0
Thursday 6 Nov 2014 23:37
ہم دہشتگردی اور فرقہ واریت کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں

تاریخ گواہ ہے کہ ملت تشیع نے کبھی ریاست کو نشانہ نہیں بنایا، علامہ ناصر عباس جعفری

آیت اللہ خامنہ ای نے باقاعدہ فتویٰ دیا ہے کہ اہلسنت کے مقدسات کی توہین حرام اور گناہ کبیرہ ہے
تاریخ گواہ ہے کہ ملت تشیع نے کبھی ریاست کو نشانہ نہیں بنایا، علامہ ناصر عباس جعفری
حجت الاسلام علامہ ناصر عباس جعفری 1960ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم راولپنڈی سے ہی حاصل کی اور دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز جامع اہلبیت اسلام آباد سے کیا۔ بعد ازاں اعلٰی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایران کے شہر قم چلے گئے، جہاں وہ دوران تعلیم دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے قریبی رابطے میں رہے۔ انہوں نے دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2002ء میں پاکستان آکر اتحاد بین المسلین کے لیے کام کا آغاز کیا اور 2008ء میں ملک کو درپیش مسائل خصوصاً دہشت گردی کے خاتمے اور مسلکی اختلافات کم کرنے کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی بیناد رکھی۔ مجلس وحدت مسلمین کے باقاعدہ طور پر سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور تاحال اس عہدے کے ذریعے اتحاد بین المسلمین کیلئے کام کرنے میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ملک میں شیعہ سنی اختلافات کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے، کیونکہ فرقہ واریت روز بروز بڑھ رہی ہے اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں شیعہ سنی میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، شیعہ سنی کے درمیان بہت زیادہ مشترکات ہیں، کچھ تاریخی اور علمی اختلافات ہیں، جنہیں علمی حد تک ہی رہنا چاہیئے۔ یہ علمی اختلاف بہت ہی کم ہیں، پس ہمارے درمیان بہت زیادہ مشترکات ہیں جن پر کام کرنا چاہیئے اور قلیل فروعی اختلاف کو ہوا دینے
کی بجائے مشترکات پر بات کرنی چاہیئے۔ جہاں تک فرقہ واریت کے بڑھنے کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ غیر ملکی قوتیں کچھ لوگوں کو اپنا ایجنٹ بنا کر ہمارے درمیان فرقہ ایجاد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یہ کس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ یقیناً قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس پر کام کریں۔ اس وقت دیکھنا چاہیئے کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے۔ وہ اسلام اور پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہمارے بارڈرز کی صورتحال سب کے سامنے ہے، ایک طرف پاک فوج شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف لڑ رہی ہے تو دوسری جانب سے ہمارا ازلی دشمن بھارت ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ تنظیموں پر الزام ہے کہ انہوں نے فرقہ واریت کو ہوا دی۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: ہم ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں، یہ فقط الزام سے بڑھ کر کچھ نہیں، ملت تشیع کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کبھی غیر ملکیوں کے آلہ کار نہیں بنے، کبھی ریاست اور ریاستی اداروں کو نشانہ نہیں بنایا، کبھی فوج، پولیس یا کسی دوسرے ادارے پر حملہ نہیں کیا، یہ مکتب تشیع کی پاکستان کیساتھ وفاداری کی بہترین مثال ہے۔ ہم دہشتگردی اور فرقہ واریت کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے علماء و فقہاء نے اس عمل کی کبھی اجازت نہیں دی، جس سے ملک میں تفرقہ پھیلے اور فرقہ واریت کو ہوا ملے۔ اس لئے یہ کہنا کہ ملت تشیع کی تنظیمیں فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں، ایک بہتان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ہم اس وقت
ملی یکجہتی کونسل کا حصہ ہیں۔ ملت تشیع میں کوئی عسکری ونگ نہیں۔ ہم نے اپنی جماعت کا نام ہی مجلس وحدت مسلمین رکھا ہے، یہ نام ثابت کرتا ہے کہ ہم مسلک سے بلند سوچتے ہیں۔ ہم اتحاد و وحدت کی بات کرتے ہیں، بھائی چارگی کی بات کرتے ہیں۔ جہان تشیع کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے باقاعدہ فتویٰ دیا ہے کہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

اسلام ٹائمز: دنیا میں دو سو چھ ممالک ہیں جن میں سے پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں، جہاں شیعہ بھی اور سنی بھی اور دیگر مسالک کے لوگ بھی آباد ہیں لیکن جب محرم کا مقدس مہینہ آتا ہے تو ٹینشن پاکستان میں بڑھتی ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک اقلیتی تکفیری گروہ ہے جو اپنی پست ذہنیت دوسروں پر نافذ کرنا چاہتا ہے۔ یہ متشدد گروہ ہے، اگر ریاست اور ہمارے ادارے ان پر آہنی ہاتھ ڈالیں تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، لیکن افسوس کہ سو سو افراد کے قاتلوں کو عدالتیں رہا کر دیتی ہیں۔ اگر آئین پاکستان پر صحیح طریقہ سے عمل کیا جائے اور پولیس میں سیاسی بھرتیاں ختم کی جائیں تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ افسوس ہوتا ہے جب ایک صوبے کے وزیر قانون راناثناءاللہ کالعدم جماعت کی ریلی میں شرکت کرے اور اس کی موجودگی میں تکفیری نعرے لگیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون پر عمل درآمد کون کرائے گا؟ جب وزیر قانون اس کا حصہ بن جائیں۔ اگر پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ ہوتا تو آج ہمارے گلی کوچے خون آلودہ ہوتے، ہر جگہ لڑائی
جاری ہوتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں ایسا نہیں ہے، ہمارے درمیان رشتہ داریاں ہیں، یہ فقط چند شرپسند عناصر ہیں جن پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: بیرونی قوتیں کس حد تک فرقہ واریت کو ہوا دینے میں ملوث ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: یقیناً پاکستان دشمن قوتیں ہر حربہ استعمال کریں گی، وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے فرقہ وارنہ مسائل کو ہوا دیں گی۔ بلیک واٹر جیسی تنظیمیں یہاں پاکستان میں کیا کام کر رہی ہیں، کیوں ان کو پاکستان نہیں نکالا جاتا۔

اسلام ٹائمز: ٹارگٹ کلنگ جس میں شیعہ اور سنی دونوں کے علمأ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسے کیسے روکا جاسکتا ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: شیعہ سنی علماء کا قتل یقیناً قابل مذمت ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ علماء کرام کا قتل جہاں اسلام کا نقصان ہے، وہاں وطن عزیز پاکستان کیلئے بھی قابل تحمل نہیں، ہم ہر طرح کی دہشتگردی کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے گروہوں کو تلاش کیا جائے، جو اس طرح کی وارداتیں کرکے ملک میں فتنہ و فساد پھیلانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک ٹارگٹ کلنگ روکنے کا تعلق ہے تو پھر بات دوبارہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر آکر رکتی ہے۔ کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق سپریم کورٹ اپنی ججمنٹ دے چکی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر عسکری ونگ قائم کر رکھے ہیں۔ آپ نوٹ کریں کہ کراچی میں ایک دن شیعہ عالم دین قتل ہوتا ہے تو اسی دن یا اس سے اگلے دن سنی عالم دین قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے، اس طرح کے واقعات کا ہونا ثابت کرتا ہے کہ کچھ قوتیں مکاتب فکر
کو ایک دوسرے کیخلاف اکسانا چاہتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان پر تیسری بار خودکش حملہ ہوا، کون ہے جو مولانا سے ناراض ہے اور کیوں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: مولانا فضل الرحمان پر حملے میں وہی لوگ ملوث ہوسکتے ہیں جنہوں نے مولانا حسن جان کو شہید کیا، جنہوں نے سرفراز نعیمی جیسے نامور عالم دین کو شہید کیا۔ اس کے پیچھے وہی تکفیری سوچ ہے جو اختلاف رائے برادشت نہیں کرسکتی، ظاہر سی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس سوچ کی نفی کرتے ہیں، وہ مسلح جدوجہد کو جائز نہیں سمجھتے۔ وہ آئین پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان کے تمام مسائل کا حل آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے تلاش کرتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اسلحے کی نوک پر اپنی بات منوانے کی بات کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: لاؤڈ اسپیکر کو صرف اذان اور نماز جمعہ کیلئے استعمال کرنے کیلئے حکومت بار بار کوششیں کرتی رہی ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا، اس پر شیعہ اور سنی دونوں تنظیمیں عمل کیوں نہیں کر رہی ہیں۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: کسی بھی چیز کا ناجائز استعمال غلط ہے۔ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ لاوڈ اسپیکر کو فقط اذان اور نماز جمعہ تک محدود رکھنا چاہیئے۔ ایسی مسجدیں جہاں سے امت مسلمہ میں انتشار پھیلتا ہو ان مساجد کو بند کر دینا چاہیئے، ایسے ملاوں کو جیلوں کی سلاخوں میں بند ہونا چاہیئے جو تفرقہ کا باعث بنتے ہوں اور ملک میں افراتفری پھیلاتے ہیں۔ جہاں تک لاوڈ سپیکر پر پابندی عائد کرانے کا تعلق ہے کہ تو یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ کوئی
بھی ذی شعور کبھی اس چیز کا پسند نہیں کریگا کہ لاوڈ اسپیکر سے تفرقہ پھیل رہا ہو اور کوئی اسے سپورٹ کرے۔

اسلام ٹائمز: کیا مختلف مسالک والی مذہبی جماعتیں اتحاد کرسکتی ہیں۔؟

علامہ ناصر عباس جعفری: مذہبی جماعتیں متحد ہیں، اسکی بہترین مثال ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس ہیں، سب اکٹھے بیٹھتے ہیں، اتحاد و وحدت کی باتیں کرتے ہیں، یہ جماعتیں فرقہ واریت کی نفی کرتی ہیں۔ ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو تکفیری سوچ رکھتا ہے، اس طبقے کو ملی یکجہتی کونسل میں شامل کوئی مذہبی جماعت قبول نہیں کرتی۔ پس اس محدود طبقے کو مذہبی جماعتوں کا نام دینا درست نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم سپاہ صحابہ والے کہتے ہیں کہ تمام مسالک کے مذہبی جلسے جلوسوں کو عبادت گاہوں تک محدود کیا جائے، کیا آپکے نزدیک ایسا ممکن ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری: آخر بعض لوگوں کو میلاد اور نواسہ رسول (ص) کے جلسوں سے کیوں تکلیف ہے، حد تو یہ ہے کہ وہی لوگ جو کل تک ان جلسوں کیخلاف تھے، آج وہ خود جلوس نکال رہے ہیں، ان کی ریلیاں آپ کے سامنے ہیں۔ اگر دہشتگردی کے واقعات کو جواز بنا کر کہا جائے کہ کئی صدیوں سے جاری جلوس کو بینڈ کر دینا چاہیئے، پھر تو بازاروں کو بھی بند کر دینا چاہیئے، کیونکہ یہاں بھی بم دھماکے ہوتے ہیں، جی ایچ کیو کو بھی بند ہوجانا چاہیئے کہ دہشتگردوں نے اسے بھی نشانہ بنایا ہے، مساجد کو بھی بند کر دینا چاہیئے اور نمازیوں کو نماز کیلئے نہیں جانا چاہیئے، کیونکہ مسجدیں بھی دہشتگردی کا نشانہ بنی ہیں۔ یہ بےمعنی سی باتی ہیں، جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
خبر کا کوڈ : 418101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش