0
Sunday 23 Mar 2014 21:32

کانگریس پارٹی کے ہاتھوں بھارتی مسلمانوں کا استعمال و استحصال

کانگریس پارٹی کے ہاتھوں بھارتی مسلمانوں کا استعمال و استحصال
تحریر: جاوید عباس رضوی

آئین اور دستور خود ایک بااختیار شے نہیں ہوتی ہے، اسے نافذ کرنے کیلئے باصلاحیت افراد، طاقت اور جماعت کی ضرورت ہوتی ہے، عوام جو حکمرانوں، سیاست دانوں کو منتخب کرتی ہے اور عوام کے یہ نمائندے جو منتخب ہوکر آتے ہیں اگر ان کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا کوئی درست نظام نہ ہو تو کیا ہم ان سے امید کرسکتے ہیں کہ وہ ملک کے سیکولر اقدار کی حفاظت کرسکیں گے، ظاہر سی بات ہے ایسے لوگ اقتدار میں آتے ہی سیکولرزم کو بھی عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں اور جمہوریت کو بھی، جیسا کہ آج کل سیکولرزم کے نام پر کھلے عام ہورہا ہے، سیاسی پارٹیاں بھارت کے آئینی اداروں کو یرغمال بناکر اپنے مقصد کیلئے استعمال کررہے ہیں، جہاں تک رائے شماری اور انتخابی ڈرامے کی بات ہے بیسویں اور اکیسویں صدی کے فوجی حکمرانوں نے بھی اب یہ ہنر سیکھ لیا ہے اور ماشاء اللہ 90 فیصد ووٹوں سے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اگر چاہیں گے تو 90 فیصد سے بھی زیادہ ووٹ بھی انہیں مل سکیں گے، بھارت میں کانگریس پارٹی بظاہر پچھلے پچاس سالوں سے اس عہد و پیمان پر کامیاب ہوتی رہی ہے کہ وہ شدت پسند اور فرقہ پرست نہیں ہے، مگر اس کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد پایا جاتا رہا ہے اور دیکھا جائے تو بابری مسجد کی شہادت سے لیکر بم دھماکوں میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری میں اس نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے جو کردار ادا کیا ہے وہ بھارتی مسلمانوں کے لئے قابل عبرت ہے۔

بھارت کے شدت پسند گروہ ’’آر ایس ایس‘‘ یا ’’بی جے پی‘‘ کا اپنا صاف اور واضح نظریہ اور نصب العین تو بالکل واضح رہا ہے اور یہاں کے مسلمان چاہیں تو اپنے اس کھلے دشمن سے صلح اور شرائط کی بنیاد پر اپنے حق میں ماحول کو سازگار بناسکتے ہیں، مگر جو دوستی، ہمدردی اور سیکولرزم کا لباس اوڑھ کر مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر پیوست کررہے ہیں ان کا مقابلہ عقل و دانائی (جو اب ایک خواب بن کر رہ گئی) کے سوا دنیا کے کسی بھی ہتھیار سے نہیں کیا جاسکتا، وہ لوگ جو مسولینی اور ہٹلر کی نازی تحریک کو فاشزم معنی اور مفہوم میں شمار کرتے ہیں انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ انہوں نے بھی ملک کے جمہوری عمل اور رائے شماری میں حصہ لیکر ملکی آئین کے تئیں حلف وفاداری لیا تھا، مگر جیسا کہ ہوتا آیا ہے کہ بااقتدار قوموں اور تحریکوں نے اکثر اپنے اثر و رسوخ سے عدلیہ، پولس فوج اور خفیہ ایجنسیوں تک میں زیادہ سے زیادہ اپنی ذہنیت کے لوگوں کو شامل کرواکر پورے سیاسی نظام کو اپنی منشا اور مرضی کے مطابق چلنے پر مجبور کیا ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے کانگریس کیلئے جن وعدوں اور جمہوری نظریات کی بنیاد پر اقتدار کی راہ ہموار کی، کیا اس پارٹی نے کبھی اس کا حق ادا کیا، اس کے برعکس اس نے اپنی حکمرانی کے دور میں ایسا کیا نہیں کیا جو فاشزم کی تشریح میں نہیں آتا، یا اس نے ان 50 سالوں میں مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے اس کی حیثیت کو بے وقعت بنانے سے لیکر فسادات میں تباہ و برباد کرنے تک، وہ تمام حربے نہیں استعمال کئے جو ملک میں ’’آر ایس ایس‘‘ کے لیڈران کا منصوبہ رہا ہے، ممبئی کے تاج ہوٹل میں 26 نومبر کو دہشت گردانہ کارروائی میں ’’ہیمنت کرکرے‘‘ کی موت کے بعد اپنے دسمبر کے شمارے میں ’’آﺅٹ لک میگزین‘‘ نے صفحہ اول پر یہ عنوان لگایا تھا کہ ”سونیا گاندھی کا پاکستانی کارڈ“ مطلب بالکل صاف ہے کہ کانگریس کی سازش کو صرف ’’کرکرے‘‘ اور ’’کیجریوال‘‘ ہی نے نہیں سمجھا بلکہ ہمارا میڈیا بھی بخوبی واقف ہے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے اور کون کروا رہا ہے، عشرت جہاں کا انکاﺅنٹر گجرات پولس کے ذریعے گجرات کی سرزمین پر ضرور ہوا مگر اسے دہشت گرد ثابت کرنے میں ’’آئی بی‘‘ نے جو کردار ادا کیا یہ تنظیم کن لوگوں کے ماتحت کام کررہی ہے۔

کیا بھارت کی پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی ذہنیت کو صاف و شفاف بنانے کیلئے ملک کی کانگریسی حکومت نے کبھی کوئی قدم اٹھایا؟ کیا بھارت کی کانگریسی حکومت اور اس کی خفیہ تنظیموں کو نہیں پتہ کہ راجیو گاندھی کے قتل میں شامل ’’آر ایس ایس‘‘ نے بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، ہندو مکتی واہنی اور بہت ساری ابھینو بھارت جیسی تنظیموں کو صرف مندروں میں کارسیوا اور کیرتن کرنے کیلئے پیدا نہیں کیا ہے، یہ لوگ کھلے عام تلوار اور ترشول بانٹنے کیلئے بھی آزاد ہیں، آخر ان کے اوپر پابندی کیوں نہیں لگائی جاتی؟ وہ کس کی حکومت ہے جو سیمی پر پابندی میں مسلسل توسیع کرتی جارہی ہے اور پابندی کیلئے ایسے الزامات اور جواز پیش کررہی ہے جس کا حقیقت سے دور دور تک بھی واسطہ نہیں ہے، اس بار 6 فروری کو پابندی میں توسیع کرتے ہوئے سیمی پر جو 21 الزامات لگائے گئے ہیں ان میں 1 یہ بھی ہے کہ ’’آزاد میدان‘‘ میں پھوٹ پڑنے والے فساد کے بعد گرفتار 10 نوجوانوں میں سے ایک اقبال عرف بابا غلام رسول شیخ کا تعلق سیمی سے تھا، کیا پولس کو نہیں پتہ کہ اس احتجاج کا نظم مسلمانوں میں سے کس فرقہ کے لوگوں نے کیا تھا، مگر اس کا الزام ایک ایسی تنظیم پر عاید کیا جارہا ہے جو خود پابند سلاسل ہے یا جس کا میدان میں وجود ہی نہیں ہے، ویسے بھارتی پولس جبراً اعتراف جرم کرانے میں ماہر تو ہے ہی! سچ تو یہ ہے کہ بھارتی حکومت، وزارت داخلہ اور خفیہ ایجنسیاں سبھی کو پتہ ہے کہ حقیقت کیا ہے مگر جو فساد ہندو شدت پسند تنظیموں کی طرف سے کروایا جارہا ہے اور بے قصوروں کا قتل ہورہا ہے آخر حکومت کو یہ بتانا بھی تو ضروری ہے کہ اس نے مجرموں کے خلاف کارروائی کی ہے اور انصاف ابھی زندہ ہے، اس لئے بھارت میں مسلمانوں سے بہتر آسان شکار کون ہوسکتا ہے، جسے آزادی کے بعد سے ہی ’’پاکستان‘‘ اور ’’آئی ایس آئی‘‘ کے ساتھ جوڑا جاتا رہا ہے اور کانگریس کے شہزادے راہل گاندھی نے ’’مظفرنگر یوپی فساد‘‘ کے تعلق سے ایک بار پھر مسلمانوں کو ’’آئی ایس آئی‘‘ سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بھارت کے آئین میں آزادی اظہار رائے کو احترام کا درجہ حاصل ہے اور بے شک ایسا ہے بھی مگر آزاد کون ہے؟ سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، پروین توگڑیا اور اشول سنگھل! آخر کانگریس کے مسلمانوں کے ساتھ اس دوہرے پن کو آپ کیا کہیے گا۔ کیا مہاراشٹر کی کانگریس حکومت شیو سینا اور بی جے پی لیڈران کی آواز کو بھی اسی طرح دبانے کی جرات کرسکتی ہے جس طرح یہ پارٹی مسلمانوں کے ساتھ بار بار کرتی آئی ہے۔ ایک تصویر میں راجیو گاندھی کے قاتلوں کے رشتہ دار سپریم کورٹ کے فیصلہ پر خوشیاں منارہے ہیں اور راجیو گاندھی کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں اور دوسری تصویر میں افضل گورو کی بیوہ کا افسردہ چہرہ ہے، جس کے شوہر کو ’’بقول کانگریس پارٹی‘‘ صرف اس لئے پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا کیوں کہ عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے یہ ضروری تھا، لہٰذا ایک دن انہیں پھانسی کے تختہ پر لاکر عوام کے ضمیر کو مطمئن کردیا گیا، یہ کہنے کی قطعاً ضرورت نہیں کہ یہ عوامی ضمیر کی تخلیق سیکولر حکومت اس کی خفیہ ایجنسیوں اور میڈیا کے ناپاک گٹھ جوڑ سے ہوئی تھی، مگر جمہوری حکومت کے سیکولر غنڈوں نے اس کے معصوم بچے اور بیوی کو آخری دیدار سے محروم کرکے تمام انسانی ضمیر کو بھی شرمسار کردیا۔
خبر کا کوڈ : 365000
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش