و قیادت سے ان کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اس قسم کی تنظیم ہو تو کوئی اشکال نہیں۔ دوسری قسم مغرب کی تقلید میں تنظیم کا وجود ہے کہ جو حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہوتی ہے یعنی کچھ لوگ یا گروہ  مل کر    مختلف مالی و دیگر وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے سیاسی کشمکش اور جوڑ توڑ کرتے ہیں تاکہ اقتدار تک رسائی حاصل کرسکیں۔ دوسرے ممالک میں اس قسم کی تنظیمیں ہیں۔ ایران میں بھی ہیں  اور نظام نے ان پر پابندی بھی نہیں لگائی ہوئی لیکن میں اس قسم کی حزب کا قائل نہیں ہوں۔ اس قسم کی تنظیم سازی اور پارٹی بازی اقتدار کی دوڑ کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں ہے۔ (سخترانی رہبرِ معظم دربارہ  وحدت و تحزب۔)
 
آیۃ اللہ جوادی آملی:
آیۃ اللہ جوادی آملی نے قرآنی معاشرے کی وضاحت کرتے ہوئےفرمایا،  قرآن نے حزب و تنظیم کی نفی فرمائی ہے اور مکتب ِتشیع کو مکتبِ ولایت و امامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مسلمان ایک امت بننا چاہتے ہیں تو عوام کے اندر مرجع اور مقلد کا رابطہ بھی کافی نہیں چہ جائیکہ پیری مریدی اور حزبی و تنظیمی بنیادوں پر ارتباط قائم کیا جائے۔ امام خمینی نے مرجع و مقلد کے رابطے سے نکال امام و امت کے رشتے میں جوڑا۔ یہ روابط کا بہت بڑا تحول اور انقلاب تھا جو علماء اور عوام کے درمیان قائم ہوا۔ یعنی اگر مرحوم وحید بہبہانی نے علماء و عوام کے درمیان محدث و مستمع کے جس رشتے کو مرجع و مقلد میں ترقی دی۔ امام خمینی نے اپنے فقہی و ثقافتی انقلاب میں اس کو امام و امت جیسے باکمال رشتے میں منسلک کیا اور طاغوتوں کے ساتھ مقابلہ اور مبارزہ کے لیے فقہاء و عوام کے درمیان اسی رابطے کی تاکید فرمائی۔ (ولایت فقیہ، ص 282۔)
 
کسی معاشرے اور اجتماع کی ترقی و پیشرفت کے موانع میں سے ایک تنظیمیں اور پارٹی بازی ہے۔ قرآن شدت سے ان تشکیلات سے منع کرتا ہے اور حزبوں کو مانع وحدت سمجھتا ہے۔ اور اس کا مطلب  کوئی اجتماعی بدنظمی اور نہیں ہے بلکہ اسلام ایک طرف سے نظم و انضباط  کی تاکید کرتا ہے اور دوسری طرف سے تنظیموں کو معاشرتی ارتقاء سے رکاوٹ قرار دیتا ہے۔ و ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ و انا ربکم فاتقون۔ فتقطعوا امرھم بینھم زبرا کل حزب بما لدیھم فرحون ۔ فذرھم فی غمرتھم حتی حین۔مومنون 52 ،54۔ 
اور بے شک یہ آپ کی امت “امت واحدہ” ہے اور میں آپ کا رب ہوں پس مجھ سے ڈریں لیکن انبیاء کے پیروان تفرقہ اور دھڑا بازی کی طرف چلے گئے اور ہر دھڑا اور گروپ جو اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے۔
اسلامی سياست کے ارکان بيان کرتے ہوئے جب رہبر اور قوم کے درميان رابطہ کی بات ہو تو فرمايا کہ اسلام ميں رابطہ کی بنياد امام و امت کے درميان امامت پر ہے۔ اسی طرح احاديث کی روشنی ميں امت کو اعضاء اور امام کو دل اور قلب قرار ديا۔ (سرچشمہ اندیشہ، آیۃ اللہ جوادی آملی، جلد ۶، صفحہ ۳۴۲۔)
 
آیت الله مصباح یزدی:
احزاب اور انجمنوں کو اسلام صرف باہمی اور گروہی کام کرنے کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ امام خمینی کی تحریک کے اوائل ميں ایسی ہی مثالیں ملتی ہیں۔ اس وقت جب امام کے عاشقان اور فدائیان آپ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ ان کا مال و جان اسلام و امام کی خدمت میں حاضر ہے اور پوچھا کہ کیسے کام کریں؟ تو فرمایا کہ افراد و انجمنوں  کو نزدیک کریں اور مجموعہ  تشکیل دیں۔ آج بھی اگر ہم فعالیت کرنا چاہتے ہیں تو باہمی کام کریں البتہ حزب و تنظیم کے قالب میں نہیں اگرچہ کلی طور پر نفی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی جو بہترین روش ہے فعالیت کرنے کی اور اسلامی اقدار کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے وہی ہے جو امام خمینی نے پیش کی۔ حزبی اور تنظیمی کام میں اعتراضات ہیں جو باہمی و گروہی کام کرنے میں نہیں ہیں۔ پس لازم ہے کہ ہمیں مضبوط  انداز میں کام کرنے چاہیئیں لیکن مغربی ماڈل کے نہ ہوں اس لیے کہ اسلام اس قسم کے ماڈل کو زیادہ اچھا نہیں سمجھتا۔ (آذرخش کربلا)
اسی طرح آیۃ اللہ مصباح یزدی سے جب صدارتی انتخابات میں قوم کی راہنمائی اور بصیرت افزائی کے لیے کام کرنے والوں نے پوچھا کہ کیا ہم تنظیم بنالیں؟ تو آقائے یزدی نے انہیں تنظیم بنانے سے منع فرمایا لیکن بغیر تنظیمی اسٹرکچر کے ایک نہضت و تحریک بنامِ  “جبہہ پائیداری و مقاومت ” کی اجازت فرمائی۔ عیناً اسی طرح تحریک و نہضت سرزمینِ پاکستان میں ”تحریکِ بیداریِ امتِ مصطفی“بھی ہے جو کہ بغیر کسی تنظیمی طریقہ کار کے طاغوت کے سقوط اور الٰہی نظام کے نفاذ کے لیے سرگرم  اور فعال ہے کہ خداوند  اس تحریک کو ہر قسم کی آفات و موانع سے محفوظ فرمائے۔
 
شهيد باقر الصدر (رہ):
شهيد باقر الصدر نے جب "حزب الدعوۃ" تشکیل دی تو اس کے پانچ سال گزرنے کے بعد تنظیمی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ چونکہ مرجعِ وقت مرحوم آیۃ اللہ محسن حکیم ؒ نے ان کو فرمایا کہ آپ کی علمی و اجتماعی شخصیت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ آپ کسی حزب کا حصہ بن جائیں۔ (قواعد کلی استنباط۔ باب مشی سیاسی شہید باقر الصدر۔) انہی دنوں میں سید الشہید ؒ کا مشہور فتویٰ صادر ہوا کہ جس میں انہوں نے حوزہ علمیہ کے تمام علماء و طلاب کے لیے کسی تنظیم میں فعالیت کو ممنوع قرار دیا۔ اس کے بعد شہید نے حزب الدعوۃ کی  فقط راہنمائی کی اور اس نظر تک پہنچے کہ احزاب کو علماء و فقہاء کا دست و بازو ہونا چاہیئے نہ کہ علماء خود حزبوں کا حصہ بن جائیں۔ لہذا اسلامی تحریکوں کی رہبریت علماء و مراجع کے ہاتھ میں سزاوار ہے نہ کہ تنظیموں اور پارٹیوں کی عضویت۔ (الخطوط العامۃ للمرجعیۃ الصالحۃ، حسین علی عبادی، ص 55۔)
 
سید جواد نقوی:
سرزمینِ پاکستان میں آقائے سید بزرگوار نے جن موضوعات کو علمی و عوامی حلقوں میں زیرِ بحث لایا ان میں سے ایک  موضوع “تحزّب”  یعنی تنظیمی تفکر ہے۔ سید کی نگاہ میں تنظیمی سوچ ، امتِ واحدہ کے تصور و تحقق سے تضاد رکھتی ہے  اور امت سازی  میں ایک مہم رکاوٹ ہے چونکہ تنظیم کے ڈھانچے اور اس کے نصب العین میں ٹکراؤ ایک مرحلے میں جا کر حتمی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تنظیمی طرزِ عمل مغرب و مغرب زدہ  لوگوں کا تجربہ ہے۔ یہ طرزِعمل فلسفہ امامت  و امت سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ خط و راہِ  امام خمینی سے اجنبیت بے شعوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
 
بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ جو بھی کوئی منظم فعالیت کرنا چاہتا ہے وہ ناچار ہے کہ تنظیم کے ڈھانچے سے استفادہ کرے  وگرنہ کام غیر منظم ہو جائے گا۔ یہ ایک شبہہ اور مغالطہ ہے۔ حالانکہ نظم و ڈسپلن صرف تنظیم میں ہی منحصر نہیں بلکہ سب سے بڑے منظم اولیاءاللہ ہیں۔ کیا انہوں نے نظم و ضبط کا یہی راستہ اپنایا اور پھیلایا تھا یا  الامامۃ نظام الامۃ و نظام المسلمین کی راہِ نجات دکھائی؟ کیوں نظم و ضبط اور ڈسپلن کو صرف تنظیم یا پارٹی میں ہی محدود کر دیا جاتا ہے؟ کیا منظم کام کا کوئی اور مصداق نہیں؟ کیا امام خمینی کا امت سازی کا الٰہی تجربہ ملتِ پاکستان کو نظر نہیں آ رہا؟
 
مولانا ابوالاعلی مودودی:
مولانا مودودی نے تنظیم کے ذریعے سے اسلام کے بڑے اور عظیم اہداف تک پہنچنے کو خام خیالی قرار دیا ہے اور “ اسلامی حکومت کیسے قائم ہوتی ہے؟  ”کے عنوان سے مقالہ میں کہتے ہیں، "ہمارے ہاں یہ سمجھا جا رہا ہے بس مسلمانوں کی تنظیم ان کے تمام دردوں کی دوا ہے۔“ اسلامی حکومت” یا “ آزاد ہندوستان میں آزاد اسلام” کے مقصد تک پہنچنے کی سبیل یہ سمجھی جا رہی ہے کہ مسلمان قوم جن افراد سے مرکب ہے وہ سب ایک تنظیم پر جمع ہوں، متحد ہوں اور ایک مرکزی قیادت کی اطاعت میں کام کریں۔ لیکن دراصل یہ قوم پرستانہ پروگرام ہے۔ جو قوم بھی اپنا بول بالا کرنے کے لئے جدوجہد کرنا چاہے گی وہ یہی طریق کار اختیار کرے گی خواہ وہ ہندو قوم ہو، یا سکھ، یا جرمن، یا اطالوی۔ قوم کے عشق میں ڈوبا ہوا ایک لیڈر جو موقع و محل کے لحاظ سے مناسب چالیں چلنے میں ماہر ہو اور جس میں حکم چلانے کی خاص قابلیت موجود ہو، ہر قوم کی سربلندی کے لئے مفید ہوتا ہے، خواہ وہ مونجے یا سا ورکر ہو، یا ہٹلر یا مسولینی۔ ایسے ہزاروں لاکھوں نوجوان جو قومی عزائم کے لئے اپنے لیڈر کی اطاعت میں منظم حرکت کر سکتے ہوں، ہر قوم کا جھنڈا بلند کرسکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ جاپانیت پر ایمان رکھتے ہوں یا چینیت پر۔ پس اگر“ مسلمان” ایک نسلی و تاریخی قومیت کا نام ہے اور پیش نظر مقصد صرف اس کا بول بالا کرنا ہے تو اس کے لئے واقعی یہی سبیل ہے جو تجویز کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک قومی حکومت بھی میسر آ سکتی ہے اور بدرجہ اقل وطنی حکومت میں اچھا خاصا حصہ بھی مل سکتا ہے لیکن اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے مقصد تک پہنچنے کے لئے یہ پہلا قدم بھی نہیں بلکہ الٹا قدم ہے۔
 
مولانا مودودی، سید قطب اور حسن البناء تنظیموں کے مخالف تھے اور سورہ نور آیت 55 جیسی آیات قرآنی کا سہارا لیتے ہوئے صرف امتِ واحدہ کے قائل تھے اور بقیہ تنظیموں کو حزب شیطان سمجھتے تھے۔ (بررسی اندیشہ مولانا مودودی، بخشِ نظام ِحزبی)۔ مولانا کہتے ہیں قرآن عظیم میں دو حزب یعنی دو امتیں اور جماعتیں ہیں۔ ایک حزب اللہ اور دوسری حزب الشیطان اور  اسی طرح قائل ہیں  کہ اسلامی مجلسِ شوریٰ میں بھی تنظیمی تقسیم وجود میں لانا جائز نہیں ہے۔ (اسلام کا سیاسی نظریہ، ص 31۔)
آغاز میں یہ اسلامی تھیوری مولانا نے بیان کی لیکن عملاً خود بھی اس پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس کو صحیح طور پر تعمیل نہیں کرسکے اور انتخابی نظام میں اپنی جماعت کو حزبی طور پر قربان کر دیا۔
 
علامہ اقبالؒ:
علامہ اقبالؒ نے بھی مغرب اور مغرب زدوں کے کھوکھلے نعروں کی طرف توجہ دلائی۔
مجلس آئين و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب در مزہ شیرین اثر خواب آور

آج ہم فرنگی توہمات کا شکار ہو کر مدنی یعنی نبوی معارف و تعلیمات اور نجف یعنی علوی تعلیمات کو ترک کيے بيٹھے ہيں۔
خیره نه کر سکا مجھے جلوه دانش فرنگ
سرمه ہے میری آنکھ کا خاک مدینه و نجف

اسی طرح ایک اور جگہ مغربی آئیڈیالوجی کو غیر دینی و غیرالہی آئیڈیالوجی ہونے کی وجہ سے نظام وحدت سے عاری قرار دیا،
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے

علامہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ جدت  کے بہانے سے مغرب کی تقلید کر رہے ہیں۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ 
 
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آذری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار  راہ حجاز ہو جا

 
ڈاکٹر محمود احمدی نژاد:
ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد صاحب سے جب انٹرویو کے دوران پوچھا گیا۔ کیا صدارت کے بعد سیاسی فعالیت جاری رکھیں گے؟ تو کہا سیاسی فعالیت سے کیا مراد ہے؟ کہا گیا سیاسی کام یعنی تنظیم بنانا اور آئندہ انتخابات کی تیاری کرنا۔ تو جواب میں جناب احمدی نژاد  نے کہا، میں تنظیم بنانے والا نہیں ہوں۔ تنظیم کے پینل سے الٰہی اہداف حاصل نہیں ہوتے اور پھر امت جیسا عظیم وجود تنظیم کے اندر نہیں سما سکتا۔ البتہ میں سرے سے تنظیم بنانے کا بھی مخالف نہیں ہوں۔
خبر کا کوڈ : 377727
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ایران میں اگر ایک تنظیم اور پارٹی (پاکستان میں موجود سیاسی یا دینی تنظیموں کی طرح) بنالی جائے اور تو ظاہر ہے کہ ایک مدت مدید کے بعد ممکن رھبر کے خلاف کھڑی ہوجائے تو پتہ ہے اس سے کیا نقصان ہوگا؟ لیکن پاکستان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہاں سب کچھ تنظیم اور پارٹی کی بنا پر ہوتا ہے، ایسے شیعہ حضرات اپنے حقوق کا دفاع کیسے کرسکتے ہیں؟ میرے خیال میں حالات کی نزاکت کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اگر فرض کریں تنظیم بنانا ناجائز ہے تو اس میں ضرور کوئی استثناء ہوگا۔ بہرحال مومن کیس اور ہوشیار ہوتا ہے، ہمیں ایسی بحثین ڈال کر مزید مومنین کی پریشانیوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہیئے۔ خدا عسکری صاحب کو حق سمجھائے۔
سلام
مقالہ نگار خود یا اپنے استاد سے پوچھ کر حوالوں کو اصل زبان یعنی فارسی یا عربی میں نقل کریں تو بہتر ہے کیونکہ جنکی اردو صحیح نہیں ہے، انہوں نے ترجمہ بھی اپنی مرضی کا کیا ہوگا۔حزب، سیاسی پارٹی، ادارے اور گروہ سب کو اپنی مرضی کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایران میں تو سنا گیا ہے کہ امام خمینی اور رھبر معظم کے بیانات کو ہر نتھو خیرے کر ترجمہ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
تنظیم یا حزب یا پارٹی ایک وسیلہ اور اصلی ہدف تک پہنچنے کی ایک روش ہے۔ یہ کوئی آئیڈیالوجی نہیں جس کے جواز کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے۔ ہر وسیلے یا روش کی مطلوبیت اور قدر اس ہدف کے تابع ہوتی ہے جس تک وہ پہنچانے کی قابلیت رکھتی ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ تنظیموں سے سوء استفادہ کیا جاتا ہے اور انہیں بت بنا دیا جاتا ہے تو کیا اسلامی تاریخ میں آج تک شخصیات کو بت نہیں بنایا گیا؟ کیا عالم اسلام میں آج جو عظیم مسائل اور انحرافات موجود ہیں ان کی وجہ صدر اسلام میں بعض بظاہر بڑی اور اہم شخصیات کو بت بنا کر حتی پیغمبر اکرم ص سے بھی زیادہ بلند مرتبہ عطا کرنا نہیں ہے؟ اسلام کو اتنا تنظیموں نے نقصان نہیں پہنچایا جتنا شخصیت پرستی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اگر کوئی تنظیم ولی امر مسلمین جہان، جس کا موجودہ مصداق صرف اور صرف آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کی شخصیت میں منحصر ہے کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے حقیقی اجتماعی اور دینی وظائف پر کاربند ہے تو وہ بے شک ایسے سینکڑوں نام نہاد مجتہدین اور عالم نما شخصیات سے بہتر ہے جن کا کام کسی نہ کسی بہانے سے صرف اور صرف لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا ہے۔ چاہے یہ توجہ نت نئے فتوے صادر کرنے سے ہو یا نت نئے اختلافی مسائل کو معاشرے میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے ہو۔
Pakistan
بھائی صاحب۔۔۔۔
اب جب کہ آپ نے آغا جواد نقوی کا نام لے ہی لیا ہے تو ذرا متوجہ ہوکر یہ عرضی پڑھیں، ہم خود آغا جواد نقوی کی علمی شخصیت کے معترف ہیں اور آغا کی نیت پر ذرا برابر شک نہیں۔۔۔۔۔ ۔ ۔ لیکن ان کے عملی کردار کے حامی نہیں ہوسکتے جو کہ لگ بھگ تمام علماء حقہ کہ جن کی انہوں نے اپنے ہر درس میں تصاویر آویزاں کی ہوتی ہیں، آغا جواد نقوی ان علماء سے زبردست عملی تضاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر رہبر معظم اور شہید محترم عارف حسین الحسینی کہ کوئی کیسا ہی شیعہ ہوتا آپ اتحاد کے لیے خود چل کر اس کے پاس جاتے، خیر اس مصیبت کی اک وجہ یہ بھی ہے کہ زمانہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں ایسی شخصیات گزری ہیں، جن کا علمی قد کاٹھ تو بہت تھا لیکن ان کی عقل بعض موضوعات پر ایسی اٹکی کے پھر تاحیات اٹکی ہی رہی۔۔ جس کا افسوس کے ساتھ ہم آج اپنے زمانہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ زیادہ نہیں تو نائب امام زمانہ حضرت آیت اللہ امام خامہ ای کے خطبات کو غور سے سنیں۔۔۔ کیونکہ آغا جان جواد نقوی سے اور آپ جیسوں سےدانستہ یا نادانستہ طور پر شیعت کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اسلام ٹائمز اردو پر محترم سید میثم ہمدانی کا کالم ،،،تنظیم، امام و امت از نگاہ امامِ امت،،،، ضرور پڑھیں۔۔۔
شکریہ

احقر العباد وسیم
جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون نام کی یہ پارٹیاں پھر کس کی تھیں بھائی؟؟ مودودی صاحب اور حسن البناء کوئی گمنام لوگ نہیں ہیں، مریخ پہ نہیں رہتے تھے۔ صدر احمدی نژاد، سعید جلیلی، باقر قالیباف سمیت بہت سے افراد ایک نئی سیاسی صف بندی کا حصہ ہیں، جسے اصول گرا کہا جاتا ہے۔ اس کے اصول بھی امام خامنہ ای نے بیان فرمائے تھے۔ اسی گروہ کی سرپرستی خود آیت اللہ تقی مصباح یزدی نے فرمائی۔ جوادی آملی صاحب کی باتیں کسی اور پیرائے میں ہیں، ورنہ ایرانی الیکشن میں بھی سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں۔ علامہ اقبال خود آل انڈیا مسلم لیگ میں تھے۔ آیت اللہ العظمٰی محسن الحکیم کے فرزند آیت اللہ باقر الحکیم کو شاید یہ معلوم نہیں تھا؟؟؟ جو راز دیگر کو معلوم ہے! ان کی جماعت آج بھی عراق کی سیاست میں سرگرم ہے۔ آیت اللہ سیستانی سمیت سارے مراجعین آج بھی عراقی سیاست میں انہی جماعتوں کی رہنمائی کے ذریعے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بات فقط اتنی سی ہے کہ حزب یا جماعت بنانا ناگزیر ہے اور یہی بزرگان کی سیرت رہی ہے۔ بولنے سے پہلے تول لیا جاتا تو اب یہ باتیں نہ کی جاتیں۔ امام خمینی نے جس بہشتی کو امت کہا تھا، اس کی مثال ہم دے چکے کہ وہ حزب جمہوری اسلامی کے رہنما تھے۔ رہ گئی بات امت واحدہ کی تو ایسی کوئی مثال طول تاریخ میں نہیں کہ پوری امت ایک ہوگئی ہو، اختلاف رائے ہر دور میں نظر آتا ہے۔ خواہ آپ باقاعدہ سیاسی جماعتیں بنائیں یا نہ بنائیں،،۔ شہید مظفر کرمانی نے پہلے لشکر امام زمانہ نامی انجمن بنائی پھر علمی کاموں کے لئے بقیۃ اللہ اسلامک انسٹیٹیوٹ بنایا۔ وہ تحریک میں بھی رہے۔ ہم نے آپ کے سید بزرگوار کو انہی کے صدقے میں سنا۔ یا اس سے پہلے آئی ایس او کے توسط سے سنا۔ میں پھر عرض کر دوں کہ علمی موضوعات پر آپ کے سید بزرگوار سے کوئی بحث ہی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو امور مرجعیت اور ولایت فقیہ کی قلمرو میں آتے ہیں، ان پر متنازعہ اور مرجعیت و ولایت فقیہ سے متصادم بیانات سے آپ کی اپنی حیثیت متنازعہ ہوجائے گی اور ہم ایک اچھے عالم دین اور فلسفی سے محروم ہوجائیں گے۔ میں نے آسان عملی مثالوں اور شخصیات کے نام لے کر یہی عرض کرنے کی کوشش کی ہے کہ مان لیجیے یہ آپ کا موضوع نہیں ہے۔ اصطلاحات اور الفاظ کے فرق سے پہلے یہ بھی دیکھ لیں کہ بہت سے الفاظ غلط العام ہوجاتے ہیں۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ پاکستان میں جو جماعتیں خود کو سیکولر کہتی ہیں وہ بھی سیکولر نہیں ہیں۔ یہ پاکستانی سیکولر رہنما اللہ، رسول {ص} پر ایمان رکھتے ہیں، نماز روزہ حج زکات سب ادا کرتے ہیں، یہ مغرب کی طرح کے سیکولر نہیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
۔۔۔ التماس دعا عرفان علی
مغالطات کی بہتات::::::::
مجلس آئين و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب در مزہ شیرین اثر خواب آور
آج ہم فرنگی توہمات کا شکار ہو کر مدنی یعنی نبوی معارف و تعلیمات اور نجف یعنی علوی تعلیمات کو ترک کيے بيٹھے ہيں۔
خیره نه کر سکا مجھے جلوه دانش فرنگ
سرمه ہے میری آنکھ کا خاک مدینه و نجف
اسی طرح ایک اور جگہ مغربی آئیڈیالوجی کو غیر دینی و غیرالہی آئیڈیالوجی ہونے کی وجہ سے نظام وحدت سے عاری قرار دیا،
تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب
کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے
علامہ فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ جدت کے بہانے سے مغرب کی تقلید کر رہے ہیں۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ آوازہ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ

یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آذری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
یہاں تنظیم کی کیا بات ہے
تنظیم کوئی علمی بحث نہیں بلکہ عملی میدان اور پلیٹ فارم کا نام ہے۔ سید جواد نقوی صاحب جب کسی تنظیم میں رہے نہیں تو انہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کریں۔ البتہ یہ بات ہے کہ انسان جس بات کو نہیں جانتا اس کے مخالف ہوجاتا ہے۔
شهيد باقر الصدر (رہ):
شهيد باقر الصدر نے جب "حزب الدعوۃ" تشکیل دی تو اس کے پانچ سال گزرنے کے بعد تنظیمی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوگئے، چونکہ مرجعِ وقت مرحوم آیۃ اللہ محسن الحکیم ؒ نے ان کو فرمایا کہ آپ کی علمی و اجتماعی شخصیت کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ آپ کسی حزب کا حصہ بن جائیں۔ (قواعد کلی استنباط۔ باب مشی سیاسی شہید باقر الصدر۔) انہی دنوں میں سیدالشہید ؒ کا مشہور فتویٰ صادر ہوا کہ جس میں انہوں نے حوزہ علمیہ کے تمام علماء و طلاب کے لیے کسی تنظیم میں فعالیت کو ممنوع قرار دیا۔ اس کے بعد شہید نے حزب الدعوۃ کی فقط راہنمائی کی اور اس نظر تک پہنچے کہ احزاب کو علماء و فقہاء کا دست و بازو ہونا چاہیئے نہ کہ علماء خود حزبوں کا حصہ بن جائیں۔ لہذا اسلامی تحریکوں کی رہبریت علماء و مراجع کے ہاتھ میں سزاوار ہے نہ کہ تنظیموں اور پارٹیوں کی عضویت۔ (الخطوط العامۃ للمرجعیۃ الصالحۃ، حسین علی عبادی، ص 55۔)
احسنتم جزاكم الله خيرا
ہماری پیشکش