0
Wednesday 25 Jul 2012 23:30

خادم الحرمین کی چندہ مہم

خادم الحرمین کی چندہ مہم
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

گزشتہ دنوں شاہ عرب و عجم، خادم الحرمین نے مظلوم شامی پناہ گزینوں کے لیے چندہ مہم کا اعلان کیا۔ اس چندہ مہم کے تحت پوری سعودی مملکت میں ہزاروں مقامات پر امدادی کیمپس لگائے گئے، جس میں شہریوں نے جوق در جوق چندہ ڈالا۔ موصول ہونے والی آخری اطلاعات تک چند ہی گھنٹوں میں اس مہم کے باعث بیس کروڑ اکیس لاکھ ریال کی رقم جمع کی جاچکی ہے۔ اس چندہ مہم میں خادم الحرمین نے اپنے ذاتی سرمایہ میں سے بیس لاکھ ریال جبکہ تازہ ولی عہد نے دس لاکھ ریال عنایت کئے۔
 
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہ مہم آئندہ جمعہ دن تین بجے تک جاری ہے گی۔ اس چندہ مہم کو سرکاری ابلاغی اداروں پر بھرپور کوریج دی جا رہی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ملکی و غیرملکی شہری اس مہم میں رقم جمع کرا سکیں۔ یاد رہے کہ یہ چندہ مہم شاہ عرب و عجم کی شام کے لیے کی جانے والی ان کوششوں کے علاوہ ہے، جو وہ عرب لیگ اور دیگر مغربی اداروں میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے کر رہے ہیں۔

یقیناً شام کے پناہ گزینوں کا مسئلہ امت مسلمہ کا وہ اہم ترین اور واحد مسئلہ ہے، جس کی جانب عالمی ضمیر کی اب تک توجہ مبذول نہیں ہوسکی تھی۔ مسلح سلفی تحریک کے آغاز اور انھیں تربیت کے تمام تر مواقع فراہم کرنے کے بعد یہی چندہ مہم ہی ہے، جو ان کے پناہ گزینوں کے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ خادم الحرمین کی سخاوت اور قائدانہ صلاحیت کا بھی یہی تقاضا تھا کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں شام کے ان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے میدان عمل میں اتریں اور دنیا کو اس مسئلہ کی نوعیت اور اہمیت سے آگاہ کریں۔

تادم تحریر جمع ہونے والی رقم تو شاید خادم الحرمین اپنے ذاتی خزانے سے ہی دے دیتے، تاہم عوام کو اس مہم میں شامل کرنے کا مقصد شاید یہ ہو کہ وہ بھی اس ثواب سے محروم نہ رہیں اور شام کے مظلوم پناہ گزینوں کی مدد کرکے اپنے جذبہ ایمانی کا ثبوت فراہم کریں۔ خادم الحرمین کی اس فیاضی کو دیکھ کر مجھے بہت قلق ہوا کہ کاش برصغیر میں بھی ایک ایسا مسلمان راہنما جنم لیتا جو برما میں ہونے والے مسلم نسل کشی کے واقعات کو دیکھ سکتا۔ کاش کوئی ایسا ہوتا جسے گزشتہ دو دہائیوں سے برما اور بنگلہ دیش کے مابین رلنے والے بیس لاکھ مسلم پناہ گزینوں کے درد نظر آتے۔ 

کاش مسلمانوں کا کوئی ایسا راہنما ہوتا جس کا دل دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک ہی انداز سے دھڑکتا۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ برما کے وہ مسلما ن جو گزشتہ ایک ماہ سے بدھ آبادی اور برمی حکومت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، تک جب یہ خبر پہنچے گی کہ خادم الحرمین نے فلاح امت کے لیے ایک ایسا اقدام اٹھایا ہے جس میں ان کا کوئی حصہ نہیں تو ان پر کیا قیامت گزرے گی۔

کیا انھیں یہ احساس نہیں ستائے گا کہ مسلمان ہونے کے باوجود ہماری کالی چمڑی اور چپٹی ناک آج بھی ہماری واحد شناخت ہے۔ مسلم دنیا کا حصہ ہونے کے باوجود آج بھی ہماری حیثیت شامی پناہ گزینوں کے درجے کی نہیں۔ خوش قسمت ہیں شامی پناہ گزین جنھیں ترکی، عراق، لبنان اور اردن کی سرزمینوں پر خوش آمدید کہا گیا۔ وطن سے عارضی دوری تو اپنی جگہ، تاہم انھیں ان پناہ گزین کیمپوں میں وہ سب کچھ ملا جو انھیں شاید وطن میں بھی دستیاب نہ تھا۔
 
یہ پناہ گزین اگر چاہیں تو مسلح ہو کر باغیوں کا حصہ بن جائیں اور اگر چاہیں تو آرام سے اپنا وقت پناہ گزین کیمپوں میں گزاریں۔ اس کے برعکس برما کے روہنگا مسلمان اپنا غم خدا کے سوا کس کے سامنے بیان کریں۔ ملک ہے تو ایسا کہ جہاں شہریت نہیں ملتی اور پردیس ہے تو ایسا جو قبول کرنے سے انکاری ہے۔ بنگلہ دیش جاتے ہیں تو وہاں کی حکومت اور فوج واپس دھکیل دیتی ہے اور ملک میں واپس آتے ہیں تو برمی افواج کی عقوبت کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

عرب لیگ اور مسلمان شہزادوں کو تو ”فتح شام“ سے ہی فرصت نہیں کہ کسی اور مسلمان کے درد کو سنیں یا اس کے لیے کوئی آواز اٹھائیں۔ میں نے تو گزشتہ ایک ماہ میں کسی عرب حکمران کے منہ سے لفظ روہنگا نہیں سنا۔ روہنگا مسلمان تو ایک طرف شام میں بسنے والے لاکھوں فلسطینی پناہ گزین اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ وہ عرب حکمرانوں کی دوستیوں اور وابستگیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ گزشتہ نصف دہائی کے دوران کس کس مملکت نے ہمارے ساتھ کیا رویہ رکھا۔

نفاق کی بھی حد ہوتی ہے، بحرین اور یمن کے مسلمان حق خودارادیت اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آواز اٹھائیں تو ان پر خلیجی افواج کے ذریعے چڑھائی کر دو۔ غاصب حکومتوں کو تقویت دینے کے لیے پوری حکومتی مشینری کا زور لگا دو۔ حقوق کی اس تحریک کو ایرانی سازش قرار دے کر زبردستی دبا دو اور انہی حقوق کی بازیابی کا نعرہ جب شام میں لگے تو دنیا بھر کی قوتوں کو مجتمع کرکے اس آواز کو تقویت دینے کے لیے سرگرم عمل ہو جاﺅ۔ نہ صرف یہ کہ دنیا کے تمام فورمز پر اس مسئلہ کو اٹھاﺅ بلکہ باغی گروہ کی عملی مدد میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھو۔
 
میں ہر اہل دل مسلمان سے یہ سوال کرتا ہوں کہ، جو کردار عرب حکمران شامی حکومت کے خاتمے کے لیے ادا کر رہے ہیں، کیا یہی ان کے شایان شان تھا؟ کیا انھیں نہیں چاہیے تھا کہ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کا پاس رکھتے ہوئے ہر دو فریق کے مابین مصالحت کرواتے اور معاملات کو صلاح و مشورے سے حل کرتے۔ شامی حکومت میں ایک آمر کا وجود ان عرب حکمرانوں کو کیسے برداشت نہیں، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پورا جزیرہ عرب بادشاہتوں اور آمریتوں کے زیر تسلط ہے۔ بحرین اور یمن میں بھی تو آمریتیں تھیں، پھر وہاں کیوں ایک آمر کی حمایت کی گئی اور عوام کو کچلنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے گئے۔ کیا بشار الاسد کا یہی قصور ہے کہ وہ ان عرب شاہوں کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا، یا یہ کہ وہ اور اس کی حکومت اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار فلسطینی و لبنانی مجاہدین کی معاون ومددگار ہے۔ 

ان عرب حکمرانوں سے سمجھدار تو روس کا صدر ہے، جس نے حقائق کا ادراک کرتے ہوئے بشار الاسد کی حمایت کی اور کہا کہ اگر بشار کو غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے الگ کیا گیا تو شام ایک طویل خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ دین کے ان ٹھیکیداروں کو نظر کیوں نہیں آتا کہ شام میں بدامنی کی فضا فلسطین اور لبنان کے مجاہدین کے لیے نقصان دہ ہے اور اگر اس فضا سے کسی کو فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ اسرائیل کے سوا کوئی نہیں۔
خبر کا کوڈ : 182138
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش