0
Saturday 29 Mar 2014 21:46
شام اور مصر ہی دشمن اور باطل کی ناپاک سازشوں کا قبرستان ثابت ہوگا

سعودی عرب امریکہ کے ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا ہے، مولانا سید بلال احمد کرمانی

سعودی عرب امریکہ کے ہاتھوں کا کھلونا بنا ہوا ہے، مولانا سید بلال احمد کرمانی
مولانا سید بلال احمد کرمانی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر سے ہے، قمرواری سرینگر میں ایک اہم تعلیمی ادارہ ’’سلسبیل ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ‘‘ جس کا قیام 12 سال قبل عمل میں لایا گیا۔ آپ اس ادارے کے سرپرست ہیں، اسکے علاوہ انجمن مرکز الاسلامی کشمیر کے آپ مہتم بھی ہیں، مرکز الاسلامی ایک فلاحی انجمن ہے اس میں دارالعلوم کا بھی منفرد کانسپٹ ہے، سید بلال احمد کرمانی کا ماننا ہے کہ نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے بھی آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ ممبر و محراب تک محدود نہ رہیں بلکہ دنیا کے ہر شعبے میں اپنا مثالی کارنامہ انجام دے سکیں، مولانا بلال کرمانی جموں و کشمیر اسلامک مشن کے بانی بھی ہیں، مقبوضہ کشمیر کے اہم مرکز بٹہ مالو علاقہ کے بازار مسجد میں آپ امام جمعہ کے فرائض و خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، اتحاد بین المسلمین و آپسی بھائی چارگی کے حوالے سے جموں و کشمیر میں آپ کا کردار لاثانی ہے، ایک اہم نشست کے دوران ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مولانا بلال احمد کرمانی سے عالم اسلام کی موجودہ خونین صورتحال کے بارے میں ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: شام کے مسئلہ کے بارے میں جاننا چاہیں گے کہ جو حل کے قریب تر ہے اور دہشت گرد اب شام چھوڑ کر دیگر ممالک کا رخ کررہے ہیں، اس مسئلہ پر عالم اسلام کے نام نہاد حکمرانوں کے دوہرے پن اور غیر انسانی سلوک پر آپ کا تبصرہ کیا ہے۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: فقط شام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس وقت مسلمانوں کو انتشار اور آپسی تضاد کا شکار کرایا جا رہا ہے، خصوصاً شام، ،مصر اور پاکستان میں دشمن کی سازشیں عروج پر ہیں، جہاں جہاں بھی حکمران عوام کے مینڈیٹ سے، عوامی ووٹ سے اور عوامی رائے سے برسر اقتدار آئے ہیں، یہ تمام عوامی نمائندے اور حکمران باطل کی آنکھوں میں کانٹے ہیں اور یہ حکمران باطل کے لئے درد سر ہیں، ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ جہاں پر ناپائیدار حکومتیں ہیں اور غیر مستحکم حکومتیں ہیں وہاں وہ کوئی مداخلت نہیں کرتے ہیں لیکن جہاں عوامی حکومتیں ہیں اور پائیدار حکومتیں ہیں وہاں باطل قوتوں کی کوشش ہے کہ وہاں حکومتوں کو گرایا جائے، ناکام کیا جائے اور عوامی جذبات کو کچلا جائے، اسی کی ایک کڑی شام ہے لیکن شام میں حکمرانوں نے زبردست مقاومت اور استحکامت دکھائی اور وہ باطل قوتوں کے خلاف کھڑے رہے جو ان کا مستحسن عمل ہے، شامی عوام نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ ایک ہیں اور متحد ہیں، شام کی عوام تمام کی تمام حکومت کے ساتھ ہیں اور عوام حکومت کے معاون ہیں، اسی لئے شام حکمرانوں اور عوام نے باطل قوتوں کو وہاں سے باہر نکال پھینکا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو وقت کا ’’سپر پاور‘‘ اپنے آپ کو کہتا ہے یہ تمام تر قصور اور تمام مسائل کی اصل جڑ امریکہ ہی ہے، یہ تمام اسی کی کارستانی ہے اور تمام فتنوں کا سہرا امریکہ کے سر ہی جاتا ہے۔ شام میں اگر بظاہر نام نہاد مسلمان حکمران ملوث پائے جاتے ہیں لیکن یہ دراصل امریکہ کے آلہ کار ہیں، یہ آلہ کار کے بطور کام کررہے ہیں لیکن اصل فتنے کا مرکز امریکہ ہے، فساد کی جڑ امریکہ ہے، یہ مسلم حکمران صرف امریکہ کے ایجنٹ ہیں، دراصل باطل کی کوشش ہے کہ مسلم امت کو پارہ پارہ کریں اس میں امریکہ کا اصل ہاتھ ہے، اب امریکہ کو شام میں منھ کی کھانی پڑی اور انشاء اللہ ہر جگہ امریکہ کو شکست ہی نصیب ہوگی۔ اب شام سے شرپنسد عناصر جہاں جہاں بھی بھاگ جائیں گے، ان ممالک کو یہ سوچنا چاہیئے کہ وہ ان عناصر کو پناہ دے کر کہیں امریکہ کے خاکوں میں رنگ تو نہیں بھر رہے ہیں اور انکی یہ خاموشی امریکہ کی حمایت اور خطرناک سازش کا حصہ بن سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں یہ نام نہاد حکمران عالم اسلام کے بنیادی اور اہم مسائل کو فراموش کرکے جزوی و فرقہ وارانہ فسادات کو تقویت دے رہے ہیں۔ کیا یہ ان کے لئے ننگ و عار نہیں ہے۔؟

مولانا سید بلال احمد کرمانی: اگر اللہ تعالی نے تمام لوگوں کو کامل بنایا ہوتا تو قرآن یہ نہ کہتا کہ ’’افلا تعقلان۔۔۔افلا تتدبرون۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنہیں عقل و شعور نہیں ہے، غرضیکہ یہ نام نہاد حکمران وہ لوگ ہیں جنہیں عقل و شعور نہیں ہے، عقل و دانش کے فقدان کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جب انا پرستی حاوی ہو جائے، اسلام نے انا پرستی اور ’’میں‘‘ کو رجیکٹ کیا ہے اور اس انائیت کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے، یہ حکمران وہی لوگ ہیں کہ جن میں انا پرستی کی وجہ سے عقل و شعور چلا گیا ہے، ہمیں اپنے ذاتی مفادات کے لئے نہیں بلکہ تمام مسلم امت کی بقاء کے لئے سوچنا چاہیئے، ہمیں تمام مسلم امت کی ترقی اور پیشرفت کے بارے میں سوچنا چاہیئے کہ کیا ہم وہی قوم ہیں کہ جس نے خلافت عثمانیہ میں باطل کا منھ توڑ جواب دیا، کیا ہم وہی قوم ہے جس نے خلفاء راشدین کی شکل میں باطل کو منھ توڑ جواب دیا، ہمیں ہرحال میں مسلم امہ کی بقاء کے لئے کام کرنا چاہیئے نہ کہ اپنے ذاتی مفادات اور کرسیوں کی خاطر۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کا ملک دشمن عناصر کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟

مولانا سید بلال احمد کرمانی: دیکھئے میں نے عرض کیا ہے کہ یہ لوگ عقل و شعور سے خالی ہیں، اس لئے عقل و دانش نہ رکھنے والوں کے ساتھ جب کوئی حکومت مذاکرات اور بات چیت کرے گی تو نتیجہ کیا نکلے گا سب اس چیز سے واقف ہیں، بقول قرآن مجید جب آپ جاہل کو پاؤ گے ’’قالو سلاما‘‘ یعنی آپ اپنے راستے پہ جاؤ ہمیں اپنے راستے جانے دو، ہمیں آپ سے کوئی سروکار نہیں ہے، ان جہلاء کے ساتھ آپ بات چیت کریں گے تو نتیجہ کیا اخذ ہوگا اور کیا حاصل ہوگا، بقول قرآن آپ خالی ہاتھ وہاں سے واپس آؤ گے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، بلکہ ان مذاکرات اور بات چیت سے حکومت پاکستان کو اور زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے گا، اس لئے ان سے بات چیت کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے، بے وقعت لوگوں سے بات چیت کیسی، مذاکرات کیسے؟ ہاں پاکستان کی موجودہ صورتحال جو ہے اس کے نتیجے میں پاکستان کے مسلمان متحد ہونگے، مضبوط ہونگے اور وہ مستقبل میں ایک ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں، اب دوسری بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ سب چلائے رکھنا بھی پاکستانی حمکرانوں کی مجبوری ہے، ان حکمرانوں کو بھی اپنے تخت پانی پر تیرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، اگر وہ انکو سپورٹ نہیں کرتے تو وہ اپنی کرسیاں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔

نواز شریف کے طالبان کے ساتھ اچھے خاصے اور گہرے تعلقات ہیں جس کی مدد سے انہوں نے الیکشن مہم آسانی سے چلائی دیگر جماعتوں کو الیکشن مہم چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا پیش آیا، نواز شریف کے سر پر ان تمام عناصر کا آشیرواد ہے جن سے وہ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں لیکن عوام کا خون ایسے ہی کب تک بہتا رہے گا، ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے اس کے لئے اچھی آواز اٹھائی اور یہ انقلابی آواز ہر باشعور فرد کے لئے ہے، یہ وہی انقلاب ثابت ہوگا جو علامہ خمینی (رہ) نے لایا، یہ وہی انقلاب ثابت ہوگا جو شام اور دیگر اسلامی ممالک میں رونما ہو رہا ہے، ایک عظیم انقلاب کے لئے طاہر القادری کی کاوشیں راہ ہموار کر رہی ہیں، علامہ اقبال (رہ) نے اپنے کلام میں جس مومن کو سراہا ہے اور اپنے کلام میں مومن کی نشاندہی کی ہے وہ مومن ڈاکٹر طاہر القادری کی شکل میں آج ملت پاکستان کے پاس ہے۔

حادثے ہی انسان کو سنبھلنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں، پاکستان اولیاء کرام کی دعاؤں سے بنا ہے جس وقت پاکستان بنا تھا پاکستان بننے میں متحد امت کا ہاتھ تھا، پاکستان بنانے میں اہل سنت، اہل تشیع، اہل حدیث سب کا ہاتھ تھا، تمام لوگوں نے مل کر ایک ساتھ پاکستان کا قیام عمل میں لایا، ایک ایسی سرزمین جو پاک اور پاکیزہ ہے، اس کے بنانے میں مجموعی طور پر مسلم امت کا ہاتھ ہے، اب سب کو مل کر اس کی بقاء کے لئے اقدامات کرنے ہونگے، اب جو پاکستان میں دہشتگردی ہے اس سے عنقریب قوم کو نجات ملے گی اور اولیاء کرام کی دعائیں بہت جلد رنگ لائیں گی، اور پاکستان عالم اسلام میں انقلاب کا ایک مرکز ثابت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: امام خمینی (رہ) نے مسئلہ فلسطین کو ایک بلند اور اول مقام دیا تھا اس کے بعد ان عرب دنیا میں تمام حکمران کیوں مسئلہ فلسطین کی حمایت سے خالی ہے جبکہ وہ اسلام دشمن عناصر کو پروان چڑھانے میں مصروف ہیں، کیا وجہ ہے اسکی۔؟

مولانا سید بلال احمد کرمانی: علامہ خمینی (رہ) کا آج کل کے عرب حکمرانوں سے کیا موازنہ کریں گے، ہمیں ان حکمرانوں کو علامہ خمینی (رہ) کے ساتھ ہرگز نہیں جوڑنا چاہیئے، علامہ خمینی کی دعوت انسانیت اور اسلام کی دعوت تھی، اور یہ عرب حکمران اپنے ٹولے اور خاندان سے متعلق دعوت دیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے حجاز مقدس کو سعودی عرب بنایا، حجاز مقدس کی افضلیت، بلندی اور برتری اپنے نام کردی، اسلئے ان حکمرانوں کو محسوس ہورہا ہے کہ اگر انہوں نے تمام ملت اسلامیہ کی بات کی اور مسلم امہ کے مسائل کی بات کی تو بالآخر انہیں سب سے پہلے اپنا تخت و تاج چھوڑنا پڑے گا، تو تخت و تاج چھوڑنے کو یہ اپنے بخت اور نصیب کی ناکارگی اور بدنصیبی مانتے ہیں، اگر فلسطین جیسے مسائل حل ہونگے تو عرب حکمرانوں کے تخت محفوظ نہیں رہیں گے اسی لئے یہ حکمران ایسے مسائل کے حق میں نہیں بولیں گے اور ان مسائل کی حمایت نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: مصر میں اخوانیوں پر فوج کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی کے بارے میں آپ کی تشویش۔؟

مولانا سید بلال احمد کرمانی: مصر میں جو بھی ہو رہا ہے قابل تشویش ہے، جنرل السیسی امریکہ کا آلہ کار ہے اور جنرل السیسی کو برسر اقتدار میں لانے میں سعودی عرب کا بھی بھرپور ہاتھ ہے، سعودی عرب چاہتا ہے کہ سیسی کے ہاتھوں اخوانیوں کے ہزاروں کیا لاکھوں کارکن قتل کئے جائیں، یہ دراصل مصر کے تمام آزادی پسند اور انقلاب پسند عوام کو تہہ تیغ کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایک تو ظاہری طور پر وہاں مظلومین کا خون رنگ لائے گا اور بہ باطن مصر، شام، فلسطین کہ جو انبیاء اور اولیاء کی سرزمین ہے، حضرات صحابہ اور اہل بیت اطہار (ع) کی سرزمین ہے، اہل بیت اطہار اس میں موجود ہیں انبیاء اور اولیاء خدا اس زمین میں موجود ہیں، آئمہ اور مجتہدین اس سرزمین میں موجود ہیں، شام اور مصر ہی دشمن اور باطل کی ناپاک سازشوں کا قبرستان ثابت ہوگا اور یہاں باطل ختم ہوگا یہی موجودہ جنگ باطل کو سرنگوں کرنے پر مجبور کردے گی۔

اصل میں جب آپ سعودی عرب کی بنیاد دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ سعودی عرب کچھ بھی نہیں ہے وہ بس امریکہ کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے، اس لئے جہاں جہاں بھی امریکہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرے گا وہاں سب سے پہلے وہ سعودی عرب کو میدان میں لائے گا، اور استعمال کرے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو حرمین شریفین کے خادمین ہیں وہ انہی خادمین کے ذریعہ مسلمانوں کو مار رہے ہیں لیکن ہمیں ہرگز یہ دھوکہ نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ خادمین حق پر ہیں بلکہ انکی اصلیت سے ہر مسلمان کو واقف ہونا چاہیئے، مسلمانوں کو سعودی حکمرانوں کی یہ باتیں اور رویئے یاد رکھنے چاہیئے اور ان کے اصل چہروں کی پہچان کرنی چاہیئے، کل حالات ٹھیک ہو جائیں تو ہم ان حکمرانوں پر پھر سے اعتماد نہ کر بیٹھیں، ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حکمران باطل کے آلہ کار ہیں۔ اخوان المسلمین شعوری طور پر مسلمان ہیں، مغربی قوتیں جانتی ہیں کہ اگر یہ لوگ مصر میں حکومت میں رہے تو وہاں پر یورپ پنپ نہیں سکتا، باطل قوتیں وہاں پر پنپ نہیں سکتی، افغانستان، پاکستان، عراق و شام میں کیا ہو رہا ہے، میں گلوبل مسلم دنیا کی بات کر رہا ہوں، مسلمانوں کو باطل قوتیں اس وقت ایک ہو کر مار رہی ہیں، اس وقت ضررورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا کو ایک ہو کر رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیوں سعودی عرب کے نام نہاد حکمران مصر و شام میں ہونے والی خون ریزی پر نہ صرف خاموش بلکہ استعمار و استکبار کی کھل کر حمایت بھی کرتے ہیں اور مالی معاونت بھی۔؟

مولانا سید بلال احمد کرمانی: شاید آپ سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کے خیرخواہ ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، نہیں کوئی بادشاہ اسلام کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، آپ کن بادشاہوں کی بات کر رہے ہیں، اور ان بادشاہان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے، حرمین شریف ہمارے اہم اسلامی مراکز ہیں، ان مقدس جگہوں پر جو امام ہیں ان کے جمعہ کے خطبے امریکہ سے بن کر آتے ہیں۔ مغرب نے سعودی حکمرانوں کو خرید لیا ہے اسلئے سعودی شاہ جو بھی کچھ کہتا ہے اپنے آقا امریکہ کے حکم کی پیروی میں کہتا ہے اور کرتا ہے۔ آخر یہ کون سا اسلام ہے کہ مصر میں ایک سلیکٹڈ و الیکٹڈ مسلم حکومت ہے اور اس کے صدر مرسی ہیں، اس کی حکومت آپ اچانک ختم کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں آپ ملٹری رورل کی حمایت کر رہے ہیں، افسوس کا مقام ہے۔ عالم اسلام میں نوجوانوں کی اسلام ناب پر قربان ہونے کے لئے آمادگی سعودی عرب اور سعودی عرب کے آقاوں کے لئے خطرہ ہے، اگر یہ مسلم نوجوان نسل بیدار ہو گئی تو مغربی قوتوں کی خیر نہیں ہے، اسلئے بیداری کی لہر اور دین اسلام کی جانب نوجوانوں کی رغبت کی وجہ سے سعودی عرب حکمرانوں کو اپنے تخت اب لگ رہے ہیں کہ وہ پانی پر تیر رہے ہیں، انشاءاللہ عنقریب وہ تخت پانی میں ڈوب جائیں گے اور اہل حق وہاں پر اور پوری دنیا پر حکمرانی کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 365917
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش