0
Tuesday 22 Jul 2014 10:19

علامہ اقبال، قائد اعظم اور فلسطین (1)

علامہ اقبال، قائد اعظم اور فلسطین (1)
تحریر: ثاقب اکبر

ان دنوں جب کہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی ریاست اپنے مغربی آقاؤں کی سرپرستی میں آگ اور خون کی بارش جاری رکھے ہوئے ہے اور وحشت و درندگی اپنے عروج پر ہے، اہل پاکستان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس اسلامی ریاست کے بانیوں کا فلسطین اور صہیونی ریاست کے بارے میں کیا نظریہ رہا ہے، تاکہ حکومت کے ذمے دار بھی اس آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ سکیں اور پاکستانی بھی اپنے راہنماؤں کے جرأت مندانہ اور دوٹوک موقف سے آگاہ ہوسکیں۔ ان کے موقف سے آگاہی ہمارے جذبہ ایمانی ہی کو مہمیز کرنے کا ذریعہ نہیں بنے گی بلکہ ہمیں اس مسئلے میں اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں بھی مدد دے گی۔ ہم نے اس سلسلے میں خاص طور پر حکیم الامت علامہ اقبال جنھیں بجا طور پر مصور پاکستان کہا جاتا ہے اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کا انتخاب کیا ہے۔

1937ء میں برطانیہ کی نیشنل لیگ کی مس فارقوہارسن نے علامہ اقبال سے گذارش کی کہ وہ رائل کمیشن کی چونکا دینے والی سفارشات پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ علامہ اقبال نے 20 جولائی 1937ء کو ان کے جواب میں لکھا:
’’ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطین برطانیہ کا حصہ نہیں ہے۔ برطانیہ کے ہاتھ میں یہ اس وقت لیگ آف نیشنز کے ایما پر ہے، جسے مسلم ایشیا اس وقت ایک اینگلو فرینچ (برطانوی و فرانسیسی) ادارہ سمجھنے لگا ہے، جسے کمزور مسلمانوں کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ نہ ہی فلسطین یہودیوں کا ہے، جنھوں نے اسے عربوں کے قبضے سے بہت پہلے اپنی آزاد مرضی سے ترک کر دیا تھا اور نہ ہی صہیونیت ایک مذہبی تحریک ہے۔ بلاشبہ ایک غیر متعصب قاری کو اس کمیشن کی سفارشات سے جو تاثر ملا ہے وہ یہ ہے کہ صہیونیت کو جان بوجھ کر ایک ایسی تحریک کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے، جس کا مقصد یہودیوں کو ایک قومی وطن مہیا کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بحیرہ روم کے ساحل پر برطانوی سامراج کو ایک اڈہ مہیا کرنا ہے۔‘‘

’’مجموعی طور پر یہ رپورٹ کمیشن نے سامراجی مقاصد کو چھپانے کے لیے بنائی ہے، جس میں مستقل مینڈیٹ کی شکل میں مقدس مقامات کو دباؤ کے تحت برطانیہ کو فروخت کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد عربوں کے لیے کچھ رقم مہیا کرنے کے علاوہ ان سے ’’سخاوت‘‘ کی درخواست کرنا ہے، تاکہ یہودیوں کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا مہیا ہوسکے۔ میں برطانوی سیاستدانوں سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصل پالیسی جو عربوں سے دشمنی پر مبنی ہے، کو ترک کر دیں اور ان کا ملک ان کو واپس کر دیں۔‘‘
جس رائل کمیشن کا اوپر ذکر آیا ہے اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ یہ کمیشن برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کو آباد کرنے کا منصوبہ بنانے کے لیے قائم کیا تھا۔ اس رائل کمیشن نے جولائی 1937ء میں لارڈ پیل کی سربراہی میں فلسطین کی تقسیم اور مزید یہودیوں کو وہاں پر آباد کرنے کی منظوری دی تھی۔

علامہ اقبال کے مکتوب کی وضاحت کے لیے یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ تاریخی طور پر فلسطین پر بنی اسرائیل کی حکومت بارھویں صدی قبل مسیح سے لے کر سات سو اکیس قبل مسیح تک قائم رہی۔ اس کے بعد کبھی بھی فلسطین پر یہودیوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی، بلکہ یہودی صدیوں پہلے اس سرزمین کو چھوڑ کر دنیا کے مختلف خطوں میں آباد ہوگئے تھے۔ مسلمانوں نے 638ء میں اس سرزمین پر قدم رکھا۔ اس وقت یہ علاقہ یہودیوں کے قبضے میں نہ تھا بلکہ مسلمانوں نے یہ علاقہ عیسائیوں سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد 1917ء تک مسلسل اس سرزمین پر مسلمان عربوں کا قبضہ رہا، سوائے 1099ء تا 1187ء۔ یہ کل 88 برس بنتے ہیں، جب فاطمیوں کی حکومت کی کمزوری کے بعد صلیبیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا تھا، جن سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے واپس لے کر پھر سے اسے اسلامی سرزمین کا حصہ بنا لیا۔ اس وقت سے پھر یہ سرزمین مسلسل عرب مسلمانوں کے قبضے میں رہی۔ 1917ء کے بعد سے برطانیہ، فرانس اور پھر امریکہ کی ملی بھگت سے پوری دنیا سے یہودیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر انھیں فلسطین میں لا کر آباد کیا گیا اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے محروم کر دیا گیا۔ ان سازشوں کے نتیجے میں بالآخر 1947ء کے اواخر اور 1948ء کے اوائل میں اسرائیل کے نام کی صہیونی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی۔

اس ریاست کے قیام میں برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادیوں کی قائم کردہ لیگ آف نیشنز نے بہت اہم کردار ادا کیا، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے سطور بالا میں کہا ہے کہ
’’برطانیہ کے ہاتھ میں یہ اس وقت لیگ آف نیشنز کے ایما پر ہے، جسے مسلم ایشیا اس وقت ایک اینگلو فرینچ ادارہ سمجھنے لگا ہے، جسے کمزور مسلمانوں کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔‘‘
لیگ آف نیشنز جو اپنے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے پھر سے تشکیل دی گئی، کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:
برفتد تا روشِ رزم درین بزم کہن
 دردمندانِ جہان طرحِ نو انداختہ اند
 من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
 بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند

 اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس انجمن کہن اور پرانی دنیا میں دنیا کے درد مندوں نے جنگ کی ایک نئی طرح کا آغاز کیا ہے اور میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے قبور کی آپس میں تقسیم کے لئے ایک انجمن بنالی ہے۔

مندرجہ بالا خط کے بعد بھی علامہ اقبال کو فلسطین کے بارے میں عالمی سازشوں پر اضطراب نے چین نہ لینے دیا۔ انھوں نے 27 جولائی 1937ء کو ایک بیان جاری کیا، جس میں انھوں نے کہا:
’’میں لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں عربوں کے ساتھ کی گئی ناانصافی اسی شدت کے ساتھ محسوس کر رہا ہوں، جس طرح کوئی اور جو اس علاقے کی صورت حال کا بہتر ادراک رکھنے والا محسوس کرتا ہو۔‘‘

’’اگر اس مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خالصتاً مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں فلسطین تیرہ سو سال پہلے جب خلیفہ حضرت عمرؓ بیت المقدس میں داخل ہوئے، اس سے بہت پہلے ایک یہودی مسئلہ کے طور پر ختم ہوگیا تھا۔ یہودیوں کا وہاں سے نکل جانا جیسے کہ پروفیسر ہاکنگز نے کہا ہے کامل رضاکارانہ طور پر تھا اور ان کی مقدس کتابیں زیادہ تر فلسطین سے باہر لکھی گئی تھیں۔ اسی طرح یہ کبھی عیسائیوں کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔ جدید تاریخی تحقیق پیٹر (دی ہرمٹ) کی موجودگی کو بھی وہاں شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ صلیبی جنگیں فلسطین کو ایک عیسائی مسئلہ بنانے کی کوشش تھیں تو پھر یہ کوشش بھی صلاح الدین کی فتوحات سے دم توڑ گئی۔ اس لیے میں فلسطین کو خالصتاً ایک مسلم مسئلہ سمجھتا ہوں۔‘‘

’’مشرق قریب میں مسلمانوں کے حوالے سے برطانوی سامراج کے مقاصد اس حد تک کبھی بے نقاب نہیں ہوئے، جتنے رائل کمیشن کی صورت میں ہوئے ہیں۔ یہ خیال کہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک قومی وطن مہیا کیا جائے صرف ایک چال ہے۔ اصل میں برطانوی سامراج مسلمانوں کے مذہبی گھر میں ایک مستقل مینڈیٹ کی شکل میں اپنے لیے ایک ٹھکانے کے لیے کوشاں تھا۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک تجربہ ہے۔ مقدس سرزمین کی فروخت جس میں مسجد عمرؓ بھی شامل ہے اور عربوں کو مارشل لاء کی دھمکی کے ساتھ ہی ان کو رام کرنے کے لیے ان سے سخاوت کی اپیل کو کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس سے برطانوی سیاست کا دیوالیہ پن ہی ظاہر ہوتا ہے۔ یہودیوں کو قیمتی زمین کا ایک حصہ اور عربوں کو پتھریلا ریگستان اور نقدی پیش کرنا کوئی سیاسی شعور نہیں ہے بلکہ گھٹیا لین دین ہے۔‘‘

’’میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں اس مختصر بیان میں فلسطین کی صورت حال پر تفصیل سے بات کروں۔ اس کے باوجود حالیہ تاریخ میں اہم اسباق پوشیدہ ہیں، جن کو ایشیا کے مسلمانوں کو دل پر لینا چاہیے۔ تجربے سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ مشرق وسطی کے عوام کی سیاسی سالمیت ترکوں اور عربوں کے فوری طور پر ملاپ اور اتحاد میں مضمر ہے۔ مسلم دنیا کے باقی حصوں کو ترکوں سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ اکثر اوقات ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ترک اسلام سے الگ ہو رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے، صرف وہ لوگ جن کو اسلامی فقہ کے تصورات کی تاریخ کا کوئی اندازہ نہیں ہے، اس شیطانی پروپیگنڈے کا آسان شکار بنتے ہیں۔‘‘

اقبال نے مس فارقو ہارسن کو 6 ستمبر1937ء کو دوبارہ لکھا:
’’میں کم و بیش مصر، شام اور عراق کے ساتھ رابطے میں رہا ہوں۔ میں نے نجف سے بھی خطوط موصول کئے۔ آپ نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف کربلا اور نجف کے شیعوں کے ایک قوی احتجاج کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ ایران کے وزیراعظم اور جمہوریہ ترکی کے صدر نے بھی اس کے خلاف نہ صرف بات کی بلکہ احتجاج بھی کیا۔‘‘
اس خط کے ذریعے سے علامہ اقبال یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ فلسطین کے مسئلے پر پورے عالم اسلام کا ایک ہی موقف ہے۔

7ا کتوبر 1937ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے لکھا :
’’فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں میں بہت زیادہ ہیجان پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔۔۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لیگ اس سوال پر ایک مضبوط قرارداد پاس کرے گی اور اس کے علاوہ لیگی راہنماؤں کی ایک باہمی کانفرنس کا انعقاد بھی کرے گی، جس میں کسی قسم کی ایک مثبت کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا، ایسی کارروائی جس میں عوام بڑی تعداد میں شامل ہوسکیں گے۔ اس فیصلے سے لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور فلسطین کے عربوں کی مدد بھی ہوسکے گی۔ ذاتی طور پر مجھے ایسے مسئلے کے لیے جیل جانے میں کوئی اعتراض نہیں، جس سے اسلام اور ہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دہانے پر ایک مغربی اڈے کی تشکیل دونوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘‘
قارئین پر یہ بات واضح ہوگی کہ مشرق کے دہانے پر مغرب کا اڈہ علامہ اقبال نے اسرائیل کو قرار دیا ہے۔ نیز جب آپ یہ خط لکھ رہے تھے، اس وقت ابھی پاکستان بننے میں تقریباً دس برس کا فاصلہ تھا۔

 یہ امر قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال 21 اپریل 1938ء کو وفات پا گئے۔ 1937ء میں جب رائل کمیشن کے ذریعے سے عالمی سامراج فلسطین کے سینے پر اسرائیل کے نام کا ایک خنجر گھونپنے کی سازشوں کو آگے بڑھا رہا تھا، علامہ اقبال بہت بیمار تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا دل فلسطین کی صورت حال پر کرب و اضطراب میں مبتلا تھا اور وہ فلسطین کی حمایت میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے، یہاں تک کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے جیل جانے کے لیے بھی اپنی آمادگی کا اظہار کر رہے تھے۔ جس کا اندازہ مندرجہ بالا تحریروں سے ہوتا ہے۔
 ۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 400846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش