0
Saturday 4 Oct 2014 21:06

داعش، کبھی ستائش اور کبھی آزمائش

داعش، کبھی ستائش اور کبھی آزمائش
تحریر: ثاقب اکبر

وہی داعش جو کبھی شام میں امریکا اور اس کے مقامی و غیر مقامی حواریوں کی منظور نظر تھی، آج اس کے خلاف وہی تمام ممالک اور قوتیں اکٹھی ہوگئی ہیں، جو کبھی داعش اور اس کی ہمجولیوں کی سرپرستی کے لئے اکٹھی تھیں۔ القاعدہ کے نام پر گذشتہ برسوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے وہی القاعدہ کے نئے پرنٹ داعش کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ القاعدہ کی کوئی کارروائی کبھی مسلمانوں اور عالم اسلام کے مفاد میں تمام نہیں ہوئی۔ اس کے ہر قدم اور اقدام نے عالمی استعماری طاقتوں کو مسلمانوں کے خلاف ایک نئے اقدام کے لئے جواز فراہم کیا ہے۔ یہی صورت حال اب داعش کی بھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شام میں داعش کے خلاف اکٹھے ہونے والے ممالک کیا پہلے شامی حکومت کے خلاف نبرد آزما گروہوں کی حمایت میں اکٹھے نہ تھے؟ سعودی عرب، قطر، اردن، بحرین، عمان، کویت، مصر، متحدہ عرب امارات اور ترکی وغیرہ پہلے بھی کھلم کھلا شام میں مصروفِ پیکار دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ عرب لیگ بھی قبل ازیں شام کے خلاف فوجی اقدام کی حمایت کرچکی ہے۔ شام میں نبرد آزما گروہوں کو اسلحہ، پیسہ، تربیت اور دیگر سہولیات انہی ممالک نے فراہم کی ہیں جو آج شام کے اندر بظاہر داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ امریکا کے مغربی اتحادیوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ 

یہ بات قابل ذکر ہے کہ داعش 2005ء میں معرض وجود میں آئی۔ اس کے اراکین کو مختلف عرب اور یورپی ممالک میں تربیت دی گئی۔ گلوبل سکیورٹی ویب سائٹ نے یہ بات بہت پہلے شائع کر دی تھی کہ فرانس کے شمال میں واقع Aisne علاقے میں جیفری کورٹ کیمپ میں داعش کے اراکین کو تربیت دی گئی ہے۔ یہ کیمپ 2007ء میں اسی مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ 2007ء سے 2009ء کے درمیان اس کیمپ میں ایسے افراد کو تربیت دی گئی جو شام میں داعش کے ساتھ تعاون کرنے میں شریک رہے ہیں۔ فرانس میں تربیت حاصل کرنے والے داعش ارکان میں سے ابو احمد علوانی کا نام بھی لیا جاتا ہے جو داعش کے کمانڈروں میں سے ہے۔
 
کچھ عرصہ پہلے سعودی عرب نے داعش سے تعاون سے ہاتھ کھینچا اور سعودی باشندوں کو اس سے الگ ہونے کا حکم جاری کیا۔ کہا جاتا ہے کہ داعش کے بعض شدت پسند نہ صرف سعودی عرب کی منشاء کے مطابق عمل کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ وہ خود سعودی عرب کی حکومت کو بھی ہدف تنقید بناتے تھے۔ ممکن ہے یہ بات فقط بعض حلقوں کو مطمئن کرنے کے لئے کہی گئی ہو یا آئندہ کی منصوبہ سازی کے لئے راہ ہموار کرنے کے لیے، وگرنہ داعش کے پاس پہنچنے والا اسلحہ وہی ہے جو لیبیا میں امریکی سفارتخانے سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں کو مہیا کیا گیا تھا۔ معروف ویب سائٹ (Info Wars) اپنی رپورٹس میں دعویٰ کرچکی ہے کہ داعش کی پیدائش میں امریکا نے انتہائی واضح اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس رپورٹ میں امریکی جنرل تھامس میک اینرنی کی جانب سے فاکس نیوز اور امریکی سینیٹر رنڈ پاول کی جانب سے سی این این کو دیئے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان انٹرویوز میں بعض ایسے حقائق بیان کئے گئے تھے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ داعش کی پیدائش اور طاقت پکڑنے میں امریکا نے انتہائی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
 
ماضی میں بھی امریکی حکمت عملیوں پر نظر رکھی جائے تو داعش کے بارے میں امریکا کا موجودہ طرز عمل سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ حقیقت منظر عام پر آچکی ہے کہ کویت پر صدام حسین کو چڑھائی کی شہ دینے میں امریکا نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صدام حسین آخر وقت تک یہ سمجھتے رہے کہ امریکا ان کی حکومت کے خلاف ظاہری جمع تفریق کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کرے گا، لیکن امریکا یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ عراق کی فوجی طاقت کو لگام دینا ضروری ہے۔ وہ بہت عرصہ پہلے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے بارے میں اپنا نظریہ پینٹا گون کے ایک رسالے میں شائع کرچکا تھا۔ اسے ایسے بہانوں کی ضرورت تھی جنھیں بنیاد بنا کر وہ عراق پر فوجی یلغار کرسکے۔ پہلی فوجی یلغار کو ناکافی سمجھتے ہوئے بعد ازاں نائن الیون کے بعد ایک ایسا بہانہ تراشا گیا جو بعد میں اگرچہ رسوا ہوگیا لیکن اتنے میں امریکا عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا تھا۔ یہ بہانہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی عراق میں موجودگی کا تھا۔ 

اسی طرح ایک عرصے سے امریکا کی یہ خواہش چلی آرہی ہے کہ وہ شام میں ایک ایسی حکومت قائم کرسکے جو اسرائیل کے ارد گرد کی دیگر عرب ریاستوں کی طرح اسرائیل کے سامنے سر جھکا دے اور اسرائیل کو نہ فقط تسلیم کر لے بلکہ اس کی تقویت کا بھی ذریعہ بنے۔ اس کی مثال مصر اور اردن کی ہے۔ مصر میں فوج کے ذریعے اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک روز اخوان المسلمین کی حکومت اپنے پیروکاروں کی منشاء کے مطابق اسرائیل کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے۔ شام میں امریکا کو جمہوریت سے غرض ہوتی تو وہ سعودی عرب کی حمایت سے شام میں حکومت مخالف تشدد پسند گروہوں کی سرپرستی کیوں کرتا۔ علاقے کی بادشاہتوں کے ساتھ اس کے محبت بھرے تعلقات کیوں ہوتے۔ شام کی اس کی نظر میں ایک ہی خطا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسرائیل کے سامنے سر جھکانے پر آمادہ نہیں۔ 

امریکا ایک عرصے سے بہانے تلاش کر رہا تھا کہ وہ شام کے اندر نو فلائی زون (No Fly Zone) قائم کرسکے، جیسا کہ اس نے لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت کے خاتمے کے لئے قائم کیا تھا۔ امریکا کی خواہش یہ تھی کہ شام کی فضائی طاقت پر ضرب کاری لگا سکے، تاکہ شامی حکومت امریکی سرپرستی میں نبرد آزما شدت پسندوں کے خلاف اپنی فضائی طاقت استعمال نہ کرسکے۔ امریکا یہ بھی چاہتا تھا کہ وہ شام کے پیٹروکیمیکلز کے مراکز کو تباہ کرسکے۔ نیز وہ شام کے مواصلاتی نظام کو پوری طرح مفلوج کرسکے، تاکہ بعدازاں وہ شام کی موجودہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر آمادہ کر لے یا پھر شام میں اپنی مرضی کی کوئی اور حکومت برسراقتدار لے آئے۔ امریکا نے شام میں تبدیلی کے لئے جن نئے طریقوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا تھا، آج شام پر فضائی حملے کرتے ہوئے وہ یہ سب طریقے آزما رہا ہے۔ پیٹروکیمیکلز کے کارخانے تباہ کئے جا رہے ہیں۔ داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں شام کے فضائی اڈے تباہ کئے جا چکے ہیں اور شام کے ذرائع مواصلات کو مفلوج کرنے کے لئے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ معروف میگزین گلوبل ریسرچ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا داعش کے بہانے شام کا انفراسٹرکچر تباہ کر رہا ہے۔ گلوبل ریسرچ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ شام میں انجام پانے والی فوجی کارروائی لیبیا میں نیٹو کی کارروائی سے بہت ملتی جلتی ہے اور اسے ’’لیبیا 2‘‘ آپریشن قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

دوسری طرف امریکی صدر باراک اوباما نے بھی کہا ہے کہ شام میں ’’نو فلائی زون‘‘ قائم کرنے کا بھی قوی امکان موجود ہے۔ اسی طرح امریکی وزیر دفاع چک ہیگل اور امریکا کے چیف آف جوائنٹ آرمی سٹاف جنرل مارٹن ڈمپیسی نے بھی ملتے جلتے بیانات دیتے ہوئے کہا کہ امریکا شام میں ’’نو فلائی زون‘‘ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو نیٹو کی وہ دیرینہ آرزو پوری ہوجائے گی جو اس نے شام میں جاری بحران کے آغاز سے ہی کر رکھی ہے۔ اخبار نیویارک ٹائمز نے کچھ ہی دن پہلے امریکی وزیر دفاع کے بقول لکھا تھا ’’ہم نے تمام ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیا ہے اور ترک حکام کی جانب سے ضروری قرار دیئے گئے اقدامات کے بارے میں گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ اسی طرح جنرل ڈمپیسی نے کہا تھا ’’نو فلائی زون کا قیام اور ایک حفاظتی دیوار کی تعمیر جیسے اقدامات بھی ہماری نظر میں ہیں۔‘‘ 

جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو اس نے بھی امریکا کی قیادت میں شام پر فضائی حملوں میں شریک اتحاد میں شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ ترکی اس اتحاد میں کیوں شریک ہوا ہے۔ اس سوال کی ایک وجہ پاکستان کے ترکی کے ساتھ دیرینہ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ بعض سادہ دل لوگ یہ توقع نہیں کرتے کہ ترکی جیسا ملک کسی مسلمان ملک کے خلاف امریکا کی حمایت کرتے ہوئے کوئی اقدام کرے گا۔ سادہ دل ہم نے اس لئے کہا ہے کہ ہمارے ہاں بعض حلقوں میں اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ ترکی امریکی قیادت میں قائم فوجی اتحاد ناٹو کا رکن ہے۔ ترک فوجی امریکی اتحاد کا حصہ بن کر افغانستان میں بھی شریک عمل رہے ہیں۔ اسی طرح لیبیا کے خلاف ناٹو کی کارروائیوں میں بھی ترک حصہ دار تھے۔

ترکی کے اندر ناٹو کے اڈے قائم ہیں اور یہ اڈے خطے میں اس اتحاد کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ترکی کے آج بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی، فوجی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ ترکی اور اسرائیل کے مابین مشترکہ فوجی مشقوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ آج بھی ترک صدر اردوان کے صاحبزادے کے تجارتی اداروں کے اسرائیل کے تجارتی اداروں سے بہت قریبی روابط قائم ہیں، جنھیں ترکی کے اندر بھی بعض حلقے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ جب تک ترکی امریکی قیادت میں قائم فوجی اتحاد میں شریک ہے اور اسرائیل کے ساتھ اس کے اس طرح کے قریبی تعلقات قائم ہیں، ہم ترکی سے مذکورہ بالا اقدامات جیسے کسی بھی اقدام کی توقع کرسکتے ہیں۔ 

سعودی عرب کے بارے میں اب یہ بات کم ہی سوال انگیز رہی ہے کہ وہ کسی منصوبے میں امریکا کا اتحادی کیوں بنا ہے۔ اس لئے کہ سعودی بادشاہت کے قیام سے لے کر آج تک سعودی عرب ہمیشہ برطانوی اور امریکی سامراج کی پالیسیوں پر عملدرآمد کرتا رہا ہے۔ شام میں پہلے بھی جنگ آزما گروہوں کے ساتھ سعودی تعاون امریکی تائید اور حمایت کے ساتھ تھا اور آج داعش کے خلاف فضائی حملوں کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس میں بھی وہ امریکی حمایت میں پیش پیش ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ امریکی مفادات کے حصول کے لئے جانیں بھی مسلمانوں کی جا رہی ہیں اور مال بھی مسلمانوں کاخرچ ہو رہا ہے، چنانچہ داعش مخالف اتحاد کے 60 فیصد اخراجات کی ذمہ داری سعودی حکومت قبول کرچکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 413175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش