8
0
Monday 17 Nov 2014 00:58

ڈیموگرافی کی سیاست اور دنیا کی شیعہ دشمنی

Anti-Shia Politics of Demographics
ڈیموگرافی کی سیاست اور دنیا کی شیعہ دشمنی
تحریر: عرفان علی
 
ڈیمو گرافی کوئی برا لفظ یا اصطلاح نہیں، لیکن جب اسے بھی انسانیت دشمن مقاصد پر مبنی سیاست کے لئے استعمال کیا جانے لگے تو عالمی استکبار اور ان کے اتحادیوں کو بے نقاب کرنا اور ناکام بنانا ہم سبھی پر واجب ہوجاتا ہے۔ یونانی لفظ ڈیموز کا مصداق عوام ہوتے ہیں۔ ’’گرافی‘‘ لاطینی زبان سے اخذ کیا گیا ہے، معانی ہیں: تحریر، لکھنے یا ریکارڈنگ کا عمل یا طریقہ کار۔ شان الحق حقی صاحب نے اوکسفرڈ کی انگریزی، اردو لغت میں اس کا ترجمہ ’’مطالعہ جمہور‘‘ اور ’’جمہور نگاری‘‘ کیا ہے۔ ان کے مطابق پیدائش، اموات، امراض وغیرہ کے اعداد و شمار کا مطالعہ کہ جس سے معاشرتی حلقوں، طبقات وغیرہ میں بود و باش کی کیفیت معلوم کی جاسکے۔ ویبسٹر کی ڈکشنری میں لفظ ڈیموگرافکس کی تعریف میں لکھا گیا ہے کہ کسی (آبادی کی) ڈیموگرافک خصوصیات خاص طور پر ایسی کہ جو مارکیٹ ریسرچ اور معاشرتی تجزیہ و تحلیل کے لئے بلحاظ عمر، جنس، آمدنی وغیرہ ہو۔
 
امید ہے کہ یہ لفظ کافی حد تک سمجھ میں آگیا ہوگا۔ ڈیموگرافی میں جو شناخت یہاں بیان نہیں کی گئی اور جسے ’’وغیرہ‘‘ میں ڈال دیا گیا وہ انسانی آبادی کے لسانی، مذہبی، فکری و فرقہ وارانہ لحاظ سے اعداد و شمار ہیں۔ امریکا کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارہ سی آئی اے نے دنیا کے ممالک کے بارے میں ورلڈ فیکٹ بک مرتب کی ہے۔ اس میں مذکورہ حوالے سے غلط اعداد و شمار سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بزرگ امریکا کس اسلامی مکتب فکر کی اصل تعداد کو چھپاتا ہے اور کس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ لبنان سے شروع کرتے ہیں۔ سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کہتی ہے کہ لبنان کی کل آبادی 58 لاکھ سے کچھ زائد ہے اور یہاں مسلمان، کل آبادی کا محض 54 فیصد ہیں اور شیعہ و سنی دونوں ستائیس، 27 فیصد ہیں جبکہ مسیحی ساڑھے 40 فیصد ہیں۔ حالانکہ خود امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک سے شایع شدہ تحقیقی مقالوں اور کتابوں میں لبنان کے اثناu عشری شیعہ مسلمانوں کو فی صدی اعتبار سے سنگل لارجیسٹ آبادی تسلیم کیا جاچکا ہے۔
 
1998ء میں امریکا اور کینیڈا میں ایک کتاب شایع ہوئی، جس کا عنوان تھا: Ethnic Groups Worlwide : A Ready Reference Hand Book اور اس میں مصنف ڈیوڈ لیونسن (Levinson) نے لکھا کہ لبنان کی کل مسلمان آبادی (ملکی آبادی کا) 70 فیصد ہے۔ کل آبادی کا 30 فیصد مسیحی ہیں۔ شیعہ (یعنی اثناء عشری) کل آبادی کا 40 فیصد ہیں۔ اسی طرح مسلمان آبادی کا 60 فیصد شیعہ (یعنی اثناء عشری)، 30 فیصد سنی اور بقیہ 10 فیصد میں سرفہرست دروز ہیں اور کم تعداد میں علوی، اسماعیلی اور کرد بھی ہیں۔ اس کتاب کے مطابق مسیحی آبادی میں نمایاں طور پر کمی ہوئی ہے۔ امریکا کی برینڈائس یونیورسٹی کے کراؤن سینٹر دار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے ’’مڈل ایسٹ بریف‘‘ (نمبر 37) جون 2009ء میں پوسٹ ڈاکٹورل فیلو ایٹ کراؤن سینٹر ڈاکٹر یسری ہرزان کے ریسرچ پیپر کا عنوان تھا: Shia Community in Lebanon: From Marginalisation to Ascendancy یعنی لبنان میں شیعہ کمیونٹی، غیر اہم بنائے جانے سے حاوی یا برتر ہونے تک۔ 

مارجن سے مراد حاشیہ ہوتا ہے، یعنی کاغذ کے ایک طرف تھوڑی سی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے، یہاں مراد لبنان میں شیعوں کی وہ حیثیت جو حزب اللہ سے پہلے تھی۔ ڈاکٹر ہرزان نے لکھا کہ 1932ء کے بعد سے لبنان میں اب تک کوئی مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔ لیکن یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ سنگل لارجیسٹ (تنہا سب سے زیادہ تعداد والی) کمیونٹی ہے۔ انہوں نے جن کتب سے استفادہ کرکے تحقیقی مقالہ لکھا، ان میں ماجد حلاوی کی کتاب A Lebanon Defied جو 1992ء میں شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ مائیکل جونسن کی 2001ء میں شایع ہونے والی کتاب All Honourable Men: Social Origins of War in Lebanon، جولائی 2008ء میں شائع ہونے والی کتاب Shiite Lebanon: Transnational Religion and the Making of National Identities (History and Society of the Modern Middle East جو روسچینک شیئری آئزن لور کی تصنیف تھی۔ موخر الذکر خاتون نے یونیورسٹی آف شکاگو سے پی ایچ ڈی کیا اور لبنان ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ 

یمن کے بارے میں سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کہتی ہے کہ یہاں 2کروڑ 60 لاکھ سے زائد کی آبادی میں مسلمان 99.1 فیصد ہیں اور مسلمان آبادی کی 65 فیصد سنی اور 35 فیصد شیعہ ہیں۔ لبنان میں انہوں نے علوی، اسماعیلی، دروز الگ الگ شناخت کرکے دکھائے اور یہاں 35 فیصد شیعہ کون ہیں، محض زیدی ہیں یا دیگر بھی ہیں؟ یہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ جولائی 2008ء کو Yemen: The Conflict in Saada Governorate کے عنوان سے (Integrated Regional Information Networks (IRIN کا تجزیہ و تحلیل شایع ہوا، اس کے مطابق یمن میں 45 فیصد آبادی زیدی شیعہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی اپنی ویب سائٹ پر مذکورہ ادارے کا یہ تجزیہ موجود ہے۔ مشرق وسطٰی کے امور کے ایک نامور ماہر جو سفارتکار بھی رہے اور پروفیسر بھی، یعنی جارج لینک زووسکی۔ ان کی کتاب دی مڈل ایسٹ ان ورلڈ افیئرز کا پہلا ایڈیشن 1952ء کو شایع ہوا اور چوتھا ایڈیشن 1980ء میں۔ 2000ء میں وہ 85 برس کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔ مذکورہ کتاب کے باب چہاردہم میں یمن کی صرف دو بڑی مذہبی قوتوں کا تذکرہ کیا ہے، ایک زیدی شیعہ اور دوسرے شافعی سنی۔ جنوبی یمن یعنی عدن کی طرف کا علاقہ وہاں اکثریت شافعی سنیوں کی تھی۔ آج کہیں یمن کی سیاست میں آپ شافعی مسلمانوں کا نام سنتے ہیں، انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟ اس کا جواب تکفیری وہابی ہی دے سکتے ہیں! کیونکہ جنوب پر وہ قبضہ کرچکے تھے اور آج شیعہ حوثی زیدیوں کی حرکت انصار اللہ ان علاقوں کو امریکی سعودی ایجاد القاعدہ اور ان کے مقامی اتحادیوں سے آزاد کروانے کی جنگ میں مصروف ہیں۔
 
بحرین کی آبادی سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق 13 لاکھ سے زائد ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خلیج فارس کے اس جزیرے کی آبادی میں مسلمان 70.3 فیصد ہیں۔ مسیحی 14.5 فیصد، ہندو 9.5 فیصد، بدھ مت 2.5 فیصد اور یہودی ایک فیصد سے کم ہیں۔ سی آئی اے کی مکاری یہاں بھی دیکھی جاسکتی ہے، کیونکہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ بحرین کی کل عرب آبادی کتنی ہے؟ سب سے زیادہ اہم کہ مسلمان آبادی میں قاطع و غالب اکثریت اثناء عشری شیعہ مسلمانوں کی ہے، یہ کہیں نہیں لکھا گیا؟ پھر بھی سی آئی اے کا شکریہ کہ اس نے یہ لکھ کر اپنے جنگی بحری بیڑے کے میزبان اتحادی عرب بادشاہ کو بے نقاب کر دیا کہ بحرین کی آبادی میں خود بحرینی محض 46 فیصد ہیں۔ بحرین بھی براعظم ایشیاء کا ہی ملک ہے لیکن دیگر شناخت چھپانے کے لئے 45.5فیصد آبادی کو ایشیائی لکھا ہے۔ دیگر عرب 4.7 فیصد، 1.6 فیصد افریقی، اور ایک فیصد یورپی، جبکہ امریکی اور خلیج کاؤنسل ممالک کے شہریوں کو بھی بحرین کی وطنیت دے دی گئی ہے۔ امریکی ادارے نے شیعہ آبادی بیان کرنے کی زحمت ہی نہیں کی اور برطانوی وزارت خارجہ نے شیعوں کو دوتہائی آبادی یعنی 66 فیصد شمار کیا اور یہ اعداد و شمار اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دیئے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد ویب سائٹ کا وہ پیج (صفحہ) ہی غائب ہوگیا۔ برطانوی روزنامہ دی گارجین میں 3 مارچ 2011ء کو بحرین کی جمہوری تحریک کے بارے میں رپورٹ میں شیعوں کو کل آبادی کا 70 فیصد قرار دیا گیا حالانکہ بحرین کی 85 فیصد آبادی شیعہ ہے۔
 
سی آئی اے کے مطابق عراق کی سوا 3 کروڑ آبادی میں 60 سے 65فیصد آبادی شیعہ اور 32 سے37 فیصد سنی ہے۔ ان غلط اعداد و شمار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عراق کی عرب آبادی 75 فیصد سے 80 فیصد ہے۔ یعنی عراق کی 20 سے 25 فیصد آبادی غیر عرب ہے۔ ان میں سرفہرست کرد ہیں اور ترکمن اور آشوری بھی ہیں۔ کرد اور ترکمان میں شیعہ سنی دونوں ہی کی آبادی ہے۔ عربوں کی واضح اور قاطع اکثریت شیعہ ہے۔ عراق میں شیعہ آبادی 75 فیصد ہوا کرتی تھی۔ لیکن امریکا اور اس کے اتحادیوں نے یہاں بھی اپنی مکار ذہنیت کا مظاہرہ کرکے شیعوں کی قاطع اکثریت کو کم کرکے دکھایا ہے۔
 
تحریر طویل نہ ہوجائے، اس لئے موضوع کو سمیٹتے ہوئے عرض کر دوں کہ ایران کے بارے میں سی آئی اے کی فیکٹ بک کہتی ہے کہ کل آبادی 8کروڑ سے زائد ہے اور 99.4 فیصد مسلمان ہیں، ان میں شیعہ 90 سے 95 فیصد اور سنی 5 سے 10 فیصد ہیں۔ پہلے خود امریکی ادارے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو آبادی کا 20 سے 25 فیصد بیان کرتے تھے اور اب یہ تعداد کم کرکے 10 سے 15 فیصد کر دی گئی ہے۔ اب موازنہ کریں کہ 8کروڑ کی آبادی والے شیعہ ملک ایران کی پارلیمنٹ میں سنی اراکین کی تعداد 19 سے 25 کے درمیان رہتی ہے۔ یہ مذہبی لوگ ہیں نہ کہ سیکولر! پاکستان میں مذہبی شیعوں کے کتنے نمائندے ہونے چاہئیں، جبکہ اس کی آبادی ایران کی آبادی سے ڈھائی گنا زیادہ ہے یعنی 19 کروڑ سے بھی زائد۔ کم از کم 60 راکین قومی اسمبلی تو ہونے چاہئیں یا نہیں! 

انقلاب کے بعد ایران اور لبنان کے شیعہ مسلمانوں نے امریکا و یورپ کے ایجاد کردہ ناجائز ٹیسٹ ٹیوب بے بی اسرائیل کو ذلیل و رسوا کرکے رکھ دیا۔ عراق میں شیعوں نے امریکی افواج کو جمہوری، آئینی طریقوں سے انخلاء پر مجبور کر دیا اور اب لبنان میں حزب اللہ کی زیادہ سیاسی طاقت، یمن کے حوثی زیدیوں اور بحرین کے اثنا عشریوں کی اقتدار میں شرکت کے بعد کا ممکنہ منظر نامہ! اسی لئے ڈیموگرافی کی سیاست کھیل کر شیعہ مسلمانوں کے جائز بنیادی، انسانی، اخلاقی، سیاسی، ثقافتی و مذہبی حقوق غصب کئے جاتے رہے ہیں۔ اپنوں کی خدمت میں مودبانہ سوال کہ شیعہ علماء و قائدین نے ڈیموگرافی کی سیاست کے اس کھیل کے جواب میں آج تک کیا عملی اقدامات کئے ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 419858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اس قسم کے مقالہ میں ایران اور پاکستان میں شیعہ سنی نمایندگی کی بات کرنا درست نہیں ہے۔
Pakistan
سلام
آپ کی رائے کا احترام مگر یہ اس پروپیگنڈہ کا ردعمل ہے جو شیعہ مسلمانوں کے بارے میں تکفیریوں اور ان کے آقائوں نے پھیلایا۔ ایک خبیث گمراہ کن تبلیغاتی مہم کا ردعمل میری نظر میں غلط نہیں اور جس قسم کے مقالہ میں یہ بات کرنا درست ہو، اگر آپ وہ خود لکھیں تو ہم ممنون رہیں گے۔
باہر کی دنیا کا کیا رونا، اپنے ملک پاکستان میں بھی جی ایچ کیو و جرنیلوں کی سطح پر ڈیمو گرافی کی جنگ جاری ہے۔۔ پاکستان میں گلگت بلتستان اور کرم ایجنسی پاراچنار شیعہ اکثریتی علاقے تھے۔۔ جنرل ضیاء نے گلگت بلتستان میں ملاکنڈ و کوہستان کے وہابیوں کو داخل کروایا، اسی طرح کرم ایجنسی کے ساتھ ایف آر اورکزئی کا علاقہ شامل کرکے پہلے ایف آر کرم کا نام دیا گیا اور سن 2002ء میں گورنر افتخار نے منیر اورکزئی کی ایما پر اسے وسطی کرم کا غیر منطقی نام دیا گیا اور یوں کرم ایجنسی پاراچنار کی شیعہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور یہاں کے ترقیاتی فنڈز تک ایف آر کے وہابیوں کو دیئے گئے۔
Saudi Takferis Iran k demography ko tabdeel karny k leye iran k borders jesy Sistan Baluchistan mai Wahbio ko zaida bacy paidy karny k leye eik eik bachey ki paidesh par 6000$ dai rahey hai...Its BIGEST war of DEMOGRAPHY IN IRAN
شکریہ۔ ماشاء اللہ۔ دوست متوجہ ہیں۔ پاراچنار سمیت کرم ایجنسی اور گلگت بلتستان کے بارے میں، ایران کی سرحد پر جو ہو رہا ہے، اس کے بارے میں بھی لکھا جانا چاہئے تھا۔ بندہ میکرو سطح پر یہ بات کر رہا تھا۔ اب مائیکرو سطح پر لکھے جانے کی ضرورت ہے۔ بہت بہت شکریہ۔
United Kingdom
محترم لبنان میں ۱۹۹۲ء سے شیعہ اسپیکر نبی بری اور ان کی جماعت حرکۃ امل ایک ایک مضبوط سیاسی کردار رکھتی ہے اور آج تک حرکۃ امل کے پاس حزب ﷲ سے زیادہ سیٹیں ہیں اور لبنان کی پارلیمنٹ مین ایک فارمولے کے تحت شیعوں کے پاس ہمیشہ تیس سیٹیں رہی ہیں، تاریخ کو مسخ کرنے کا جو لائحہ عمل اپنایا گیا، اپ بھی اس میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف دنیا میں سب سے زیادہ احتجاج پاکستان میں ہوا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد ایران کے باہر سب سے زیادہ احتجاج ہمیشہ پاکستان میں ہوتے رہے ہیں، پاکستان کی سیاست میں شیعہ سیاست کرنا ناممکن ہے، کیونکہ یہاں شیعہ ابادی باقی ممالک کی طرح ایک جگہ پر آباد نہیں بلکہ شیعہ سنی اکٹھے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے صرف شیعت کے نام پر سیاست کرنا مشکل ہے، ہاں شیعہ ووٹ بنک سے استفادہ کیا جاسکتا ہے مگر اسکے لئے اتحاد ضروری ہے اور پوری قوم کو قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیں۔
محترم لبنان میں اسپیکر شیعہ ہوگا، یہ اتفاق رائے ۱۹۴۳ء ہی میں ہوچکا تھا۔ نبیہ بری تو بہت بعد کی بات ہیں۔ آپ یہ مقالہ پڑھیں: https://www.islamtimes.org/vdcd9z0ozyt0xx6.432y.html
Pakistan
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حضرت نقاد نے اپنی اصلاح کے بجائے یہ جھوٹا دعویٰ کیا ہے کہ وکی پیڈیا کا مطالعہ کرکے یہ مقالہ لکھا گیا لیکن ایک غیر جانبدار قاری کی حیثیت سے میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کیونکہ مقالہ نگار عرفان علی کی اس تحریر میں وہ ریفرنس بھی موجود ہیں جسے انہوں نے بنیاد بناکر یہ دلائل دیئے ہیں۔ افسوس کہ جو نقاد لبنان کے اسپیکر کا نام نبیہ کی بجائے نبی لکھتا ہو، وہ اپنے جہل کا اعتراف کرکے اصلاح کے بجائے جہالت پر مصر ہے۔ جواب جاہلاں خاموشی۔ فہیم رضا
ہماری پیشکش