0
Sunday 6 Jul 2014 23:56

عالمی دہشتگردوں کیخلاف فوجی آپریشن کی حمایت و مخالفت و اثرات

عالمی دہشتگردوں کیخلاف فوجی آپریشن کی حمایت و مخالفت و اثرات
تحریر: ارشا دحسین ناصر

جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کراچی پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان کیلئے ان سے مذاکرات کا کھیل جاری رکھنا خاصا مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا تھا، لہذا افواج پاکستان نے دہشت گردی کے مراکز شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا ہے، جس میں مختلف تجزیہ کار اور حالات کا ادراک رکھنے والے دانشور اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ طالبان اور تکفیری گروہوں سے قریبی تعلقات رکھنے کی وجہ سے مذاکرات پر اس قدر زور دینے والی نون لیگی حکومت نے عساکر پاکستان کے اس فیصلہ کو با دل نخواستہ قبول کیا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بعض صحافتی حلقے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب فوجی آپریشن کو حکومت اور فوج کے درمیان جاری اختلاف کی وجہ قرار دے رہے ہیں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں وسیع پیمانے پر جاری فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے اس آپریشن کے ہدف کو شمالی وزیرستان سے ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کو بلاامتیاز ختم کرنا قرار دیا ہے۔ 

میڈیا ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ فوجی آپریشن میں ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کو بلاامتیاز ختم کیا جائے گا۔ جبکہ سرکاری ٹی وی پر میاں نواز شریف کی تقریر بعض سیاسی رہنماؤں منجملہ عمران خان نیز صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی کے ان دعووں کا جواب بھی کہا جاسکتا ہے، جس میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا ہدف صرف غیر ملکی دہشت گردوں کو ختم کرنا ہے۔ اسی لئے پاکستان کے وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ ضرب عضب فوجی آپریشن کا فیصلہ تمام مسائل کا بھرپور جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمہ تک یہ فوجی آپریشن جاری رہیگا۔ 

صوبہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے، جو کسی بھی طور فوجی آپریشن کے حق میں نہیں ہے، جس کے باعث اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ درون خانہ ان کی مدد اور حمایت دہشت گرد گروہوں کیساتھ ہو، جو یقیناً افواج پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم کو یک زبان ہو کر ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے قلع قمع کرنے کیلئے افواج پاکستان کی نصرت و مدد کرنی چاہیئے، اگر حکومت تھوڑا سا عقل مندی کا مظاہرہ کرے تو اس حوالے بڑا بہترین ماحول بن سکتا ہے۔ آپریشن کی حمایت میں عوامی شمولیت کے عملی مظاہرے سامنے آنے چاہیں، تاکہ قوم کا بچہ بچہ ایسا محسوس کرے کہ اس کے گھر میں دشمن گھس آیا ہے جس کو ہمت، طاقت اور استقامت سے نکال باہر کرنا ہے۔

کراچی انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر حملہ درحقیقت حکومت و فوج کے لئے بڑی توہین، عالمی سطح پر بدنامی نیز طالبان کے ساتھ حکومت کے امن منصوبے و مذاکرات کی کھلی و عملی مخالفت تھی، جس کا اظہار طالبان دہشت گردوں کی طرف سے پہلے بھی کئی ایک بار ہوچکا تھا، اب شائد افواج پاکستان نے اسے بہت زیادہ محسوس کیا اور یہ جانا کہ بس پانی سر سے گذر چکا ہے۔ پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں نے فوجی آپریشن کے بارے یہ رائے دی تھی کہ یہ صرف حکومت کے امن منصوبے کے مخالفوں کیخلاف ہے، جبکہ میاں نواز شریف نے قوم کے نام اپنے پیغام میں اس رائے کو مسترد کر دیا۔ اس آپریشن کی اہمیت اس حوالے سے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن میں دہشت گردوں کی نابودی کے علاوہ اس علاقے میں فوج کے داخل ہونے اور اس پر فوج کے تسلط کے بارے میں حکومت کے لئے موقع فراہم ہوگا۔
 
پاکستان کے وزیراعظم کا یہ بیان کہ فوج دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے بعد اس علاقے کا انتظام حکومت کے زیر نظر خود چلائے گی قابل غور ہے، جبکہ قبائلی علاقوں میں فوج کا تسلط مرکزی حکومت کے لئے یہ موقع فراہم کرے گا کہ وہ ان علاقوں میں آپریشن کی کامیابی کے بعد لوگوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے کام کرسکے۔ اس لئے کہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں بے روزگاری اور معاشی مشکلات کے باعث اس علاقے کے جوان دہشت گرد گروہوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور وہ انھیں اچھی زندگی دینے کا وعدہ کر لیتے ہیں۔

ملک کے کئی سنجیدہ علماء بالخصوص علما اہلسنت یعنی سنی اتحاد کونسل کے فتویٰ سیکشن نے اس آپریشن کے حق میں باقاعدہ فتویٰ جاری کیا ہے اور فوجی آپریشن کی ہمہ گیر حمایت اور دہشت گردوں سے تسلیم ہونے کے مطالبے نے حکومت و فوج کو پہلے سے زیادہ پرامید کر دیا ہے، اس لئے کہ حکومت و فوج کو تشویش تھی کہ دہشت گرد گروہوں کو بعض حلقوں کی معنوی حمایت پاکستان کو بدامنی سے دوچار کر دیگی، اس لئے علماء اہلسنت کی جانب سے طالبان کی مذمت اور فوجی آپریشن کی حمایت میں سامنے آنے کو اہمیت حاصل ہے جبکہ اس حوالے سے بھی افواج کی کامیابی شمار کی جا رہی ہے کہ آپریشن کی مخالف جماعتیں زیادہ زور نہیں ڈال رہیں۔ اسیطرح اہل تشیع کی طرف سے جو دہشت گردی کے سب سے زیادہ متاثرین ہیں، بھی فوجی آپریشن کی حمایت کی جا رہی ہے، البتہ یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اس آپریشن کا دائرہ ان مراکز و مدارس تک پھیلایا جائے جو پاکستان کے گلی کوچوں میں انہیں تخریب کاری و سہولیات بہم پہنچانے کا کام کرتے ہیں، تاکہ یہ ملک دشمن دہشت گرد دوبارہ پنپ نہ سکیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو قبائلی علاقوں میں کئے جانے والے آپریشن کے ثمرات و مقاصد پر پانی پھر جانے کا اندیشہ رہیگا۔

دہشت گردی کے حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا موجودہ فیز مقامی یا علاقائی نہیں ہے بلکہ یہ عالمی ایجنڈا ہے، جس کا مقصد ایسے عناصر کے ذریعے مضبوط اسلامی مملکتوں کو تقسیم کرنا اور ان کی جغرافیائی سرحدوں کو ہمیشہ کیلئے خطرات سے دوچار رکھنا ہے۔ شام، افغانستان، عراق اور پاکستان کو اسی مقصد کیلئے اس آگ میں جھونکا جا رہا ہے، فرقہ واریت کو اس وقت جس سطح پر ابھارا گیا ہے، اس کے نقصانات اور اثرات ہماری جغرافیائی سرحدوں کی تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اس پر بحرین، قطر اور سعودی عریبیہ کی طرف سے ان ممالک میں عوامی تحریکوں کو کچلنے کیلئے کرایے کے فوجی مہیا کرنے کے دعوے آتے رہے ہیں جبکہ دہشت گردوں کو شام میں جاری امریکی و اسرائیلی مسلط کردہ خانہ جنگی میں ایندھن کا کام کرنے والے طالبان و شدت پسند عناصر کو بآسانی پہنچانے کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔
 
عجیب بات ہے کہ اسلام کے دعویدار اور جہاد کے یہ عاشق کسی اسلام دشمن طاقت کیخلاف برسر پیکار دکھائی نہیں دیتے بلکہ ان کا ہم و غم اور مقصد و محور اسلامی مملکتیں ہی ہیں، انہیں اسرائیل تو دکھائی ہی نہیں دیتا کہ وہ اپنے تین لڑکوں کی موت کا بدلہ سینکڑوں فلسطینیوں کی گرفتاری اور ان پر بدترین حملوں کی شکل میں لے رہا ہے، مگر اسے کسی القاعدہ، کسی داعش، کسی طالبان سے کوئی خطرہ نہیں، وہ آج بھی حماس سے خطرہ محسوس کر رہا ہے یا حزب اللہ سے۔ اسی لئے اسرائیل کے ان نمک خواروں کی کارروائیاں لبنان میں بھی جاری ہیں، جہاں یہ بیگناہوں کو بم دھماکوں اور دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہ حقیقت دنیا پر واضح ہو چلی ہے کہ داعش و القاعدہ کے پس پردہ کون کارفرما ہے، اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ یہ لوگ بہ ظاہر اسلام کے نام لیوا ہیں مگر ان کا ہر عمل اسلام کی بدنامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

جن علاقوں میں یہ لوگ نام نہاد حکومت قائم کرچکے ہیں، وہاں معمولی جرائم پر جو سزائیں دی جا رہی ہیں، اس سے ان کے فہم اسلام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ماضی میں ایسا ہی سب کچھ افغانستان میں ہوتا ہم دیکھ چکے ہیں، جہاں نماز نہ پڑھنے پر بھی چوکوں میں کوڑے مارے جاتے تھے، اور خواتین کی تعلیم مکمل بند کر دی گئی تھی، اب شام و عراق میں بھی ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں معمولی باتوں پر سفاکانہ انداز میں گردنیں اڑا کر رعب و دبدبہ پیدا کیا جا رہا ہے، تاکہ سب لوگ خوف کے عالم میں مطیع ہوجائیں۔ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ ان عناصر کیساتھ مغرب، امریکہ، فرانس اور کئی یورپی ممالک کے دہشت گرد بھی شامل ہیں، جس پر ان ممالک کے ذمہ دار زیادہ تشویش ظاہر نہیں کر رہے اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی بندوبست کیا ہے کہ مزید نوجوانوں کو ان کیساتھ شامل ہونے سے روکا جائے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی چالاکی سے یہ ممالک اپنے ملکوں کے ان دہشت گردوں سے جان چھڑوا رہے ہیں۔

ظاہراً ان کا خیال یہی ہے کہ یہ لوگ شام یا عراق میں مر کھپ جائیں گے اور ان کی واپسی نہیں ہوگی مگر یہ بھول ہے، یہ غلاظت اور گندگی جسے دوسروں کیلئے پیدا کیا گیا ہے، یہ گڑھا جسے دوسروں کیلئے کھودا گیا ہے، اس میں اسے کھودنے والے ضرور گریں گے، اور سزا پائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی سے اصل اور نقل کا پتہ چل رہا ہے، لوگوں پر حقائق آشکار ہو رہے ہیں، دنیا جس حق کی متلاشی ہے وہ اسے رفتہ رفتہ نکھر کر سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے۔ انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب مشرق و مغرب سے عدل کی عالمی حکومت قائم کرنے والی ہستی کے یاوران و ناصران لشکر خدا بنا کر ظالمین کو نابود کر دیں گے اور مظلوم و ستم رسیدوں کو ان کا حق دلوائیں گے، دنیا میں خوشحالی آئیگی اور زمین اپنے خزانے اگل دیگی۔
خبر کا کوڈ : 397723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش