3
0
Saturday 2 Aug 2014 23:04

لائیک اور شئیر، چند وضاحتیں

لائیک اور شئیر، چند وضاحتیں

تحریر: سید قمر رضوی

پچھلے سوموار کو شائع ہونے والے مضمون "لائک اور شئیر" کی بابت چند وضاحتیں پیشِ خدمت ہیں۔ ان وضاحتوں کی ضرورت احباب کی جانب سے موصول ہونے والی آراء کے نتیجے میں محسوس ہوئی اور دوست اس موضوع پر اپنی رائے دینے کے لیے یقیناً اسی لئے آمادہ ہوئے کہ میں اپنا نقطہء نظر ٹھیک طریقے سے سمجھانے میں ناکام رہا۔
میرا مقصد دوستوں کو نہ تو سوشل یا الیکٹرونک میڈیا سے دور رکھنا ہے اور نہ ہی انہیں انٹرنیٹ اور دیگر جدید  وسائل کے استعمال سے روکنا ہے، بلکہ جو اس دور میں آج اور مستقبل کے تقاضوں سے خود کو ہم آھنگ نہیں کرے گا، زمانہ اسے اپنے پیروں تلے روندتا ہوا اپنی منزل کی جانب چلتا چلا جائے گا اور یہ ہوگا نہیں، ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے۔ رہبرِ معظم حضرت علی خامنہ ای صاحب نے بھی جوانوں سے اپنے حالیہ خطاب میں سائبر جنگ کے لئے مسلح ہونے پر زور دیا ہے اور جوان مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ سائبر وار کا واحد ہتھیار علم اور ٹیکنالوجی ہے جبکہ ہم سے مسلسل یہی غلطی ہو رہی ہے کہ ہم ٹیکنالوجی بنا علم و فہم کے استعمال کر رہے ہیں، جسکے نتیجے میں الٹے نتائج موصول ہو رہے ہیں۔

جو بات میں نے سمجھانا چاہی اور نہ سمجھا سکا، وہ یہی تھی کہ چونکہ سوشل میڈیا اس  وقت ہر انسان کو میسر ہے اور اسکے لئے نہ کسی قابلیت کی ضرورت ہے اور نہ کسی حیثیت کی۔ اس لئے خبروں، تاریخ، حالاتِ حاضرہ، مذہب، معاشرہ اور مستقبل کے بارے میں اس سے استفادہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ عموماً سوشل میڈیا کا کردار وہی ہے جو پچھلے معاشروں میں ضعیف احادیث، آدھی آیات، بلا سیاق و سباق اور پس منظر کے خبروں کے پھیلاؤ کا تھا۔ مثلاً نماز کے انکاری قرآن کی آیت "اور نماز کے نزدیک نہ جاؤ ۔۔۔۔ جبکہ نشے کے عالم میں ہو۔" میں سے پہلے حصے کو لے کر اپنے بے نمازی ہونے پر قرآن کی جانب سے مہر ثبت کروا کر سینہ اکڑا کر پھرتے رہے۔ انہیں یہ بھی اطمینان تھا کہ کسی کو قرآن کو کھول کر دیکھنے کی توفیق نہیں ہوگی کہ اس میں کیا رقم ہے۔ اس لئے قرآن کا نام لیکر جاہلوں کو بلیک میل کئے جاؤ۔ یہ خود کبھی بھی اس سے رجوع نہیں کریں گے۔ ایک حدیث کی مثال بھی لے لیتے ہیں کہ رسولِ اکرمؑ نے فرمایا کہ "عورت، مکان اور سواری منحوس ہیں۔" جبکہ رسولِ اکرمؑ سے اس بے تکی بات کی توقع بھی رکھنا سوئے ادب اور گھٹیا سوچ رکھنے کے مترادف ہے۔ دراصل آقاؑ نے فرمایا تھا کہ "برا ہو ان یہودیوں کا جو یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔ عورت، مکان اور سواری منحوس ہیں۔"

یہ کوئی نیا یا انوکھا دور نہیں ہے، یہ انہی ادوار کا تسلسل ہے۔ بس تقاضے اور ڈھنگ بدل گئے ہیں۔ واردات اور مقاصد وہی ہیں، بس طریقہ ہائے واردات بدل گئے ہیں، یعنی سچ کو چھپانا اور اگر نہ چھپ سکے تو ایسا توڑ مروڑ کر پیش کرنا کہ خدا کی پناہ۔ کل بھی سوشل میڈیا تھا۔ کل اسکا ذریعہ ابلاغ انسان کی طبعی زبان تھا جو "روکو! مت جانے دو" کہتی تھی اور سننے والے کا کان "روکو مت، جانے دو" سن کر الٹے نتائج اخذ کیا کرتا تھا اور یہی الٹے نتائج دراصل طاغوتی قوتوں کا اصل مقصد ہوتے ہیں، جبکہ آجکا سوشل میڈیا انسان کے ہاتھوں اور آنکھوں سے کھیل رہا ہے۔ یہ انفارمیشن کا دور ہے جہاں پلک جھپکنے سے بھی کم عرصے میں تختِ بلقیس کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے اور دیکھنے والوں کو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ اصلی بلقیس ہے یا اسکا بہروپ۔ علم رکھنے اور حاصل کرنے والوں کے لئے ایک نعمتِ عظمٰی اور عقل و شعور سے عاری لوگوں کے لئے زہرِ قاتل۔ اگر ہماری سمت درست ہو، یہ دور تعلیماتِ محمد و آل محمد ؑ کی ترویج کا سنہرا ترین دور بن سکتا ہے۔ 

اب مسئلہ یہی درپیش ہے کہ بے وقوف اور کج فہم افراد اس زہر کے ٹیکوں سے سارا معاشرہ چھلنی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اپنی اختراع کے مطابق ویب سائٹ یا  فیس بک پیج بنانا، اسے کسی امام، عالم یا جذباتی کشش رکھنے والی شخصیت کے نام سے منسوب کرنا، اس نام کے ذریعے سے لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنا اور پھر کچھ بھی چھاپ کر عوام کو لائیک اور شئیر کے گنجل میں الجھا کر رکھ دینا چوئنگ گم چبانے سے بھی زیادہ آسان کام ہے۔ ان تمام کاموں کے لئے نہ ہی فرصت درکار ہے، نہ ہی علم و تحقیق اور نہ ہی کسی سے تصدیق کی۔ یہاں ان گدھوں کی کوئی کمی نہیں جن کے لئے صرف مولا علی مشکل کشاء یا سیدالشہداء کا نام کافی ہے۔ ان جاہلانِ مطلق اور عاقبت نااندیش دانشوروں کو اتنا نہیں معلوم کہ معصوم ؑ ہستیوں سے کسی ایسی بات کو منسوب کرنا گناہِ کبیرہ ہے جو انہوں نے نہ کی ہو۔ یہ وہ خنجر ہے جو ایک روزہ دار کا روزہ تک ساقط کر دیتا ہے، لیکن یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ عمیرہ احمد، رضیہ بٹ، اشفاق احمد، ونسٹن چرچل وغیرہ کے ناولوں کے مکالمے تک رسولِ اکرم ؑ، حضرت علیؑ، بی بی فاطمہؑ کے اسمائے مقدسہ کے ساتھ دھڑا دھڑا چھاپے جاتے ہیں اور عقل کے اندھے معتقدین لائیک اور شئیر کی برسات میں اپنے ایمان اور اخلاص کو نجانے کس گھاٹی میں ڈبو رہے ہیں۔

دوسری بات جو میرا مطمعِ نظر تھی، وہ ذوات و مقاماتِ مقدسہ کا تقدس اور ادب تھا۔ میں نے عرض کی تھی کہ جو جو جسارتیں طاغوت کرتا رہا ہے، ہمیں خود کو اس جسارت اور گناہ کا حصہ بنانے سے محفوظ رکھنا چاہیئے۔ اسکے لئے حضرت یونسؑ کے مزارِ مقدس کی بے حرمتی کی ویڈیو کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ میرے خیال میں دو لفظوں کی یہ خبر ہی کسی غیرت مند مسلمان کی موت کے لئے کافی ہے، لیکن چونکہ ہم بے حس ہوچکے ہیں، اس لئے ہم پر ان دلسوز باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر یہ خبر کسی کو پہنچانا مقصود ہے تو بس اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے چہ جائے کہ ویڈیو ثبوت پیش کئے جائیں۔ میں نہیں جانتا کہ کیونکر ہماری غیرتِ ایمانی ایسے مناظر دیکھنا برداشت کرلیتی ہے۔ پھر نہ ہی ہمارے دل پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ ہی ہماری منجمد غیرت کو جوش یا ہوش آتا ہے۔ ہماری کوشش بس یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ میری ویڈیو کو دیکھیں، لائیک کریں، کمنٹ کریں، شئیر کریں اور میرے پیج کے ممبرز میں اضافہ ہو۔

ارے بھیا! تمہارے پیج کے ممبرز میں اضافہ ہوگیا تو تمہیں کیا فائدہ؟ کیا فیس بک تمہیں اسکا پیسہ دے رہا ہے؟ کیا زیادہ لائکس اور شئیرز سے آپ کو بھی فیس بک کے اسٹاک مارکیٹ کے شئیرز مل جائیں گے؟ کیا زکربرگ آپکے لئے ایک ملین ڈالر کا ایوارڈ اعلان کرے گا؟۔۔۔ نہیں۔۔۔ پس منظر کی دنیا کچھ اور ہی ہے۔ یہ سوشل میڈیا آپکے اور میرے لئے تفریح اور شغل ہوگا تو ہوگا، لیکن اسکے موجدوں اور سامری کے لئے یہ کچھ اور ہی ہے۔ مجاہدینِ اعظم معصومین ؑ کے فرامین کے مطابق بہترین جنگجو وہ ہوتا ہے جو دشمن کی زمین پر نہیں کھیلتا۔ ہم دعویٰ تو سائبر سولجر ہونے کا کرتے ہیں لیکن دراصل ایسی ُپتلی ہیں کہ جو ہمیں جہاں اور جیسے نچوانا چاہے، ہم حاضر ہیں۔ ہم حاضر ہیں سامری کے اشاروں پر ناچنے کے لئے جبکہ زبانوں پر "حاضر ہیں یا امامؑ" ہے۔

رہبرِ معظم نے ہمیں سائبر وار لڑنے کا حکم دیا ہے، لیکن یہ جنگ بغیر تربیت اور  اسلحے کے نہیں لڑی جاسکتی اور نہ ہی اسکا میدان صرف فیس بک یا ٹوئٹر ہے۔ سائبر دنیا کی کوئی حد نہیں۔ اس لئے ہمیں بھی لامحدود پیمانے پر زور آزمائی کرنا ہوگی۔ پہلے ہمیں اپنے اعتقاد، ایمان اور ثبات کو اس سطح تک لے جانا پڑے گا کہ حوادثِ زمانہ اور طاغوت کے حملے ہمارے قدم نہ اکھاڑ سکیں۔ پھر علم اور ٹیکنالوجی سے اپنے دفاع کے ساتھ ساتھ دشمن پر تابڑ توڑ حملے بھی کرنے ہوں گے۔ انفرمیشن اور انٹرنیٹ کی اس جنگ میں ہمارا ہر ہر تیر علم اور تحقیق کا تراشا ہوا وہ بہترین شاہکار ہونا چاہیئے جو سیدھا ہدف پر جاکر ایسا لگے کی کسی کے لئے کچھ کرنے کی کوئی گنجائش نہ چھوڑے۔
 
اسکے ساتھ ساتھ انبیاء، آئمہ اور دیگر مقرب ہستیوں سے متعلق کچھ بھی کہنے سے پہلے ہمیں تہہ در تہہ تحقیق کے ساتھ ساتھ ان ہستیوں کے مقام و مرتبے کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیئے کہ جو خدا نے انکو ودیعت فرمایا اور وہ خود بھی تمام حیات اس مرتبے کے محافظ رہے۔ عام لوگوں اور معصومینؑ میں فرق ضرور رکھیں، کیونکہ یہ فرق خدا نے رکھا ہے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہیں تو سمجھ لیجئے کہ ہم دشمن ہی کا آلہ کار بن چکے ہیں اور اپنے لشکر کی جانب تیر پھینک رہے ہیں۔ خدا ہمیں اس جنگ کو صحیح انداز میں لڑنے اور دشمن کو چِت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔ آمین۔

خبر کا کوڈ : 402663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
کہ معصوم ؑ ہستیوں سے کسی ایسی بات کو منسوب کرنا گناہِ کبیرہ ہے جو انہوں نے نہ کی ہو۔ یہ وہ خنجر ہے جو ایک روزہ دار کا روزہ تک ساقط کر دیتا ہے، لیکن یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ عمیرہ احمد، رضیہ بٹ، اشفاق احمد، ونسٹن چرچل وغیرہ کے ناولوں کے مکالمے تک رسولِ اکرم ؑ، حضرت علیؑ، بی بی فاطمہؑ کے اسمائے مقدسہ کے ساتھ دھڑا دھڑا چھاپے جاتے ہیں اور عقل کے اندھے معتقدین لائیک اور شئیر کی برسات میں اپنے ایمان اور اخلاص کو نجانے کس گھاٹی میں ڈبو رہے ہیں۔
Pakistan
Ap ki bat 100 % drust hy. Jo auchi bri ya glt sahi news I os ko like kia aur khush ho gay k mri zma dari pori ho gai. . Its totl rong
VERY GOOD
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش