0
Monday 2 Jul 2018 18:30

مسئلہ فلسطین اور صدی کی ڈیل

مسئلہ فلسطین اور صدی کی ڈیل
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

صدی کی ڈیل یا پھر انگریزی میں Deal of the Century کہہ لیجئے، یہ ایک ایسا معاہدہ یا ڈیل ہے جسے پیش کرنیوالا امریکی صدر ہے، جس نے یہ ڈیل گذشتہ برس کے اختتام پر متعارف کروائی تھی اور اس کے چند حصوں کو آشکار کیا اور چند کو مخفی رکھا۔ دنیائے سیاست کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے روز اول سے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متعارف کی جانے والی صدی کے ڈیل پر نظریں جما رکھی ہیں اور اس کا باریک بینی سے مطالعہ و مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ صدی کی ڈیل کیا ہے؟ جیسا کہ آج سے ایک سو سال پہلے برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ آرتھ بالفور نے 1917ء میں ایک اعلامیہ میں فلسطینیوں کی زمین کو تقسیم کرکے یہاں پر ایک غاصب اور ناجائز ریاست اسرائیل کے وجود کے قیام کا پیش خیمہ فراہم کیا تھا، لہذا اس عنوان سے آج مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو ایک سو سال سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں اور فلسطین پر غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے قیام کی بات کریں تو یوں آج ستر سال ہونے کو ہیں کہ سرزمین فلسطین صیہونی غاصبانہ تسلط میں ہے۔ اس عنوان سے امریکی صدر نے مسئلہ فلسطین کا ایک ایسا حل اور فارمولا پیش کیا ہے، جس کا مقصد پورے کا پورا فلسطین غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کی ملکیت میں چلا جائے اور اس ڈیل کو انہوں نے فلسطین و غاصب اسرائیل کے مابین انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدی کی ڈیل میں سب سے اہم بات اور مقصد فلسطین کے مسئلہ کا حل پیش کرنا ہے۔ اس ڈیل کے مطابق فلسطینیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ فلسطین کی موجودہ تقسیم کہ جس میں غاصب صیہونیوں کا 88 فیصد پر قبضہ اور ناجائز تسلط قائم ہے، یہ قائم رہے اور باقی ماندہ علاقوں کو بھی اسی کے ساتھ ضم کر لیا جائے اور اس کام کے لئے امریکی صدر نے گذشتہ برس فلسطین کے تاریخی دارالحکومت یروشلم کو غاصب صیہونی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا اور اپنا سفارتخانہ منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ صدی کی ڈیل کا آغاز تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ صدی کے ڈیل میں جو شرائط فلسطینیوں کے لئے رکھی گئی تھیں یا مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا کہا گیا تھا، اس کا پہلا قدم تھا۔ اسی طرح امریکی صدر کی جانب سے پیش کی جانے والی صدی کے ڈیل میں کہا گیا ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس سے دستبردار ہو جائیں، جس کے لئے اب امریکی سفارتخانہ بھی وہاں منتقل کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد امریکی صدر اس ڈیل میں چاہتے ہیں کہ فلسطینی اپنے حقوق کی ہرگز بھی بات نہ کریں، جیسا کہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی مظلوم قوم اپنے حقوق کی خاطر امریکی صدر کی اس صدی کی ڈیل کے مقابلہ میں پا برہنہ ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔

یہ فلسطینیوں کی استقامت و مزاحمت کا ہی نتیجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے متعدد منصوبے تاحال ناکام ہو رہے ہیں۔ اس ڈیل کے تحت امریکہ فلسطینیوں سے چاہتا ہے کہ وہ اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کے سامنے تسلیم خم ہو جائیں، قبلہ اول بیت المقدس کو فراموش کر دیں اور اسے صیہونیوں کے لئے چھوڑ دیا جائے، جبکہ ساتھ ہی ساتھ دنیا بھر میں موجود ساٹھ لاکھ فلسطینی اپنے حق واپسئ فلسطین کی بات بھی نہ کریں اور اس طرح سے امریکہ مکمل طور پر فلسطین کو اسرائیل کی غاصب اور جعلی ریاست کا حصہ بنا دے۔ گذشتہ دنوں امریکی صدر کے اعلٰی سطحی وفد نے بھی اس صدی کی ڈیل پر عمل درآمد کے لئے مشرق وسطیٰ کے چند ایک ممالک کا دورہ کیا ہے، جبکہ اس ڈیل کے بارے میں کھل کر وضاحت اس وقت سامنے آئی تھی، جب سعودی فرمانروا محمد بن سلمان نے اپنے امریکہ کے سفر کے دوران ایک صحافی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے امریکی صدر کی جانب سے فلسطینیوں کے لئے صدی کی ڈیل کے بارے میں کچھ اس طرح سے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو چاہئیے کہ امریکی صدر کی صدی کی ڈیل کو تسلیم کر لیں، ورنہ اپنا منہ بند رکھیں یعنی شٹ اپ۔

اب حالیہ دنوں امریکی صدر کے اعلیٰ سطحی وفد نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں پیش کردہ صدی کی ڈیل کے متعلق دورے میں سعودی عرب، اردن، مصر، قطر کا دورہ کیا ہے۔ امریکی اعلیٰ سطحی وفد کا مقصد مسئلہ فلسطین سے متعلق ان ممالک کہ جن کے نام پیش کئے گئے ہیں، کے سربراہان مملکت سے گفتگو کرنا تھا۔ اسی طرح امریکی صدر کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورے کے آخر میں مقبوضہ فلسطین جانا تھا، جہاں انہوں نے قطر، سعودی عرب، مصر اور اردن کے سربراہان مملکت سے ملاقات کے بعد اسرائیلی جعلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی ہے اور ایسی خبریں بھی ہیں کہ اردن میں کچھ مشترکہ ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔ تاہم اس سارے معاملے میں اصل فریق کہ جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کی تاریخ ایک سو سالہ طویل عرصہ طے کر چکی ہے، بات چیت نہیں کی گئی، یعنی امریکی حکومت یہ چاہتی ہے کہ خطے کی چند ایک عرب ریاستوں کو ساتھ ملا کر فلسطینیوں پر صدی کی ڈیل تھونپ دی جائے اور اس طرح امریکی صدر کے خیال کے مطابق مسئلہ فلسطین کا حل ہو جائے گا۔


امریکی صدر کی جانب سے پیش کی جانیوالی صدی کی ڈیل اور اس کے تحت انجام پانے والے تمام اقدامات کو پہلے ہی نہ صرف فلسطینی بلکہ عالمی برادری بھی مسترد کرچکی ہے اور ایسے حالات میں جب گذشتہ بارہ ہفتوں سے روزانہ مقبوضہ فلسطین میں نام نہاد بنائی گئی اسرائیلی باؤنڈریز پر فلسطینیوں کے پرامن احتجاجی مارچ بعنوان ’’حق واپسی ‘‘ انجام پا رہے ہیں تو دوسری جانب چند ماہ قبل ہی عالمی برادری نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثیر تعداد میں امریکی صدر کے ان فیصلوں کو مسترد کر دیا تھا، جن میں یروشلم کو صیہونی جعلی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا گیا تھا اور امریکی سفارتخانہ کی یروشلم منتقلی کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم امریکی حکومت کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے باوجود امریکی سفارتخانہ کو القدس شہر منتقل کر دیا گیا ہے۔ دراصل امریکی صدر صدی کی ڈیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی طرف گامزن ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ مکمل طور پر صیہونی لابی کے زیر تسلط آچکے ہیں، تمام فیصلوں میں انسانی حقوق اور فلسطینی عوام کو یکسر نظر انداز کرچکے ہیں، جس کے باعث امریکی سیاست مداروں کو بھی شدید تشویش لا حق ہو رہی ہے۔

تاریخ فلسطین کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطین کی مظلوم ملت کی پیٹھ میں ہمیشہ ہی عرب خائن حکمرانوں نے خنجر گھونپا ہے اور حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر خطے کی چند عرب بادشاہتیں اور ڈکٹیتر یہ چاہتے ہیں کہ فلسطین پر غاصب صیہونی اور جعلی ریاست اسرائیل کے وجود کو مکمل طور پر قانونی حیثیت دے ڈالیں، لیکن امریکہ و اسرائیل سمیت عرب دنیا کے ان خائن حکمرانوں کو فلسطین کی عظیم اور شجاع ملت کی مزاحمت کا سامنا ہے، جو اپنے سینوں پر گولیوں کو کھا کر یہ بتا رہے ہیں کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے صدی کی ڈیل اور اس ڈیل کی حمایت کرنے والوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہیں گے۔ واضح رہے کہ فلسطین کی غزہ پٹی میں کئی ہفتوں سے انجام پانے والے احتجاجی مظاہرے اور اب تک ہزاروں کی تعداد میں شہید اور زخمی ہونے والے فسلطینیوں کا ایک ہی موقف ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے حق واپسی کو نظرانداز نہیں کرسکتے اور القدس شہر فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے۔
خبر کا کوڈ : 735235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش