1
0
Sunday 23 Nov 2014 21:55

دیوبند جماعتوں کا مسلکی اتحاد

دیوبند جماعتوں کا مسلکی اتحاد
تحریر: قسور عباس برقعی
 
گذشتہ دنوں اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں مسلک دیوبند کی سربرآوردہ جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ یہ اپنی نوعیت کا تیسرا اجلاس تھا۔ پہلا اجلاس سعودی عرب کے شہر مدینہ میں، دوسرا لاہور میں اور تیسرا اسلام آباد میں ہوا۔ اس اجلاس میں ملک میں کام کرنے والی مسلک دیوبندی کی جماعتوں اور اداروں نے ایک مسلکی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا، جس کا مقصد بیان کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے راہنما جناب فضل الرحمن نے کہا کہ یہ ایک فقہی اتحاد ہے۔ اجلاس کی میزبانی سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے بیٹے سید عطاءالمومن بخاری کی تنظیم، مجلس الاحرار نے انجام دی جبکہ انتظامی امور جماعت اہلسنت پاکستان کے کارکنوں کے ذمے تھے۔ اجلاس میں ایک گیارہ رکنی سپریم کونسل کا قیام عمل میں آیا، جس کی سربراہی جامعہ بنوریہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کو تفویض کی گئی۔ اس اتحاد کے امور کو چلانے کے لئے ایک رابطہ کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جس کا سربراہ سید عطاءالمومن بخاری کو بنایا گیا۔ سید صاحب ہی رابطہ کمیٹی کے اراکین کا چناؤ کریں گے، جس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
 
اس اجلاس میں شرکت کرنے والی اہم شخصیات میں بنوری ٹاؤن کے مہتمم و تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، اہلسنت والجماعت کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر خادم حسین ڈھلو، مجلس احرار پاکستان کے عطاء المومن شاہ بخاری، مولانا حنیف جالندھری، مولانا مفتی حمید اللہ جان، ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا خواجہ خلیل احمد، مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا حافظ حسین احمد، مولانا زاہد الراشدی، سید کفیل شاہ، مفتی محمد، مولانا اللہ وسایا، مولانا اشرف علی، مولانا محمد الیاس چنیوٹی، مولانا سعید سکندر، مولانا عبدالرؤف فاروقی، مولانا مسعودالرحمن عثمانی، مولانا امن ربانی، مولانا زبیر احمد صدیقی، مولانا قاضی عبدالرشید، مولانا سید یوسف شاہ، مولانا عمر قریشی، مولانا منیر احمد اختر، پیر عزیزالرحمن ہزاروی، قاضی مشتاق ارشد الحسینی، مولانا عبدالعزیز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ، ملکی سالمیت کے تحفظ، طاغوتی طاقتوں کے غلبے سے نجات، تحفظ ختم نبوت، مقام اہلبیت و صحابہ کے تحفظ، غیر ملکی کلچر اور فحاشی کے فروغ کی مذمت اور شیعہ سنی اختلاف کو فرو کرنے سے متعلق نکات شامل کئے گئے تھے۔ 

اجلاس کے میزبان سید عطاءالمومن بخاری نے مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے عسکری گروہوں کی اجلاس میں عدم شرکت کے حوالے سے کہا کہ چونکہ اس مقام پر ہم جہاد سے متعلق امور پر غور و فکر کے لئے جمع نہیں ہوئے تھے، لہذا ان گروہوں کو دعوت نہیں دی گئی۔ ملک کے مختلف حلقوں میں اس اتحاد کے قیام کے حوالے سے چہ مہ گوئیاں جاری ہیں۔ مختلف نوعیت کے سوالات ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں مسلک دیوبند کی جماعتوں کے کردار اور ان کی قوت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ بھی سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس اتحاد کے مختلف الخیال گروہوں میں اس یک رنگی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس اتحاد کے آئندہ کی ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونے والے ہیں؟ کیا یہ اتحاد فقط ملکی ضروریات کے مدنظر تشکیل دیا گیا یا اس کے پس پردہ خارجی عوامل بھی کارفرما ہیں۔؟ دیوبند عقائد کے حامل پیروکاروں پر مشتمل غیر مسلکی جماعتوں کو اس اتحاد میں شامل کیوں نہ کیا گیا ؟وغیرہ
 
ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لئے ہمیں پاکستان اور عالمی سطح پر مسلک دیوبند کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ مسلک قیام پاکستان سے پہلے سے سیاست میں دخیل ہے۔ اس مسلک کے بعض گروہ قیام پاکستان کے مخالف تھے اور بعض موافق۔ اس مسلک کے سرخیلوں نے انگریز سامراج کے خلاف قیام بھی کیا۔ افغان جہاد کے دوران میں اس مسلک کے پیروکار سوویت یونین کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بنے اور عسکری جدوجہد میں پیش پیش رہے۔ اسی دوران میں مسلک دیوبند اور سلفی ہم افق ہوئے اور انھوں نے عالمی سطح کی عسکری تنظیمیں قائم کیں۔ القاعدہ، طالبان، داعش، لشکر طیبہ، وغیرہ انہی دو مسالک کی نمائندہ تنظیمیں ہیں۔ 9/11 کے بعد سے بعض مسلمان ممالک کے خلاف ہونے والی جارحیت بنیادی طور پر انہی گروہوں کے خاتمے کے لئے شروع کی گئی یہ اور بات ہے کہ القاعدہ، طالبان اور داعش اب بھی موجود ہیں، تاہم وہ ممالک جن میں یہ تنظیمیں زیادہ فعال تھیں اب پتھر کے دور میں جاچکے ہیں۔
 
اسی طرح پاکستان میں مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والی عسکری تنظیموں منجملہ طالبان، لشکر جھنگوی، جنداللہ وغیرہ کے خلاف بھی سکیورٹی اداروں کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس اتحاد کے قیام کا مقصد دہشتگردی کے خلاف عالمی و علاقائی جنگ کے نتیجے میں ابھرنے والی صورتحال سے نبردآزما ہونے کی سبیل کرنا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مسلک دیوبند کی ان عسکری تنظیموں کے قائدین اور نوجوان اپنے سیاسی اکابرین سے چنداں خوش نہیں ہیں اور ان کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کے سبب ہی میدان جنگ میں وارد ہوئے۔ ممکن ہے کہ سیاسی اکابرین کا یہ اکٹھ عسکری تنظیموں میں پیدا ہونے والے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے عمل میں لایا گیا ہو۔ گمان اچھا ہے تاہم شواہد اس حوالے سے اطمینان بخش نہیں ہیں کیونکہ یہ سیاسی اکابرین ہمیشہ سے اپنے عسکری نوجوانوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ طالبان ہمارے بیٹے ہیں اور کبھی انہیں بھائی کا درجہ دیا جاتا ہے، کبھی کون شہید کی جنگ چھڑ جاتی ہے تو کبھی غلط مارا کا شور۔ سیاسی میدان میں لڑنے والے یہ اکابرین حکومت پاکستان کو بھی اپنی عسکری تنظیموں سے گفت و شنید کی دعوت اور تشویق دیتے رہتے ہیں۔ جب حکومت وقت اور ملک کے عسکری اداروں کے پاس آپریشن کے علاوہ کوئی راہ حل نہیں رہ جاتا تو پھر یہ اکابر میڈیا کی حد تک خاموشی کو بہتر خیال کرتے ہیں۔ 

جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا یہ اتحاد فقط ملکی ضروریات کے مدنظر تشکیل دیا گیا یا اس کے پس پردہ خارجی عوامل بھی کارفرما ہیں؟ تو اس کا جواب تلاش کرنے کے لئے بھی زیادہ زحمت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ اتحاد فقط ملکی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے اور علاقائی مقاصد کے تحت ہے تو ان مقاصد کے حصول کے لئے دیگر جماعتوں منجملہ جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی، تحریک احیائے خلافت، وغیرہ کے تحفظات کو مدنظر رکھا جاسکتا تھا اور اس اتحاد کو کوئی ایسا عنوان دیا جاسکتا تھا جس میں فرقہ واریت کا عنصر غالب نہ ہو، تاکہ یہ جماعتیں جو اپنے آپ پر مسلکی جماعت ہونے کا لیبل لگوانا پسند نہیں کرتیں، وہ بھی با آسانی اس جدوجہد کا حصہ بن سکتیں۔
 
یہ اتحاد کیوں تشکیل دیا گیا، کا جواب بھی انتہائی واضح ہے کہ انسانی معاشرے میں اتحاد کمیوں کو دور کرنے کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ یہ کمیاں مختلف درجے کی ہوسکتی ہیں، کہیں فعالیت کی کمی ہوتی ہے تو کہیں قیادت کی کمی، کہیں وسائل کی کمی ہوتی ہے تو کہیں علم کی کمی۔ بعض اوقات اتحاد مشترکہ دشمن کے مقابلے میں یک رنگی کے اظہار کا بھی باعث بنتا ہے۔ اتحاد میں بہرحال کئی پیغامات پنہاں ہوتے ہیں۔ اس اتحاد نے بھی معاشرے میں کئی ایک پیغامات پہنچائے۔ دیوبند مسلک کے اکابرین کے اجتماع نے دیگر مکاتب کے گروہوں میں بجا طور پر بے چینی کو جنم دیا ہے۔ اس بے چینی کا حتمی نتیجہ ان گروہوں میں بھی اتحادوں کی صورت میں سامنے آنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یوں ہمارا وطن عزیز بہت آسانی سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا شکار ہوجائے گا۔ اسی قسم کی تقسیم کا مشاہدہ ہم نے شام اور عراق میں بھی کیا۔ 

جہاں تک اس ملک کے ملکی سیاست پر پڑنے والے اثرات کا تعلق ہے تو یقیناً یہ اتحاد ملک میں بہت دوررس سیاسی اثرات کا حامل ہوگا۔ اس کا پہلا نتیجہ تو فرقہ مخالف کی اتحاد کی کوششیں ہوں گی۔ اسی طرح اس اتحاد میں شامل مختلف جماعتیں اب مجتمع ہوکر مشترکہ مفادات اور مقاصد کے لئے حکومت میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرسکیں گی۔ محبتوں کا وہ سفر جو پہلے خفیہ طور پر طے ہو رہا تھا، اب طشت ازبام ہو گیا ہے۔ بچھڑے ہوئے کارواں کا حصہ بن گئے ہیں، دور ہوجانے والے قریب آگئے ہیں۔ اب ملک میں نفاذ (دیوبندی) اسلام کی جدوجہد مل کر کی جائے گی۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ حل کیا ہو؟ میری نظر میں اس اتحاد کا جواب ایک اور مسلکی اتحاد نہیں ہے، بلکہ ہمیں فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر پاکستانیت کی بنیاد پر سوچنا ہوگا۔ تب جا کر ہم مشرق وسطٰی میں لگنے والی آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ (واللہ العالم)
خبر کا کوڈ : 421054
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

قسور عباس برقعی صاحب کے احترام کے ساتھ کہ ASWJ یعنی سپاہ صحابہ کے تبدیل شدہ نام کو جماعت اہلسنت نہ لکھیں۔ جماعت اہلسنت سنی بریلوی تنظیم ہے اور خود اہلسنت والجماعت یعنی جو سپاہ صحابہ نے نیا نام رکھا ہے، اس پر سنی مسلمانوں نے اعتراض کر رکھا ہے کہ وہ یہ نام استعمال نہ کریں۔
ہماری پیشکش