0
Thursday 18 Sep 2014 18:27

داعش کیخلاف کاروائی کے بہانے (2)

داعش کیخلاف کاروائی کے بہانے (2)
تحریر: عمران خان

اس دوران بھی خلیجی ممالک کی تنظیم کے اجلاس ہوئے، جس میں امریکہ اور مغربی ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ شام میں سرگرم دہشتگردوں کو اعلانیہ اسلحہ سپلائی کرے اور شام کی سرکاری حکومت کے بجائے دہشتگردوں کے رہنماؤں سے معاملات طے کئے جائیں۔ سعودی عرب جو اب تک عراق میں موجود داعش کے ذریعے شام میں مداخلت کر رہا تھا اس نے شام میں موجود داعش کے ذیلی گروہوں سے براہ راست تعلقات بڑھانے شروع کئے۔ جس سے داعش اور اس کے ذیلی گروہوں میں پھوٹ پڑگئی۔ یہ داعش ہی تھی کہ جس کی عیاشیوں کی خاطر سعودی عرب میں جہادالنکاح، جہادالمجاہدین جیسے فتوے جاری کئے گئے۔ امریکہ کی جانب سے شام کی سرکاری افواج پر فضائی حملے نہ کرنے، داعش کے ذیلی گروہوں سے عربوں کے براہ راست روابط داعش اور عربوں کے درمیان اختلافات کا سبب بنے جبکہ بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں جنگی اور افرادی قوت کے غرور نے داعش کو اس احساس میں مبتلا کر دیا کہ حقیقی قوت وہی ہیں اور وہ چاہیں تو عسکری لحاظ سے کمزور اسلامی ممالک پر قابض ہو سکتے ہیں۔ جس کے بعد ان کا رخ شام میں پیشقدمی کی بجائے زیر قبضہ علاقوں میں وسائل کی لوٹ مار، اور عراق کی جانب ہوا۔ عراق اور شام میں تیل کے پیداواری علاقوں میں ان کی دلچسپی بڑھی، تیل میں دلچسپی رکھنے والی کوئی بھی قوت زیادہ عرصے تک عرب ممالک کو فراموش نہیں کر سکتی، یہی وجہ ہے کہ داعش کے قدم جہاں بغداد کی جانب بڑھے وہاں ریاض بھی اس خطرے کو اپنے دروازے پر محسوس کر رہا ہے جبکہ داعش کیجانب سے خلافت کے اعلان پر سعودی عرب کو سب سے زیادہ تشویش لاحق ہوئی۔ جس کے بعد امریکہ اور عرب ممالک نے ملکر اپنے پرانے اہداف حاصل کرنے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دی۔ یعنی جو مقصد داعش کو نواز کر حاصل نہیں کیا جاسکا وہی مقصد داعش کیخلاف کاروائی کرنے کے بہانے حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

امریکہ سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے، نہ ہی اس کو عراق، سعودی عرب، شام اور دیگر اسلامی ممالک کے امن کی فکر اتنا گھائل کئے ہوئے ہے کہ جان کیری یکے بعد دیگر ے مسلم ممالک کی یاترا میں مصروف ہیں اور نہ خطے سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا مقصود ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کا پجاری ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر اوبامہ کی خاتون سیاسی مشیر لیز مونیکو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ داعش عالمی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے بلکہ یہ گروہ عرب ممالک کے لیے بھی سکیورٹی رسک ہے، امریکی انتظامیہ شام کی لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے عراق اور شام کے سنی قبائل اور شامی اپوزیشن کو عرب ممالک کی نگرانی تربیت فراہم کرنے کا خواہاں ہے۔ اوبامہ کی مشیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عراق میں کارروائی کی طرز پر شام میں بھی داعش کو شکست دینے کے لیے ہم فوجی اور انسانی امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ عرب ممالک کو داعش کے خطرے کا بہ خوبی اندازہ ہے کیونکہ یہ گروپ اب عالمی سلامتی اور عرب ممالک کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں لیز مونیکو کا کہنا تھا کہ شامی باغیوں کو جنگی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی کی تجویز موسم گرما میں سامنے آئی تھی۔ صدر براک اوباما نے کانگریس سے شامی اپوزیشن کی نمائندہ فوج کے لیے عسکری معاونت کی درخواست کی تھی۔ شامی باغیوں کو امریکی وزارت دفاع کی نگرانی میں جنگی تربیت کی فراہمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس پر شامی اپوزیشن قوتوں کو بھی اتفاق ہے، لیکن یہ کام ہم خطے میں موجود اپنے اتحادیوں بالخصوص سعودی عرب کے مشورے کے بعد ہی کریں گے۔ سعودی عرب نے اپنی سرزمین پر شامی باغیوں کو جنگی تربیت فراہم کرنے کی اجازت دینے کا اشارہ دیا ہے۔ اب تک ہم نے میدان جنگ میں شامی اپوزیشن کو مشاورت کی سہولت فراہم کی ہے۔ میرے خیال میں شام میں تین کام زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اول داعش سے خالی ہونے والے علاقوں پر جیش الحر کا کنٹرول، داعش کے خلاف شام کے اندر سے بھرپور کارروائی اور مخصوص یونٹوں کے قیام سے شام میں جاری دہشت گردی کا مقابلہ کرنا جیسے امور شامل ہیں۔  

امریکی صدر کی مشیر کے انٹرویو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ داعش کے خلاف تشکیل پانے والے ممکنہ اتحاد کے حقیقی اغراض و مقاصد کیا ہیں۔ دوسری جانب ایران نے شامی حکومت کی اجازت کے بغیر شام میں داعش کے خلاف حملوں کے اعلان کی سخت مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ امریکا داعش کے خلاف آپریشن کی آڑ میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی شمخانی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا انسداد دہشت گردی کی آڑ میں ایک آزاد ملک کی خودمختاری میں مداخلت کر رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا کئی دوسرے ممالک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان میں حملے کر چکا ہے اور اب شام میں بھی اس نے اس غیر قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ ایرانی مجلس شوری کے چیئرمین علی لاریجانی نے بھی شام میں امریکی مداخلت پر سخت انتباہ کیا ہے۔ داعش کے خلاف نام نہاد جنگ کی آڑ میں شام میں مداخلت خطے میں آگ بھڑکانے کے مترادف ہے۔ امریکا آگ سے کھیلنا بند کرے۔ امریکی فوج کا اصل ہدف داعش نہیں بلکہ شامی حکومت ہے، جسے کمزور کرنے کے لیے جنگ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ علی لاریجانی کا کہنا تھا کہ امریکا کو یہ اندازہ ہونا چاہیئے کہ وہ جس ملک پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، پہلے ہی ایک سنگین بحران سے گذر رہا ہے۔ ایسے میں شام پر حملہ کرنا جلتی پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہے۔ شام پر حملہ کیا گیا تو حالات امریکا کے قابو سے باہر ہو جائیں گے اور بعد کے نتائج کی ذمہ داری امریکا پر عائد ہوگی۔

امریکہ اور عربوں کا ماضی، داعش سمیت دیگر دہشتگرد گروہوں کی حمایت اور پشت پناہی سے عبارت ہے۔ جس کو سامنے رکھتے ہوئے ایران کے اصولی موقف سے اختلاف کی گنجائش کم ہے۔ امریکہ، مغرب اور عربوں کے لیے زماں و مکان کے حساب سے دہشتگردی کی تعریف بدل جاتی ہے۔ وہی حماس جو غزہ کے باسیوں کے لیے امید کی کرن ہے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی نظر میں دہشت گرد ہے۔ وہی حزب اللہ جس نے خطے میں اسرائیل کے بڑھتے قدموں کے آگے بند باندھا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں دہشتگرد ہے، جبکہ داعش کیخلاف کاروائی کیلئے اعلیٰ پیمانے پر کاروائی کیلئے اتحاد تشکیل دیا جارہا ہے مگر ساتھ ہی شام میں اس کے ذیلی گروہوں کو نوازنے کا بھی پروگرام ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے اعلان کردہ چالیس ملکوں کے اتحاد کو داعش اور دہشت گردی کا خاتمہ ہی مقصود ہے تو پھر بیرونی فوجی مداخلت کے بجائے امریکہ اور عربوں کو متاثرہ ممالک کی حکومتوں اور افواج کو وسائل فراہم کرنا ہونگے۔ عرب ممالک پہلے ہی دنیا میں امریکی آلہ کار گردانے جاتے ہیں، ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وہ اپنے دامن سے اس داغ کو مٹانے کی کوشش کریں اور کسی بھی نئے سامراجی ایجنڈے کا حصہ نہ بنیں۔ مالی لحاظ سے داعش کا زیادہ انحصار تیل اور نوادرات کی فروخت پر ہے۔ دونوں چیزوں کے زیادہ خریدار بھی امریکہ سمیت مغربی ممالک ہیں۔ کسی بھی طور اس سلسلے کو بند کرنا ہوگا۔ داعش کے اثرورسوخ میں مغربی ممالک کے باشندوں کا اہم کردار ہے۔ ان ممالک کو اپنی سرحدوں کے اندر داعش کے روابط کو ختم کرنا ہوگا۔ عرب ممالک اور امریکہ کو داعش سے نمٹنے کے لیے عراق اور شام کی سرکاری افواج کو مضبوط کرنے کیلئے یہاں کی حکومتوں کو مدد فراہم کرنا ہوگی۔ چالیس ملکوں کے اس ممکنہ اتحاد کو جدید ہتھیار، ڈرون و فضائی طیارے، انٹیلی جنس تعاون اور جنگی آلات دونوں ممالک یعنی شام و عراق کی افواج کو دینے چاہیئے، تاکہ وہ ان دہشتگردوں کا قلع قمع کر سکیں جن سے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، خلیجی ممالک سمیت دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ شام اور عراق کا شمار کرہ ارض کے تاریخی ممالک میں ہوتا ہے، لہذٰا کرہ ارض کا تاریخی ورثہ بچانے کے لیے وہاں کے عوام اور حکومت کو وسائل فراہم کرنے چاہیئے۔ سعودی عرب چونکہ دنیائے اسلام کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور وہاں سے ابوبکر البغدادی کی اس خلافت کے خلاف فتوے بھی جاری ہو چکے ہیں تو اسلام کے مرکز کو بچانے کی خاطر شام اور عراق کی حکومتوں کو او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھاری مالی اور اخلاقی مدد فراہم کی جائے تاکہ یہ دونوں حکومتیں اپنی سرحدوں میں سرگرم داعش نامی فتنے کا خاتمہ کرسکیں۔ اگر امریکی صدر کے لیے کانگریس سے ان اقدامات کی منظوری میں کوئی مشکل درپیش ہے تو امریکہ فقط سی آئی اے کو ہی داعش کی مدد و معاونت سے باز رکھ لے۔ امریکہ و سعودی عرب سمیت عرب ملکوں کے ذہنوں سے اگر دونوں ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور مرضی کی حکومتوں کی تشکیل کا خناس نکل جائے اور وہ شام و عراق سمیت دیگر اسلامی ملکوں میں موجود دہشتگردوں کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیں تو کوئی شک نہیں کہ ان ملکوں میں بھی دہشتگردی کی رات کے بعد امن کا سورج طلوع ہو۔ دونوں تاریخی ممالک کا امن پورے خطے کے امن کا ضامن ثابت ہوگا۔ آثار یہی ہیں کہ کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، اور اس ممکنہ جنگ کے شعلے سرحدی حدبندیوں کا لحاظ نہیں کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 409887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش