0
Friday 26 Sep 2014 10:11
کلام نور

حضرت امام تقی جواد (ع) کی چند خوبصورت تربتیی احادیث

حضرت امام تقی جواد (ع) کی چند خوبصورت تربتیی احادیث
ترجمہ و تشریح: علامہ صادق تقوی 
مشاور خانوادہ و جوانان


الف۔ مومن کو کن اہم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟!
1۔ الْمُؤمِنُ يَحْتاجُ إلى ثَلاثِ خِصالٍ: تَوْفيقٍ مِنَ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ، وَ واعِظٍ مِنْ نَفْسِهِ، وَقَبُولٍ مِمَّنْ يَنْصَحُهُ.
ترجمہ: مومن کو تین خوبیوں کی ضرورت ہوتی ہے:
1۔ اللہ کی جانب سے عمل کیلئے ملنے والی توفیق
2۔ نفس کا نصیحت کرنا
3۔ کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت کا قبول کرنا
تربیتی نکات:
1۔ مومن انسان کو اپنے ایمان کی سلامتی، اس ایمان کے نتیجے میں انجام دیئے جانے والے عمل کی بہتری، دنیوی ترقی اور اخروی نجات کیلئے تین صفات کا اپنانا لازمی و ضروری ہے!
2۔ انسان کو نیک عمل، کامیاب زندگی اور اچھے کام کرنے کیلئے توفیق کی ضرورت ہوتی ہے۔
3۔ اللہ تمام بندوں کو یکساں توفیق عطا کرتا ہے، یہ بندے ہوتے ہیں جو نعمت، وقت اور فرصت کے لمحات کو ضائع کرکے بے توفیق ہو جاتے ہیں۔
4۔ اللہ کی عطا کردہ توفیق ہی سے انسان عمل کرتا ہے تو وہ اللہ کی جانب سے مزید توفیقات کو حاصل کرنے کا حقدار قرار پاتا ہے۔
5۔ ایک کامیاب انسان کیلئے جہاں بیرونی نصیحت، ناصح اور خیر خواہ کی ضرورت وہتی ہے، وہیں لازمی ہے کہ انسان کے اندر سے اس کا قلب و ذہن اور فکر و سوچ اُسے نصیحت کرنے والی ہو۔ بیرونی نصحیت یقیناً راہ گُشا ہوتی ہے لیکن اندرونی نصیحت انسان کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
6۔ نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو سننا انسان کی نجات میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

ب: کس کی بات کیسے سنیں؟!
 مَنْ أصْغىٰ إلىٰ ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كَانَ النّاطِقُ عَنِ اللّٰہِ فَقَدْ عَبَدَ اللّهَ، وَ اِنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ.
ترجمہ: جو کسی بھی گفتگو کرنے والے کی باتوں کو توجہ اور دھیان سے سنے (اس کی جانب مائل ہو اور اسے پسند کرنے لگے) تو وہ اُس کا غلام اور بندہ ہے، اور اگر وہ گفتگو کرنے والا اللہ (اور اس کی شریعت و احکام دین) کی باتیں کرے تو (گویا) اُس (سننے والے) نے اللہ کی عبادت کی اور اگر وہ بولنے والا زبان شیطان کا ترجمان ہو (اور مادیت اور ہوا و ہوس کی باتیں کرے) تو وہ (دھیان اور توجہ سے سننے والا) شیطان کا غلام اور بندہ کہلائے گا!!

تربیتی نکات:
1۔ اصغیٰ یعنی بات کرنے والے کی بات کو نہ صرف دھیان و توجہ سے سننے والا لیکن ساتھ ہی اُسے اپنا دل دینے والا۔
2۔ اصغیٰ فعل ماضی ہے یعنی جس نے بھی ایک بار کسی کو بات کو دھیان و توجہ سے سنا اور اپنا دل دے بیٹھایا، ممکن ہے کہ ایسے سننے والے کم ہوں لیکن بولنے والے بہت سے مل سکتے ہیں۔ یہاں امام نے ''ناطق'' کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کا معنٰی یہ ہوگا کہ بولنے والا! یہ بولنے اور گفتگو کرنے والا ہر دور اور زمانے میں پایا جاتا ہے، ماضی میں بھی، حال میں بھی اور مستقبل میں بھی۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ بولنے والا ہر عہد و زمانے میں پایا جاسکتا ہے لیکن دھیان و توجہ سے سننے والا اور اُسے دل دینے والا اپنے ارادے سے یہ کام کرے گا!
3- ''عَبَدَ'' کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ اُس نے عبادت کی یعنی بات کو دل دینے والے نے خود کو اس بات کرنے والے کا غلام بنا دیا اور اُس کا بندہ اور پرستش کرنے والا بن گیا۔
4۔ ''عَنِ اللّهِ'' کا اشارہ اس جانب ہے کہ یعنی اللہ کی جانب سے، اس کے حکم و منشاء کے مطابق، اگر ''مِنْ'' کا لفظ استعمال کیا جاتا تو جملے میں وہ خوبصورتی پیدا نہ ہوتی۔ ''عَنِ اللّهِ'' یعنی بظاہر اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ جو اللہ تک پہنچے اور پھر اللہ کی طرف اور اس کی بارگاہ سے اس کے حکم و فرمان کے مطابق کوئی بات کرے۔
5۔ جب ''عَنِ اللّهِ'' یعنی اللہ کی طرف و بارگاہ سے اس کی مرضی و منشا کے مطابق کہہ دیا تو اس کا لازمی معنٰی یہ ہوگا کہ ایسا انسان ایسی ہی بات کرے گا جو اللہ کی مرضی کے عین مطابقت رکھتی ہوگی۔

6۔ اللہ کی باتوں کو بیان کرنے والے کا گرویدہ ہونے والا ایسا ہے جیسے اس نے اللہ کی عبادت کی۔ یہاں سے اللہ کی جانب سے بات کرنے والے کا مرتبہ سامنے آتا ہے، یعنی دل و جان سے خدائی مرضی و منشا کے مطابق کلام کرنے والا سننے والے انسان کو خدا کی عبادت تک پہنچا سکتا ہے۔
7۔ ''النّاطِقُ يَنْطِقُ'' کے الفاظ اِس بات کی حکایت کر رہے ہیں کہ ابلیس و شیطان کی جانب سے، وسوسے، خواہشاتِ نفسانی، دنیا پرستی اور مادیت نیز اللہ سے دور ہوجانے کی باتیں کرنے والا۔
8۔ ''يَنْطِقُ'' کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ کہ ابلیس و شیطان کی جانب سے بولنے والا ایسا نہیں ہے کہ وہ ھمیشہ ابلیس ہی کی جانب سے کلام کرے۔
9۔ ''عَنْ لِسانِ إبليس''، اوپر فرمایا تھا کہ "عَنِ اللہ" یعنی اللہ کے پاس سے کلام کرنے والا لیکن ''عَنْ لِسانِ إبليس'' یعنی ابلیسی زبان بولنے والا کا جملہ یہ بتا رہا ہے کہ شیطان و ابلیس انسان تک نہیں آسکتے، وہ صرف وسوسہ کرتا ہے، بہکاتا اور گمراہ کرتا ہے، یعنی بات کرنے والا ضروری نہیں ہے کہ ابلیس تک پہنچے یا ابلیس اس تک آئے بلکہ گمراہ کرنے کا کام وسوسوں، برے اور شیطانی خیالات سے بھی ممکن ہے۔
10۔ یہاں سے شیطانی وسوسوں کا شکار ہونے والے انسان کی پستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یعنی شیطانی و ابلیسی وسوسوں سے لبریز بات کرنے والا انسان اپنی بات کے سننے والے کو شیطان و ابلیس کی عبادت تک پہنچا سکتا ہے۔

پس اِن تمام تربیتی نکات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام محمد تقی (ع) یہ فرمانا چاہتے ہیں:
جو انسان کسی بھی گفتگو کرنے والے کی باتوں کو توجہ اور دھیان سے سنے اور اس کی جانب مائل ہو، اُس کی بات توجہ سے سننے کے بعد کہنے والے کو دل دے بیٹھے اور اسے پسند کرنے لگے تو وہ سننے والا اُس کا غلام، بندہ اور عبادت کرنے والا بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ گفتگو کرنے والا اللہ کی طرف و بارگاہ سے اُس کی مرضی و منشا اور خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بات کرے اور دین کی شریعت و احکامات کو بیان کرے تو گویا اُس سننے والے نے اللہ کی عبادت کی اور اگر وہ بولنے والا شیطانی وسوسوں کا شکار ہو کر زبان شیطان کا ترجمان بن جائے اور مادیت اور خواہشاتِ نفسانی کی باتیں کرے تو وہ دھیان اور توجہ سے سننے والا اور اس کی باتوں کو دل دینے والا شیطان کا غلام، بندہ اور اس کی پرستش کرنے والا ہو جائے گا۔

ج: بامقصد و بامعرفت عبادت!!
امام تقی الجواد علیہ السلام کی ایک پُر معنٰی حدیث:
القَصدُ إلَى اللّه ِ تعالي بِالقُلُوبِ ، أبلَغُ مِن إِتعابِ الجَوارِحِ بِالأعمالِ ؛
(کتابخانہ احادیث شیعہ حدیث نمبر: 200680)
امام جواد علیہ السلام: دل سے خدا کے نزدیک ہونا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اِس بات کے کہ انسان اپنے اعضاء و جوارح کو (بے مقصد و خالی و کھوکھلے) اعمال سے خستہ حال کر دے۔
وضاحت: دل یعنی غور و فکر اور تدبر سے خدا کے نزدیک ہونا اعضاء و جوارح کو تھکانے والے ان اعمال سے زیادہ بہتر ہے جو خالی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔ انسان بعض اوقات بے مقصد، معرفت سے خالی اور بے ہدف اعمال بجا لا کر سمجھتا ہے کہ وہ اللہ سے قریب ہو رہا ہے، لیکن امام فرماتے ہیں کہ ایسا انسان صرف اپنے اعضاء و جوارح کو تھکاتا اور اپنے آپ کو خستہ حال اور ہلکان کرتا ہے۔
اسی لئے حدیث میں ہے: ایک گھنٹہ غور و فکر ستر سال کی (معرفت سے خالی اور بے ہدف) عبادت سے افضل ہے۔ اس لئے کہ یہ غور و فکر انسان کو ایسی بامعرفت عبادت کی جانب لے جاتا ہے جو ہزاروں سال سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں بامقصد و بامعرفت عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

د: برے دوست کے اثرات!!
إيّاكَ وَ مُصاحَبَةُالشَّريرِ، فَإنَّهُ كَالسَّيْفِ الْمَسْلُولِ، يَحْسُنُ مَنْظَرُهُ وَ يَقْبَحُ اءثَرُهُ.
ترجمہ: خبردار! ہوشیار! شریر، برے اور برائی رکھنے والے افراد سے دوستی نہ کرو، اِس لئے کہ وہ ایک ایسی زہریلی اور تیز دھار تلوار کی مانند ہے کہ جس کا ظاھر خوبصورت اور اثر انتہائی برا اور خطرناک ہے۔
تربیتی نکات:
1۔ مصاحبت یعنی صحبت، ساتھ دینا، نشست و برخاست؛ یعنی تم پر لازمی ہے کہ تم ہوشیار و خبردار رہو کہ کسی برے دوست کے ہمنشین بنو!
2۔ ایسا برا دوست بظاہر چمکنے والی برندہ تلوار کی مانند ہوتا ہے کہ جس کا ظاہر اور چمک دمک انسان کیلئے دلربا کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس کا اثر دوستی کرنے والے انسان کے ایمان کیلیے تیز دھار والی تلوار سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
3۔ برا دوست کبھی اہنے آپ کو برا نہیں کہے گا بلکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو آپ کو خیر خواہ اور ناصح بنا کر پیش کرے گا۔

ھ: برادران دینی سے ملاقات کا فائدہ!
ملاقاةُ الاِخوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَ إ نْ كانَ نَزْرا قَليلا.
ترجمہ: اچھے دوستوں اور برادران دینی سے ملاقات دل کی نوراینت کا سبب نیز عقل و دانائی کے بڑھنے کا عامل بھی ہے، خواہ کم اور مختصر وقت ہی کیلئے کیوں نہ ہو۔
تربیتی نکات:
1۔ دینی برادران سے ملاقات اتنی ہی ضروری ہے جتنا کم عقل، کند ذھن، برے دوستوں اور مکار اور جھوٹوں سے اجتناب۔
2۔ ہر ملاقات کا اپنا فائدہ ہوتا ہے، اچھے دوست اور برادران دینی سے ملاقات کا اچھا فائدہ اور برے دوستوں سے ملاقات کا اپنا منفی اثر۔
3۔ دل کی نورانیت کی حفاظت کیلئے ضروری ہے کہ انسان ایسے گناہگار افراد سے میل جول ترک کر دے جن کے گناہوں کا انسان پر اثر ہوتا ہے۔ اِسی طرح نورانیت قلب کو بڑھانے کیلئے برادران دینی سے ملاقات ضروری ہے، تاکہ ان کی اچھی باتیں، نیک نیتی، پاکیزہ عمل و کردار کا اثر ہوسکے۔
4۔ عقل اور عقلی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے ضروری ہے کہ دوسروں کے مفید تجربات سے استفادہ کیا جائے، نیک اور اچھے کردار کے حامل افراد نیک نیتی کی بنا پر دوسروں تک اپنے تجربات کو منتقل کرتے ہیں، تاکہ وہ زندگی میں شکست سے دوچار نہ ہوں۔
5۔ ضروری نہیں کہ اچھے دوستوں سے ملاقات کیلئے کوئی لمبا چوڑا وقت نکالا جائے اور زیادہ دیر تک ان کی نشست کو اختیار کیا جائے، بلکہ عقلمند انسان دوسروں کی اچھائیوں کو اپنا کر اپنا حصہ لے لیتا ہے اور غور و فکر کے ذریعہ اس میں وسعت و عمق پیدا کرتا ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اِن احادیث پر عمل کرنے والا قرار دے اور ہمیں امام جواد (ع) کے سچے پیروکاروں میں سے قرار دے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 411744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش