0
Saturday 26 May 2018 14:26

ایک تصویر

ایک تصویر
تحریر: سید قمر رضوی

چند روز قبل نظروں سے گزری ایک تصویر نے قلم اٹھانے پر مجبور کر دیا، جس میں سابق صاحبِ تخت و تاج، مطلق العنان شہنشاہِ معظم جناب نواز شریف صاحب کو پسنے میں شرابور ایک منڈیر پر بیٹھے دیکھا۔ یوں تو تصویر کے پسِ منظر کے متعلق مختلف آراء سامنے آئیں۔ کسی نے کہا کہ یہ صبح کی چہل قدمی کے بعد سستانے کے لمحات ہیں۔ کسی نے کہا کہ یہ پرانی تصویر ہے۔ غرض یہ کہ جتنے منہ، اتنی باتیں۔ لیکن سب سے زیادہ زبان زدِ عام جو دعویٰ اس تصویر سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف صاحب احتساب عدالت کے باہر اپنی باری کے انتظار میں تشریف فرما ہیں۔ تمام لباس پسنے میں تر ہے کہ دفتر میں بجلی ندارد!۔ باقی لوگوں کو چھوڑیں، صرف اپنے آپ پر نظر کریں تو شاید ہم میں سے ہر فرد کی زندگی میں ایسے لمحات ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مرتبہ آئے ہوں گے کہ ہم سخت موسم کی شدت سے پسینے میں شرابور ہیں اور سستانے کے لئے کسی منڈیر پر بیٹھ گئے ہوں۔ چاہے وہ بس اسٹاپ ہو، ہسپتال ہو، بینک ہو، کوئی سرکاری/غیر سرکاری دفتر ہو، اسکول، کالج یا یونیورسٹی ہو یا پھر دفترِ عدالت ہی ہو۔۔۔۔۔۔ بلکہ بہت سارے افراد کی زندگیاں روزانہ کی بنیاد پر اسی صورتِ حال سے نبردآزم ہوتے ہوتے یا تو  گزر گئی ہیں یا گزر رہی ہیں اور اس حقیقت سے صرفِ نظر بھی ناممکن کہ اس ملک کی غالب آبادی کو بجلی جیسی ارزاں نعمت تو کجا، پینے کو پانی، پہننے کو لباس اور بیٹھنے کو منڈیر بھی میسر نہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر لمحے نئی تصاویر اور خبریں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آنیوالی تازہ تصاویر اور خبروں کے سیلاب میں بہہ چکی ہوتی ہیں، اس تصویر نے اپنے سحر میں جکڑ لیا اور ذہن کو ہزار سوالوں کی جنم بھومی بنا ڈالا۔ ذہن میں سب سے پہلا سوال یہ اٹھا کہ خدا نے جس شخص کو پینتیس سال کسی نہ کسی صورت میں صاحبِ تختِ اقتدار رکھا۔ ایک بڑے اور اہم ملک کی باگ ڈور اور کروڑوں افراد کا حال اور مستقبل اسکے ہاتھ میں تھما دیئے۔ جسکی آنکھوں کو اتنی طاقت عطا فرمائی کہ ایک جنبشِ ابرو سے یمین و یسار کو باہم یکجا کر گزرے۔۔۔۔ وہی شخص اسقدر مضبوط اختیارات رکھنے کے باوجود اپنے لئے ایسا مستقبل بنانا پسند کرے کہ اس قدر بے وقعت اور کمزور ہو جائے کہ بیٹھنے کو ایک کرسی اور جھلنے کو ایک پنکھا بھی میسر نہ ہو!!! اسے کہتے ہیں بدنصیبی کی انتہا۔

خدا نے میاں نواز شریف کو دولت، طاقت، حکومت اور اختیار دیا کہ وہ اس ملک کے عوام کا بھلا کرے۔ انہیں تعلیم، تہذیب، صحت، انصاف اور امن و امان جیسی بنیادی انسانی ضروریات بہم پہنچائے۔ ملک کی ترقی، وقار اور دفاع کے لئے حکمت ہائے عملی وضع کرے۔ سرکاری اور عدالتی طریقہ ہائے کار کو عوام کے لئے آسان اور قابلِ عمل بنائے۔ یہ چند چیدہ چیدہ کام کرنے کے لئے خدا نے وسائل بھی اسی مٹی میں مہیا کئے کہ ملک کے دامنِ وقار پر دست درازی جیسی لعنت کے چھینٹے نہ پڑنے پائیں۔۔۔ مگر انہوں نے اس ملک کی بجائے اپنی ذات، خاندان اور چاپلوس حلقہء احباب کو "پاکستان" گردانتے ہوئے انکی خدمت میں دن رات ایک کر دیا۔ عوام کی بجائے اپنے بچوں کے مستقبل سنوارنے کے چکر میں ایسا گھن چکر ہوئے کہ اس ملک کے عوام کو نہ تعلیم دے سکتے، نہ تہذیب سکھلا سکے۔ امن و امان اور انصاف تو دور کی بات۔ ملکی وقار، ترقی و دفاع اجنبی اصطلاحات بنا ڈالیں۔ ارے کچھ نہ کرتے۔۔۔ کم از کم اتنی بجلی بنا دیتے کہ آج عدالت میں آپکی پیشی کے وقت ایک پنکھا تو چل رہا ہوتا۔ سرکاری اور عدالتی طریقہ ہائے کار کو ہی کچھ اس حد تک سہل کر دیتے کہ آج آپکو چھوٹی چھوٹی باتیں بتانے کے لئے چھوٹی چھوٹی عدالتوں کے ذلت آمیز چکر نہ لگانے پڑتے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔۔۔ اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ کیوں؟ کیونکہ ہمارے حکمرانوں کی تاریخ ہی ایسی ہے۔

چند سال قبل ایک تصویر اور نظروں سے گزری تھی۔ اس نے بھی دیکھنے والوں کو ٹھہرا دیا تھا۔ تصویر تھی محترمہ بینظیر بھٹو کے جسدِ خاکی کی۔۔۔ جو راولپنڈی کے اس بدبودار سرکاری ہسپتال کے ایک تھڑے پر دھری تھی کہ جس کے پاس سے گزرنا بھی انکی توہین تھا۔ اس تصویر کو دیکھ کر بھی خوش آئیند لوگوں کے ذہنوں میں امید کی کرنوں نے جنم لیا تھا کہ ملک کی طاقتور ترین ہستی کے سفر کو خدانے ملک کے پست ترین مقام پر شاید اس لئے اختتام پذیر کیا کہ ملک کے آنیوالے حکمران کچھ اور نہ سہی۔۔۔ کم از کم امن و امان اور صحت جیسی بنیادی انسان ضروریات کی فراہمی کو رخصت ہونے والی ہستی کے ایصالِ ثواب کے لئے اپنی ترجیح قرار دیں گے۔ مگر تب بھی کچھ نہ ہوا۔ راولپنڈی کی وہ مری روڈ اور اس پر واقع وہ جنرل ہسپتال اگلے چند روز میں بینظیر شہید روڈ اور بینظیر شہید ہسپتال تو بن گئے، مگر اسکے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں کے تعفن اور پسماندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ نہ ہی بینظیر شہید  روڈ اور ملک کی دیگر سڑکوں پر تہذیب کا کوئی نمونہ دیکھنے کو ملا۔ اب میاں نواز شریف کو سزا ہو، جزا ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔۔۔۔ انکے نام پر عمارتوں اور شاہراہوں کے نام تو رکھے جاتے رہیں گے۔۔۔۔ لیکن ہمارے لئے کوئی خیر کی خبر؟؟؟؟ خدا ہی جانے۔۔۔۔ مگر ہم اپنی آنکھوں میں امید کے چراغ جلائے اچھے وقت کے منتظر ضرور رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 727423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش