2
0
Friday 7 Mar 2014 00:06

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور انکے ساتھی

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور انکے ساتھی
تحریر: سید اسد عباس تقوی

 مجھے بچپن سے ہی پریڈ سے لگاؤ تھا، 23 مارچ کو ہونے والی پاک فوج کی پریڈ، میں سارا دن بہت اہتمام سے دیکھا کرتا تھا۔ جوانوں کا نظم، ان کی وردیاں، ان کا چلنا، نعرہ تکبیر لگانا سبھی کچھ دل کو بہت لبھاتا تھا۔ دل جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو جایا کرتا تھا۔ کالج میں این سی سی کی تربیت اسی شوق میں لی کہ مجھے فوجی لباس پہن کر پریڈ کرنا ہے۔ این سی سی کے دوران فوجی اساتذہ کے تحت تربیت حاصل کرنے کے بعد میرے انداز پریڈ میں رہ جانے والے تمام سقم دور ہوگئے اور میں ایک کامل پریڈی سپاہی بن گیا۔ میری پریڈ نے میرے فوجی اساتذہ کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے مجھے اختتامی پریڈ کی قیادت کے لیے منتخب کر لیا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ وہ دن میرے لیے بہت خوشی کا دن تھا، جب میرے فوجی استاد نے مجھے پریڈ لیڈر کے طور پر منتخب کیا۔ میں نے بڑے چاؤ سے پریڈ لیڈر کے بیج خریدے، بوٹ چمکائے، وردی استری کی اور پھر وہ لمحہ آیا کہ میں اپنی زندگی میں پہلی پریڈ کی قیادت کر رہا تھا۔ میرے کالج کے سینکڑوں ساتھی میرے پیچھے وطن عزیز کے پرچم کو سلامی پیش کرتے ہوئے گزرے۔

میری دوسری سلامی ایک اسکاؤٹ کی حیثیت سے تھی۔ اچھی طرح سے یاد نہیں کہ میں لاہور کیسے پہنچا، لیکن اتنا یاد ہے کہ مارچ کا مہینہ تھا اور بہت سے اسکاؤٹس لاہور پہنچ رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ تمام اسکاؤٹس اپنی این سی سی کی وردیاں ہمراہ لائیں۔ ہمیں لاہور، موچی دروازے کے ایک امام بارگاہ میں ٹھہرایا گیا اور بتایا گیا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے مزار پر سلامی پیش کرنی ہے۔ یہ ڈاکٹر شہید کی پہلی برسی تھی، میری پریڈی روح ایک مرتبہ پھر بیدار ہوئی اور میں نے ذمہ داران سے کہا کہ آپ مجھے موقع دیں کہ میں اس اسکاؤٹ دستے کی قیادت کروں۔ اپنی اہلیت کو ثابت کرنے کے لیے میں نے ان دوستوں کو پریڈ لیڈر کے بیجز اور ربن بھی دکھائے۔ دوستوں نے میری اور چند دیگر اسکاؤٹس کی پریڈ کا امتحان لیا، اس میدان میں بھلا میں کسی سے پیچھے کیسے رہتا۔ ایک مرتبہ پھر مجھے سلامی کی قیادت کے لیے منتخب کر لیا گیا۔

پریکٹس کا آغاز ہوا۔ تمام اسکاؤٹس میری قیادت میں پریڈ کرنے لگے اور پھر ہم شام کے وقت لاہور کے نواحی علاقے، علی رضا آباد پہنچے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے بارے میں فقط اتنا ہی جانتا تھا کہ آپ ملک میں شیعہ طلبہ تنظیم کے بانی رکن ہیں، دو مرتبہ اس تنظیم کے مرکزی صدر بنے، انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی ؒ کے سچے عاشق ہیں اور شہید قائد عارف حسین الحسینی کے قریبی ساتھی ہیں۔ پریڈ کا آغاز ہوا۔ مجھے ابتداء سے ہی یہ احساس تھا کہ آج شہید کو پہلی اسکاؤٹ سلامی دی جا رہی ہے اور میرے لیے فخر کا مقام تھا کہ شہید کو دی جانے والی پہلی سلامی کی قیادت میں کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے عشاق اور ساتھیوں کا ایک جم غفیر علی رضا آباد کے قبرستان میں موجود تھا۔ کچی قبروں کے مابین رات کے وقت اسکاؤٹ کا یہ دستہ مزار ڈاکٹر کی جانب بڑھنے لگا، رات کی تاریکی میں ٹمٹماتے چھوٹے چھوٹے بلبوں اور ایمرجنسی لائٹس کی روشنیوں میں، میں نے اپنے گرد بہت سے جذباتی مناظر وقوع پذیر ہوتے دیکھے۔ ایک جانب دیکھتا ہوں کہ لوگ ہماری اس پیشرفت کو دیکھ کر اونچی آواز میں گریہ کناں ہیں تو دوسری طرف کچھ جوان ہمیں دیکھ کر زمین پر سجدہ ریز ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہماری اس سلامی میں ایسی کیا بات ہے جس نے ان حضرات کو اس قدر غمزدہ کر دیا ہے۔

اسکاؤٹس کا یہ دستہ انتہائی باوقار انداز میں رقت آمیز مناظر کے ساتھ ڈاکٹر شہید کے مزار پر پہنچا۔ قبرستان میں وقوع پذیر ہونے والے مناظر نے مجھ پر کچھ ایسا تاثر چھوڑا کہ میں اپنی بھرپور آواز کے ساتھ ڈاکٹر شہید سے مخاطب ہوا۔ فوجی لہجے کی یہ آواز علی رضا آباد کے قبرستان میں گونجنے لگی، پھر تکبیر کے نعرے بلند ہوئے اور تمام حاضرین نے ڈاکٹر شہید کی روح سے پیمان وفا باندھا۔ ڈاکٹر شہید کے مزار پر اس حاضری اور سلامی کی سعادت کے بعد زندگی اپنی ڈگر پر چل پڑی، تاہم لاشعور میں یہ احساس کروٹیں لیتا رہا کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے بارے میں مزید جانوں، ان کی ملت کے لیے خدمات کا مزید ادراک حاصل کروں، ان کے ساتھیوں سے ملوں، ان حضرات سے ڈاکٹر صاحب کے روز و شب کے بارے میں سوال کروں۔

میری خوش بختی کہیے کہ میرے روزگار کا سلسلہ ایک ایسے ادارے میں قائم ہوا، جس کی بناء ڈاکٹر صاحب کے انہی رفقاء میں سے چند نے رکھی۔ یہ افراد ہر وقت، ہر مقام، ہر منزل اور ہر مقصد میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ہمراہ رہے۔ کالج کا دور ہو یا اسلامی طلبہ تنظیم کی بنیاد، عملی زندگی ہو یا عراق ایران جنگ، قائد شہید کا جنازہ ہو یا قیادت کی تبدیلی کا مرحلہ، قرآن و سنت کانفرنس ہو یا ملت کا کوئی اور غم، یہ افراد ہمیشہ ڈاکٹر محمد علی کے اور ڈاکٹر محمد علی نقوی ان کے ہمراہ رہے۔ عزم و ہمت کے یہ پیکر اپنی اپنی حیثیت میں آج بھی اپنے دوست سے کئے ہوئے وعدوں کو نبھا رہے ہیں۔ وہ دوست جس کی جدائی ان سب پر بہت گراں ہے۔ 

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا ذکر چھڑے اور جرات و صبر کے یہ پہاڑ اشک بار نہ ہوئے ہوں۔ اکثر تو سسکیاں بے قابو ہو کر فراق یار کی ساری داستان طشت از بام کر دیتی ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کی زبانی یہ شکوہ اکثر سنا ہے کہ ’’ ڈاکٹر صاحب بہت جلدی چھوڑ گئے‘‘، میں نے یہ نوحہ بھی سنا کہ ’’کوئی نہیں ملتا جس سے اپنا درد کہیں۔‘‘ ان میں سے اکثر تو کافی عرصہ ڈاکٹر صاحب کی تصویروں سے باتیں کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہے۔ اس سب کے باوجود ان مردان حق نے سفر حق کو کبھی ترک نہ کیا۔ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ رہے ہوں یہ افراد باوفا ساتھیوں کی مانند برسر پیکار رہے اور برسر پیکار ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے کیے ہوئے وعدے جن پر ڈاکٹر شہید نے اپنے پاکیزہ لہو کی مہر تصدیق ثبت کی، ان یاران باوفا کو چین نہیں لینے دیتے۔ دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، یہ پروانے اپنی دھن میں مگن ہیں، جیسے زندگی ان کے لیے ہدف کی تکمیل کے علاوہ کوئی اور معنی نہیں رکھتی۔ بچے، بیوی، ماں، باپ، عزیز و اقارب کچھ بھی ہدف و مقصد کی راہ میں حائل نہیں۔

خدا شمع ولایت کے اس عظیم پروانے کو اعلٰی درجات عنایت فرمائے، جس کے نفوس کی حرارت آج بھی ملت کے انگ انگ میں محسوس کی جاسکتی ہے، جس کا ہر ہر عمل نسلوں کی تربیت کا باعث بنا اور اس کے باوفا رفقاء جو آج بھی اس کی راہ پر چلتے ہوئے دین مبین کی سربلندی کے عظیم مشن پر گامزن ہیں، کو اتحاد و وحدت کے ساتھ کامیابیاں و کامرانیاں عطا فرمائے۔ خدا وند کریم پرچم حق کو سربلند فرمائے اور ہمیں حق سے متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 358835
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ سید
United Kingdom
آپ تک پوری تاریخ نہیں پہنچائی گئی، آپ کو چاہیئے تھوڑی سی ریسرچ کریں، تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ ڈاکٹر شہید کے ساتھی کون کون تھے اور شہید کا مقصد کیا تھا۔
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش