2
0
Friday 26 Sep 2014 21:25

خاموشی کوئی حل نہیں

خاموشی کوئی حل نہیں
تحریر: سید اسد عباس تقوی

پاکستانی سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں کچھ لکھنا مجھے ابتداء سے ہی اچھا نہیں لگتا، یہی وجہ ہے کہ ان موضوعات پر میں نے سب سے کم مضامین لکھے ہیں۔ میری نظر میں ہمارے ملک کا سیاسی نظام کیچڑ کی ایک ایسی نالی ہے جس میں ہاتھ مارنے سے اپنے ہاتھ گندے کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میں ان حضرات کے حوصلے کو بھی داد دیئے بنا نہیں رہ سکتا جو مجھ جیسے کم حوصلہ نہیں ہیں اور اکثر و بیشتر ان موضوعات پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اپنے حصے کا دیا جلاتے رہنا چاہیئے۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیئے، ہمیں کبھی بھی کسی بھی قسم کے حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور بہتری کی امید بہرحال قائم رہنی چاہیئے، تاہم میرے ذہن میں کسی بھی معاملے سے امید رکھنے کا ایک خاص معیار ہے۔ اگر کوئی حل اس معیار کے مطابق نہ ہو تو پھر وہ معاملہ مجھے سلجھتا ہوا نظر نہیں آسکتا۔ آپ حالیہ دھرنوں کو ہی لے لیجئے۔ بیالیس دن گذرنے کو ہیں، تاہم حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ ابتداء میں تو مذاکرات جنہیں ’’مذاق رات‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے، کا سلسلہ شروع کیا گیا اور پھر یہ’’مذاق رات‘‘ بھی ختم ہوگئے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت عملی طور پر کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ نہ تو وہ استعفٰی دے سکتی ہے اور نہ ہی ان مظاہرین کو کسی بات پر منا سکتی ہے۔ پس اس نے وہی کیا جو اس طرح کے مواقع پر کچھ خاص مزاج کے لوگ کرتے ہیں۔ خاموشی، خاموشی اور صرف خاموشی۔ خاموشی اگرچہ بہت سے مسائل کا حل ہے لیکن اس کے استعمال کا بھی موقع اور محل ہوتا ہے۔ جب خاموشی کی ضرورت تھی اس وقت توپوں کے دہانے الزامات کا ایندھن اگلتے رہے اور اب جب جگ ہنسائی ہوچکی ہے تویہ خاموشی مسائل کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ ہی کرسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عمران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا موقف لوگوں کے سامنے کھل کر آرہا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے پہل ان دونوں سیاستدانوں کے بارے میں تشویش کا شکار تھے، اب کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ لوگ کہتے تو صحیح ہیں۔ پہلے پہل تو لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سیاستدان بھی کسی بیرونی یا اندرونی ایجنڈے کے تحت تحریک چلا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خیال دم توڑ گیا۔ پھر لوگوں نے خیال کیا کہ چلو ہمارے لئے ہی سہی، یہ سیاستدان یقیناً دوسرے سیاستدانوں کی مانند عوام کو اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، تاہم ان دونوں افراد کی دھرنے میں موجودگی اور استقلال نے اس مخمصے کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی۔ اب تو عوام کے پاس ان شخصیات کے دعووں پر یقین کے سوا کوئی اور صورت بچی ہی نہیں۔

ایک بات تو یقینی ہے کہ جیسے جیسے وقت گذرے گا اور حکومت عوام کے مسائل کو حل کرنے میں مسلسل ناکام ہوتی رہے گی، اس ریلے میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ریلا بڑھے یا گھٹے، اگر خاموشی کا یہی عالم رہا تو سوال یہ ہے کہ معاملات کس طرف جائیں گے؟ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آئین میں حکومت کی تبدیلی کا طریقہ کار درج ہے اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کی تبدیلی غیر آئینی ہے۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انتخابات میں شرکت کرنے والی تیسری بڑی جماعت اس حکومت کے قیام کو ہی غیر آئینی قرار دے رہی ہے اور یہ حکومت جس عمل سے اقتدار میں آئی ہے، اس پر ہی اعتراضات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ یقین جانیئے یہ وقت ہے جب خاموشی انتہائی نقصان دہ ہے۔ عملی طور پر اس وقت ملک کا آئینی نظام ایک ایسے فالج کا شکار ہے جو تقریباً لاعلاج ہے۔ عدالتیں، الیکشن کمیشن اور دیگر آئینی ادارے کوئی بھی حل دینے کی کیفیت میں نہیں ہیں۔ خاموشی کے اس عالم میں صورت ایک ہی بچتی ہے کہ سرجن آئے اور بڑا آپریشن کرے۔ آخر کب تک اس مریض کو اسی حالت میں رکھا جاسکتا ہے۔

دھرنا دینے والوں کے بنیادی مطالبات غلط نہیں ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ یقیناً ایک بہت بڑی غلطی تھی، اگر ہمارے ادارے اس قابل ہوتے کہ معاملے کی شفاف تحقیقات کرکے مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوا سکتے تو معاملات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ اسی طرح انتخابات میں دھاندلی کا رونا تقریباً سبھی نے رویا، اب جب ایک جماعت اس دھاندلی کی شفاف تحقیقات کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے لیے ایک طریقہ کار کی بات کرتی ہے تو گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔ یہ وقت انا پرستی کا قطعاً نہیں۔ آپ یقیناً پارلیمنٹ میں اکثریت رکھتے ہیں اور یہ آپ ہی کہ ذمہ داری ہے کہ دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی جماعت کو جیسے بھی ممکن ہو مطمئن کریں۔ ضروری نہیں کہ وقت گذرنے کے ساتھ یہ مطالبہ ٹھنڈا پڑ جائے، بلکہ عین ممکن ہے کہ وقت کی یہ چال کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو، جو ملک میں عوامی نظام کے لیے خوش کن نہ ہو۔ اس وقت یقیناً آنے والی قوت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکے گا، کیونکہ وطن کی سالمیت بہرحال ان کی ذمہ داری ہے۔

تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ جب بھی سیاستمداروں سے معاملات نہ سنبھلے تو تیسری قوت کو مجبوراً کنڑول ہاتھ میں لینا پڑا۔ آج ایک مرتبہ پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ میاں صاحب اگر آپ، آج بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی شفاف تحقیقات کی کوئی قابل عمل صورت نکال لیتے، اسی طرح ماڈل ٹاؤن کے واقعے کی عادلانہ و منصفانہ تحقیقات ہو جاتیں تو شاید معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا۔ آئینی طور پر اس معاملے کو حل کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری بہرحال آپ ہی کی ہے۔ اگر خدانخواستہ معاملات تیسری قوت کی جانب جاتے ہیں تو یقیناً اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری بھی آپ کے کاندھوں پر ہی آئے گی۔ خداوند کریم ہمارے سیاستدانوں کو ملک اور عوام کے لئے سوچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 411792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
سلام
پہلے پہل مجھے ایسے لگا جیسے یہ تحریر کوئی پرانی تحریر ہے، کم از کم 20 دن پرانی، لیکن جب اوپر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ نہیں یہ تو آج شائع ہوئی ہے، اس کے بعد اسد بھائی جیسے انتہائی سنجیدہ اور معاملات فہم انسان سے منسوب اس تحریر کو پڑھ کر اس سے بھی زیادہ متحیر ہوا کہ بھائی آپ کا یہ نوشتہ نوشتہ معکوس ہے۔ مطلب آپ کے تجزیے کے بالکل برعکس۔ فتامل!!!!
برادر عزیز میں نے اپنے گذشتہ ایک ماہ کے سبھی مضامین کا ایک مرتبہ پھر مطالعہ کیا ہے تاکہ جان سکوں کہ میرا یہ نوشتہ، نوشتہ معکوس کیسے ہے۔۔۔۔میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ آپ کو یہ تجزیہ ۔۔۔تجزیہ معکوس کیوں لگا۔۔۔براہ کرم وضاحت فرما دیں
ہماری پیشکش