0
Tuesday 6 May 2014 13:31
فلسطین واپسی فلسطینیوں کا حق ہے

فلسطینیوں کے حق واپسی پر کسی قسم کی سودے بازی اور خیانت برداشت نہیں کیجائے گی، صابر کربلائی

فلسطینیوں کے حق واپسی پر کسی قسم کی سودے بازی اور خیانت برداشت نہیں کیجائے گی، صابر کربلائی
صابر کربلائی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے، اس وقت فلسطین فاونڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان اور گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی سینٹرل کمیٹی کے اہم رکن ہیں۔ تعلیمی حوالے سے اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی ڈویژن کے اہم عہدوں پر بھی کام کرتے رہے ہیں، صابر کربلائی کا شمار ان فعال ترین افراد میں ہوتا ہے جو فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے فلسطین کی موجودہ صورتحال، خطے میں جاری امریکی و اسرائیلی جنگ، اس کے فلسطینی کاز پر اثرات اور فلسطین فاونڈیشن کن امور کو انجام دے رہی ہے۔ یوم نکبہ کے موقع پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: یوم نکبہ سے کیا مراد ہے؟ اسے کیوں منایا جاتا ہے؟
صابر کربلائی: یوم نکبہ سے مراد ''بدترین تباہی اور بربادی کا دن''ہے، یہ اصطلاح سر زمین فلسطین میں اس روز استعمال ہوئی کہ جس دن غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین پر اپنا ناجائز تسلط قائم کیا اور فلسطین میں بسنے والے لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل عام کا نشانہ بناتے ہوئے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا۔

15مئی 1948ء کی بات ہے کہ جب عالمی استعماری قوتوں امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک کی ایماء پر فلسطین میں ایک غاصب اور ناجائز ریاست کا قیام وجود میں لایا گیا اور اس ریاست کو ''اسرائیل '' کا نام دیا گیا، اس ریاست کے بنانے والوں اور اس کے قیام کے لئے استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے والوں کا یہ نظریہ تھا کہ یہودی جو دنیا کی سب سے عظیم اور برتر قوم ہیں اور دنیا کے تمام وسائل پر انہی کا حق ہونا چاہیئے تو ان کے رہنے کے لئے بھی ایک ایسی الگ تھلگ جگہ یعنی ریاست ہونی چاہیئے جہاں وہ اپنی حکومت کا قیام عمل میں لا سکیں، اور اسی نظریئے کی تکمیل 1948ء میں 14مئی کو وقوع پذیر ہوئی اور پھر اگلے ہی روز ان تمام شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں ) نے سرزمین فلسطین پر بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک انجام دیا کہ تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔

1948ء کو 15مئی کے دن شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں) یا پھر اس طرح سمجھ لیجئے کہ صیہونی تحریک کے دہشت گرد وں نے پورے فلسطین میں ایک کہرام بپا کر دیا اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا، صیہونیوں کی ایک تنظیم جس کا نام ہگانہ ہے کا ذکر اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ جس کے دہشتگردوں نے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو صرف اور صرف ایک ہی روز میں بدترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ ہگانہ کے دہشت گردوں نے مظلوم فلسطینیوں کو نہ صرف مہلک ہتھیاروں، خنجروں اور تلواروں سے قتل کیا بلکہ اس دہشت گرد صیہونی تنظیم نے فوجیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے علاقوں میں پانی کی سپلائی لائنوں میں زہریلے مواد تک ملا دئیے تا کہ زہریلا پانی پی کر فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور اس کام میں ہگانہ تنظیم کے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی صیہون فوج کے اعلیٰ عہدیدار بھی ملوث رہے۔
15مئی 1948ء کو فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والی اس تباہی اور بربادی کو فلسطین کے باسیوں نے ''نکبہ'' کا نام دیا۔ نکبہ یعنی ''تباہی اور بدترین بربادی'' یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی گذشتہ پینسٹھ برس سے پندرہ مئی کو ''یوم نکبہ'' کے عنوان سے مناتے ہیں یعنی ''تباہی اور بربادی کا دن'' کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اس دن کو کس حیثیت سے مناتی ہے؟ کیا آپ کے علم میں اس بارے میں کوئی بات ہے؟
صابر کربلائی : جی ہاں ! صیہونیوں نے اس دن کو اپنی آزادی اور اپنے وطن کے قیام کا دن قرار دے رکھا ہے اور اس دن کہ جس دن انہوں نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے لاکھوں فلسطینیوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا تھا اس دن خوب جشن اور رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں اور پورے قابض علاقے میں کہ جس کو اسرائیل کا نام دیا گیا ہے میں جشن اور رونق کا سماں ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم امہ اس بارے میں کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
صابر کربلائی: مسلم امہ روز اول سے اس عظیم خیانت کے خلاف ہے اور صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے، بس ہماری بدقسمتی ہے کہ خطے میں موجود عرب ریاستوں نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیئے تھا کیونکہ مسلم امہ کے قلب ''فلسطین'' پر اسرائیل نامی خنجر گھونپ دیا گیا اور ایک ہی روز یعنی 15مئی 1948ء کو اسرائیلیوں نے فلسطینیوں پر ایسے مظالم کا سلسلہ شروع کیا جس کا انجام ہزاروں فلسطینیوں کی موت کے ساتھ ہوا اور نتیجے میں سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو صرف ایک ہی دن میں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور اس طرح یہ لاکھوں فلسطینی بےکسی اور بےبسی کے عالم میں اپنے ہی وطن سے تارکین وطن ہونے کے بعد فلسطین کے پڑوسی ممالک شام، مصر، لبنان اور اردن کی طرف رخ کر گئے اور عرب مسلم حکمران آج تک تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فلسطین پر اسرائیلی تسلط کے حوالے سے کون سے ایسے ممالک اور حکومتیں ہیں جنہوں نے اسرائیل کے قیام کے لئے کردار ادا کیا؟
صابر کربلائی: فلسطین پر صیہونی جارح ریاست اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کی داستان تو کافی طویل ہے جو انجمن اقوام سے شروع ہو کر بعد میں اقوام متحدہ تک جا پہنچتی ہے لیکن اہم نقطہ یہ ہے کہ کس طرح سے عالمی سامراجی قوتوں امریکہ اور برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کروائی اور یہودیوں کی شدت پسند تحریک صیہونیزم کے ذریعے فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے صیہونی خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ سر زمین فلسطین پر اسرائیل کا وجود اور قیام کوئی ایک یا دو روز کی بات نہیں بلکہ اس کے لئے سنہ1919ء سے ہی صیہونیزم کے بانی اور عالمی سامراجی دہشت گرد حکومتیں منصوبہ بندی کر رہی تھیں اور مختلف اوقات میں مختلف طریقوں اور حیلے بہانوں کے ذریعے فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کی کوششیں کی جا تی رہیں۔اور اس حوالے سے برطانیہ کی فلسطینیوں کی ساتھ خیانت نا قابل معافی ہے۔

اسلام ٹائمز: فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے عنوان سے برطانیہ کے کردار پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے؟
صابر کربلائی: برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ بالفور کے اعلامیہ کو صہیونی دہشت گردوں نے فلسطین میں ناجائز نسل پرست صہیونی ریاست قائم کرنے کے لئے ایک قانونی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ یہ اعلامیہ نومبر 1917ء میں جاری کیا گیا لیکن صہیونیوں نے انیسویں صدی میں ہی فلسطین پر قبضے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ اس سازش کے تحت نسل پرست یہودی یعنی صہیونی برطانوی سامراج کی فوج میں بھی شامل ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کی صف بندی میں دنیا کے بڑے ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج، روس، بیلجیم، اٹلی، جاپان، یونان، مونٹے نیگرو اور سربیا پر مشتمل Allies یعنی اتحادیوں کا مقابلہ سینٹرل پاورز یعنی مرکزی طاقتوں کے ساتھ تھا جن میں مسلمانوں کی مرکزی خلافت ترکی، جرمنی اور آسٹریا، ہنگری شامل تھے۔

اس دور میں پس پردہ جو سازشی معاہدے و خط و کتابت ہوئیں، عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے عرب پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں برطانوی ہائی کمشنر (یعنی سفیر) سر ہنری میک میہن نے ترک خلافت کے عرب گورنر برائے حجاز حسین بن علی جنہیں شریف مکہ بھی کہا جاتا تھا کے ساتھ خفیہ خط و کتابت میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اتحادی ممالک جنگ جیت گئے تو ترک خلافت کے زیرحکومت عرب علاقے آزاد ہو جائیں گے۔ ایک جانب یہ عہد و پیمان کئے جا رہے تھے تو دوسری جانب مئی 1916ء میں برطانوی سامراج کے اعلی سفارتکار سر مارک سائیکس اور بیروت میں فرانسیسی قونصلر فرینسواژارژ پیکو نے یہ طے کر لیا تھا کہ جنگ عظیم اول میں کامیابی کے بعد سلطنت عثمانیہ (یعنی ترک خلافت) کے مفتوحہ علاقوں کو برطانیہ، فرانس اور روس آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ یہ اس نوعیت کا تیسرا رائونڈ تھا۔ 23 نومبر 1915ء کو لندن میں پہلا رائونڈ ہوا جہاں برطانوی ٹیم کی قیادت سر آرتھر نکولسن نے کی تھی۔ 21دسمبر 1915ء کو دوسرے رائونڈ میں برطانوی وفد کی قیادت مارک سائیکس نے کی۔ 9مئی 1916ء کو لندن میں تعینات فرانسیسی سفیر پال کیمبون نے برطانوی وزیر خارجہ سر ایڈورڈ گرے کو لکھے گئے خط میں اس مجوزہ تقسیم بندی کی تفصیلات بیان کیں۔ 16مئی 1916ء کو ایڈورڈ گرے نے جوابی خط میں اس کی توثیق کردی۔

اسلام ٹائمز: سرزمین فلسطین پر ایک صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
صابر کربلائی: میں اس فعل کو عالمی برداری بالخصوص برطانیہ، فرانس اور امریکہ سمیت یورپی ممالک کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت قرار دیتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ دنیا کے یہ عالمی دہشت گرد ممالک اور حکومتیں ہیں کہ جنہوں نے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو تاراج کیا ہے، تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، تاریخ میں دنیا کے اندر کئی ایک ایسے واقعات ہوں گے کہ جس میں ڈاکوئوں کی جانب سے لوٹ لئے جانے کا ذکر ملتا ہو گا، یا پھر عالمی سطح پر کچھ ایسی چوریاں بھی ہوں گی کہ جس کا ذکر تاریخ میں موجود ہو گا لیکن یہ کیسی چوری اور ڈکیتی تھی کہ جس پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور مظلوم فلسطینی عوام کو صیہونی درندوں کے رحم و کرم پر ہی رہے ، یوم نکبہ کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹس میں لکھا گیا کہ یوم نکبہ کے روز جہاں مختلف نوعیت کے مظالم کا ارتکاب کیا گیا وہاں کئی ایک ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ صیہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کے گھر خالی کرنے کا حکم دیا اور گھر چھوڑ کر جانے کا کہا تو فلسطینیوں نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد صیہونی دہشت گردوں نے گھر کے بڑو ں کو گھر سے نکا ل کر بچوں کو گھروں میں بند کر دیا اور پھر پورے گھروں کو یا تو مسمار کر دیا یا پھر زہریلے آتش گیرمادے کے ذریعے نذر آتش کر دیا گیا، اور اس طرح کے واقعات میں درجنوں نہیں سیکڑوں معصوم کم سن اور شیر خوار بچے صیہونی درندگی کا نشانہ بنے۔

اسلام ٹائمز: ہولو کاسٹ سے متعلق آپ کا کیا کہنا ہے؟
صابر کربلائی: ہولو کاسٹ ایک جھوٹ پر مبنی افسانہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ہولوکاسٹ کو صیہونیوں نے خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کے لئے ایک جواز بنا لیا ہے اور دنیا کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے خود کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں، میں آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ بتائیے، اگر فرض کر لیں کہ ہولو کاسٹ ہوا ہی ہے تو پھر کس جگہ ہوا اور کہاں ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ یہ تمام سوالات منظر پر آتے ہیں، ہولوکاسٹ کے بار ے میں مشہور ہے کہ جرمنی میں اور یورپ میں ہوا اور کرنے والے نازی تھے اور ان کا سردار ہٹلر تھا جس نے یہودیوں کے ساتھ برا کیا، تو پھر دنیا بھر کے یہودیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنی یہودی ریاست کا قیا م جرمنی میں کریں اور ہٹلر کے مظالم کا انتقام جرمن حکومت اور جرمنی سے لیا جانا چاہئیے نہ کہ فلسطین میں بسنے والے مظلوم انسانوں سے کہ جن کا دور دور تک یہودیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے کوئی تعلق نہیں (اگر وہ مظالم ڈھائے بھی گئے ہیں تو)۔

اسلام ٹائمز: فلسطینی پندرہ مئی کو ''یوم نکبہ '' منا رہے ہیں، اس حوالے سے پاکستان میں کیا سرگرمیاں ہوں گی؟ اور اس حوالے سے کوئی خاص بات جو آپ بتانا چاہتے ہوں؟

صابر کربلائی: دنیا بھر میں فلسطینی اس دن کو آج بھی ''یوم نکبہ'' کے عنوان سے منا رہے ہیں اور رواں برس بھی پندرہ مئی کو اس یوم کو منایا جائے گا لیکن اس مرتبہ منائے جانے کا انداز شاید کچھ تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شعور اور آگہی میں اضافہ بھی بڑھ رہا ہے اور اب فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں گے، کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اس وطن پر کسی ایسی قوم کو حق حاصل نہیں کہ جسے دنیا کے دوسرے ممالک سے لا کر اس سرزمین پر قابض کر دیا گیاہو، جیسا کہ 1948ء اور اس سے قبل کیا گیا تھا، بہرحال فلسطینیوں کا فیصلہ ہے کہ وہ ہر صورت سرزمین فلسطین کو واپس لوٹیں گے، وہ تمام فلسطینی کہ جنہیں صیہونیوں نے ان کے وطن، گھروں اور ان کی زمینوں اور کھیتوں سے بےدخل کر کے نکال باہر کیا ہے اور اب انہی فلسطینیوں کا اعلان ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ رہے ہیں اور دو برس قبل کی بات ہے کہ فلسطینیوں نے ٹھیک یوم نکبہ کے روز ایک ایسی کوشش لبنان سے ملحقہ فلسطین کی سرحد پر کی تھی کہ جہاں صیہونی افواج کا قبضہ ہے لیکن اس برس فلسطینیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ''یوم نکبہ'' کو ''یوم واپسی'' کے طور پر منائیں گے اور ان کا ایک ہی نعرہ ہو گا ''منزل فلسطین''۔

جی ہاں! ہمارا بھی نعرہ یہی ہے جو فلسطینیوں کا ہے، ''منزل فلسطین'' ''یوم نکبہ یعنی یوم واپسی''، دنیا بھر کے باضمیروں کو چاہیئے کہ وہ فلسطینیوں کی اس مہم اور اس مقصد کو زیادہ سے زیادہ اپنی حمایت سے کامیاب بنانے کی کوشش کریں تاکہ فلسطین سے بےگھر کئے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس لے جانے میں مدد گار ثابت ہو سکے کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے، اور تمام وہ فلسطینی کہ جو دنیا کے کسی بھی ملک میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے ہیں فلسطین لوٹ آئیں اور اسی طرح یہ تمام شدت پسند یہودی (صیہونی) جس ملک سے بھی فلسطین لائے گئے تھے واپس اپنے ممالک کی طرف پلٹ جائیں۔
خبر کا کوڈ : 379536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش