0
Wednesday 8 Jan 2014 22:17

جنیوا 2 کانفرنس اور سعودی عرب کی مانع تراشیاں

جنیوا 2 کانفرنس اور سعودی عرب کی مانع تراشیاں
اسلام ٹائمز- اب جبکہ جنیوا 2 کانفرنس کے انعقاد میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے سعودی عرب اس کانفرنس کو منعقد ہونے سے روکنے یا منعقد ہونے کی صورت میں کامیاب نہ ہونے کیلئے پورا زور لگانے میں مصروف ہے۔ امریکہ کی جانب سے دمشق کا اپنے کیمیائی ہتھیاروں کی نابودی پر راضی ہو جانے کے بعد شام کے خلاف فوجی آپریشن انجام دینے کے فیصلے سے عقب نشینی کے بعد سعودی حکام کی پوری کوشش رہی ہے کہ شام کے بحران کے سیاسی راہ حل کو بے فائدہ ظاہر کریں اور یہ ثابت کریں کے شام کے مسئلے کا حل صرف اور صرف فوجی کاروائی ہے۔ 
 
بین الاقوامی جنیوا 2 کانفرنس کو ناکامی کا شکار کرنے کیلئے سعودی عرب نے جو راستے اختیار کئے ہیں ان میں سے ایک شام کے صدر جناب بشار اسد کا اقتدار سے علیحدگی پر حد سے زیادہ اصرار ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے پیش کئے جانے والا یہ مطالبہ شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کے مطالبات سے مکمل ہماہنگی رکھنے کے ساتھ ساتھ جنیوا 1 کانفرنس میں طے پانے والے امور سے واضح تضاد کا حامل ہے۔ ریاض ایسی صورتحال میں صدر بشار اسد کی جانب سے اقتدار سے علیحدگی جیسے مطالبے پر زور دے رہا ہے جب جنیوا 1 کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے میں واضح طور پر عبوری حکومت کی تشکیل کی بات کی گئی ہے اور صدر بشار اسد کی جانب سے اقتدار سے علیحدگی سے متعلق کوئی اشارہ اس میں نہیں ملتا۔ مزید یہ کہ جنیوا 1 کانفرنس کے اعلامیہ میں اس بات پر تاکید کی گئی تھی کہ شام میں تشکیل پانے والی عبوری حکومت کے عہدیدار شام حکومت اور حکومت مخالف گروہوں کے باہمی اتفاق سے منتخب ہونے چاہئیں۔ 
 
لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سعودی حکام ایک ایسے ایشو کو ابھار کر جو شام کے حکومت مخالف گروہوں کی نظر میں انتہائی اہمیت اور حساسیت کا حامل موضوع ہے، صدر بشار اسد کا اقتدار میں باقی رہنے سے متعلق شامی باغیوں کے اندر پائی جانے والی ناراضگی اور غصے کی آگ کو شعلہ ور رکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی حکومت نے صرف اس حد تک رہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس وقت سعودی عرب شام کے مسلح دہشت گرد گروہوں خاص طور پر النصرہ فرنٹ اور داعش [دولہ الاسلامیہ فی العراق والشام] کو فوجی مدد دینے والی سب سے بڑی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سعودی حکمران اعلانیہ طور پر ان دہشت گرد گروہوں کو اسلحہ فراہم کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل بارہا اپنے بیانات میں شام کے مسلح دہشت گرد گروہوں کی فوجی مدد کو ایک بہترین اقدام قرار دے چکے ہیں۔ 
 
شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی برتری سعودی عرب کیلئے اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ سعودی حکام نے قلمون میں ان دہشت گرد گروہوں کی کامیابی کی خاطر شام کے ہمسایہ ملک لبنان پر بھی رحم نہیں کیا اور وہاں سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی خطرات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ قلمون شام میں تکفیری مسلح دہشت گرد گروہوں کا اصلی گڑھ تصور کیا جاتا ہے جس پر قبضے کا مطلب شام کے 60 سے 70 فیصد علاقے پر قبضے کے مترادف ہے۔ لبنان میں سیاسی عدم استحکام اور بدامنی پھیلنے کا قلمون میں تکفیری دہشت گروہوں کی کامیابی سے تعلق کو سمجھنے کیلئے آل سعود رژیم کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو جاری کردہ اس وارننگ پر غور ضروری ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ 
"قلمون میں جاری جنگ میں حزب اللہ لبنان کی جانب سے مداخلت کی صورت میں لبنان میں آگ لگا دی جائے گی"۔
 
سعودی حکام کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو دی گئی اس دھمکی کی حقیقی وجہ بھی یہ ہے کہ لبنان اور شام کے سیاسی حالات کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ درحقیقت سعودی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ شام میں فوج کو صدر بشار اسد کے حق میں اس وقت کامیابیاں حاصل ہونا شروع ہوئیں جب حزب اللہ لبنان ان کی مدد کو آئی۔ لہذا سعودی عرب اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ حزب اللہ لبنان کو لبنان کے اندر مشغول کر کے قلمون میں اپنے سامنے موجود ایک بڑی رکاوٹ سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ سعودی حکام اپنے اس مقصد کے حصول کیلئے لبنان میں فوج اور حزب اللہ لبنان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی سازش پر کاربند ہیں۔ یہ وہ سازش ہے جس کے بارے میں بعض باخبر ذرائع خبردار کر چکے ہیں۔ اسی مقصد کیلئے سعودی حکام لبنان آرمی کی طاقت کو بڑھانا چاہتے ہیں لہذا اس مد میں لبنان حکومت کو 3 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ دے چکے ہیں تاکہ وہ فرانس کی مدد سے لبنانی فوج کو جدیدترین اسلحے سے لیس کر سکے اور اس میں حزب اللہ لبنان کے ساتھ مقابلے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ لبنان میں نئی حکومت کی تشکیل میں رکاوٹیں پیدا کیا جانا، دہشت گردانہ بم حملے اور لبنان کی سیاسی شخصیات کا قتل وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے سعودی عرب اس ملک میں بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کو فروغ دینے کے درپے ہے۔ 
 
مزے کی بات یہ ہے کہ شام میں امن و امان کی بحالی کے خلاف ان تمام شیطانی اقدامات کے باوجود سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل خارجہ اور سیکورٹی امور میں وزیراعظم پاکستان کے مشیر عالی جناب سرتاج عزیز سے اپنی ملاقات کے دوران بعض ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:
"بعض بین الاقوامی قوتیں شام کے بحران کے حل کیلئے مناسب موقف پیش نہیں کر رہے اور ان کی جانب سے پیش کردہ موقف ناکامی کا شکار ہوا ہے جس کے باعث جنیوا 2 کانفرنس شام کے بحران کے حل میں زیادہ مفید ثابت ہوتی نظر نہیں آتی"۔
 
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل یہ دعوا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ:
"ہم اس بابت پریشان ہیں کہ ان بیانات کا مقصد جنیوا 2 کانفرنس کو اپنے اصلی راستے سے منحرف کرنا اور جنیوا 1 کانفرنس میں طے پانے والے معاہدے کو صحیح طور پر اجرا کرنے سے روکنا ہو سکتا ہے"۔ 
جناب سعود الفیصل نے مزید کہا:
"ہم دوبارہ لندن میں منعقد ہونے والی فرینڈز آف سیریا کانفرنس کے بیانئے پر تاکید کرتے ہیں اور امیدوار ہیں کہ جنیوا 2 کانفرنس کا نتیجہ شام میں ایک ایسی عبوری حکومت کے قیام کی صورت میں ظاہر ہو جسے وسیع اختیارات حاصل ہوں۔ اس عبوری حکومت کی تشکیل میں بشار اسد اور شام کے موجودہ حکام کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے"۔
 
شائد اسی وجہ سے لبنان کے ایک معروف روزنامے "الاخبار" نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے:
"ایسے وقت جب جنیوا 2 کانفرنس میں شرکت کے دعوت نامے تقسیم کئے جا رہے ہیں، سعودی عرب نے ایک منفی فضا پیدا کر کے یہ کوشش کی ہے کہ یا تو یہ کانفرنس منعقد ہی نہ ہو اور اگر منعقد ہو بھی جاتی ہے تو بے نتیجہ ختم ہو جائے۔ سعودی عرب نے اپنے اس اقدام کے ذریعے جنیوا 2 کانفرنس کے انعقاد کی راہ میں مائنز بچھا دی ہیں"۔ 
خبر کا کوڈ : 339046
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش