0
Thursday 17 May 2018 06:54

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی!

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com

دین اسلام کسی خاص علاقہ یا افراد سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ عام انسانیت کو نجات بخشنے کے لئے آیا ہے، جسے فطرت انسانی کے اصولوں پر بنایا گیا ہے تاکہ مسلمان کے ما سوا دنیا کا ہر ایک فرد ہمالیائی کامیابی کو پہنچ سکے۔ تعلیم و تعلم (سیکھنا اور سکھانا) ایک ایسا وسیلہ ہے جو انسان کو مسجود ملائکہ بنا دیتا ہے۔ اسلام نے حصول علم کی بہت تاکید کی ہے اور اسے رسول اکرم کی بعثت کے مقاصد میں سے قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد اقدس الٰہی ہوتا ہے، ’’و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ‘‘ اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے ۔(سورہ جمعہ ؍۲)۔  احادیث اور روایات سے علم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ رسول اسلام ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘۔ ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔ (1)۔

امام علی ارشاد فرماتے ہیں، ’’اطلبو العلم ولو بالصین‘‘۔ علم حاصل کرو اگرچہ چین جانا پڑے۔ (2)۔ آپ ہی  کا ارشاد گرامی ہے، ’’اطلبو العلم من المھد الی اللحد‘‘۔ آغوش مادر سے قبر کی منزل تک علم حاصل کرو۔ (3)۔ اس کے علاوہ تعلیم کے متعلق بہت ساری احادیث و روایات موجود ہیں۔ خود سر کار ختمی مرتبت کی زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے نزدیک علم سیکھنے اور سکھانے کو کس قدر اہمیت حاصل ہے کہ آپ نے محض مسلمانوں کی تعلیم کے لئے اپنی جان کے دشمنوں کو مدرس بنایا۔ 2ھ میں ایک جنگ ہوئی جسے غزوہ بدر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس میں اہل اسلام کو اہل کفر پر عظیم فتح حاصل ہوئی ۔...ان میں سے کچھ کو اسیر کر لیا گیا اور ان کی آزادی دس افراد کی تعلیم پر موقوف تھی، لہذٰا ہر ایک نے اپنے فریضہ کی ادائیگی پر ہی رہائی پائی۔ اسی طرح یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا رہا یہاں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانہ میں ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں آ گیا، جہاں مختلف موضوعات پر مختلف علاقہ اور مختلف مذاہب کے طالبعلم آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرتے، جن کی تعداد چار ہزار تھی۔ اہل سنت والجماعت کے چاروں آئمہ باواسطہ یا بلاواسطہ آ پ کے شاگرد ہیں۔ جن میں ’’ابوحنیفہ‘‘ بغیر کسی واسطہ کے آپ کے علمی مرکز میں آیا کرتے تھے اور اس شاگردی پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’لولا السنتان لھلک النعمان‘‘۔ اگر  (شاگردی) کے یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان (بن ثابت) ہلاک ہو جاتا۔ (4)

یہ علم و دانش کا اسلامی قافلہ روزانہ ترقی کی راہوں کو طے کرتا رہا اور مسلمان اپنے دور کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ شمار کیا جانے لگا لیکن دوام اوراستقلال نہ ہونے کے باعث بلندی سے انحطاط کی طرف پلٹنے لگا...۔یورپ جسے چھٹی صدی عیسوی سے لے دسویں عیسوی تک تاریک دور (Dark period) کہا جاتا تھا عین اسی زمانہ میں اسلام کا نور علم تمام تر فضا کو مکمل طور سے منور کئے ہوئے تھا اور اسی کے سبب یورپ میں تعلیمی انقلاب آیا، آج یہ عالم ہو گیا ہے کہ تعلیمی میدان میں نمایاں کامیاں حاصل کر لی ہے، اب ہر ایک کی زبان پر انگریزوں کے گن گائے جا رہے ہیں کہ فلاں انگریز نے کیا عمدہ کتاب لکھ دی! فلاں انگریز نے تو کمال ہی کر دیا ...! اگر ہم مذہب و مذہبیات کا پردہ ہٹا کر حقیقت کی عینک لگا کر نظر ڈالیں تو یہی حقیقت نظر آئے گی کہ جدید ٹکنالوجی میں مغربی دنیا ہم سے چار قدم آ گے ہو چکی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ شخصیتیں بھی انہیں کے دامن میں پھولی پھلی ہیں، جیسے مشہور امریکی سائنسداں البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein) جس نے ۱۹۵۰ء میں Special theory of relativity کا نظریہ پیش کیا۔ برطانیہ کا باشندہ تھامس ایڈیسن (Thomas Edison) نے ’’Law of Gravitation ‘‘کا نظریہ پیش کیا اور اسی طرح پولینڈ کا رہنے والا کوپر نیکس (Copernicus)نے۱۵۴۰ء میں Solar system کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ یہ تو صرف چند حضرات کے نام رقم کئے گئے ہیں ورنہ تایخ میں بہت سارے لوگوں کے نام درج ہیں جنہوں نے علم و سائنس میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر کے اپنے وطن کا نام روشن کیا ہے، جبکہ مسلمانوں کا ماضی تابندہ ہے اور علم و دانش میں ہر طرح کی ترقی کی تھی لیکن اب صورت حال ہے کہ اگر غیر مسلم ممالک سے مدد نہ لیں تو زندگی مفلوج ہو جائے ۔آخر کیوں !؟
کہیں ایسا تو نہیں !! !
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی


منابع:
1۔ (منیۃ المرید صفحہ ۹۹، ناشر، مکتب الاعلام الاسلامیہ قم ۱۴۰۹ھ اور سنن ابن ماجہ جلد ۱ صفحہ ۸۱ (مقدمہ میں) باب ۱۷ حدیث ۲۲۴)۔
2۔ (مصباح الشریعۃ، ترجمہ مصطفوی ۲۷۵، ناشر، انجمن اسلامی حکمت و فلسفہ ایران، چاپ تہران،ایران)۔
3۔ (شرح اصول کافی (صدرا)، جلد ۲، صفحہ ۸، ناشر۔ موسسۃ مطالعات و تحقیقات فرھنگی ۱۳۸۳شمسی، طبع، تہران، ایران)۔
4۔ (خلاصہ سیرہ پیشوایان در آئینہ تاریخ ، صفحہ ۱۰۱اور۱۰2، ناشر، موسسۃ انتشارات العلم، نوبت چاپ، ھجدہم ۱۳۹۴)۔
خبر کا کوڈ : 725244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش