0
Tuesday 22 Apr 2014 22:49

ناراض بلوچوں کیساتھ مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کیلئے عملی اقدامات اُٹھانا لازمی ہیں، عبدالرحیم زیارتوال

ناراض بلوچوں کیساتھ مذاکرات سے قبل اعتماد سازی کیلئے عملی اقدامات اُٹھانا لازمی ہیں، عبدالرحیم زیارتوال

حاجی محمد خیر کے صاحبزادے عبدالرحیم زیارتوال ایڈووکیٹ 4 مئی 1954ء کو پیدا ہوئے۔ آپکا بنیادی تعلق کاواس ڈسٹرکٹ بلوچستان سے ہے۔ آپ نے ماسٹر اور ایل ایل بی کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے ممبر بھی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں آپ صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے اور کابینہ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ عبدالرحیم زیارتوال وزیراعلٰی بلوچستان کے پرنسپل سیکرٹری اور صوبائی وزیر اطلاعات و قانون پارلیمانی امور بھی ہے۔ عبدالرحیم زیارتوال سے موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور امن و امان کی مجموعی صورتحال کے بارے میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا آپکی موجودہ مخلوط حکومت میں وہ صلاحیت ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرسکے۔؟
عبدالرحیم زیارتوال: جو سوال صوبے کے حوالے سے آپ کر رہے ہیں میں یہی کہونگا کہ دنیا اُمیدوں پہ قائم ہیں۔ جو مسائل ہمیں درپیش ہیں، میں یہاں سے شروع کرونگا کہ بنیادی طور پر ماضی کی جو غلطیاں اور نظراندازی ہیں اور ہمارے لوگوں کو اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے نہیں لیا گیا۔ انہی وجوہات کی بناء پر یہ تمام معاملات اُبھرے ہیں۔ جہاں تک انسرجنسی کی بات ہے تو یہ سیاسی مسئلہ ہیں۔ لہذٰا سیاسی معاملات کو جمہوری و سیاسی طریقے سے مخلوط حکومت حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسکے علاوہ معاملات کو ٹھیک کرنے کیلئے لازمی ہے کہ آپکے پاس ادارے ہوں۔ ان اداروں کو مستحکم رہ کر اپنے کام کرنا ہونگے۔ لیکن ماضی میں اداروں کو برباد کرنے کے سواء کوئی پالیسی اختیار نہیں کی گئی۔ لہذا ہماری یہ کوشش ہے کہ تمام اداروں کو انکے پاؤں پر کھڑا کرے۔ حکومت ایک مشینری ہے جبکہ ادارے اسکے پرزے۔ لہذا جب تک پرزوں میں خرابی ہوگی تب تک مشین ٹھیک طرح سے کام نہیں کر پائے گی۔

اسلام ٹائمز: وہ تمام لوگ جنہیں ہم ناراض بلوچوں کے نام سے جانتے ہیں، پچھلے دس مہینے میں انکے ساتھ کتنی مرتبہ آپکی بات چیت ہوئی ہے۔؟
عبدالرحیم زیارتوال: ایک مرتبہ نہیں بلکہ بیسیوں مرتبہ محمود خان اچکزئی صاحب کہہ چکے ہیں اور میرے خیال میں محمود خان اچکزئی صاحب خیر بخش مری سے ایک یا دو مرتبہ ملے ہونگے۔ انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ جب تک آپ عام عوام کے حقوق انہے نہیں دینگے، تب تک مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اس وقت میں خود حکومت میں ہوں لیکن تب بھی کہتا ہوں کہ ہمارے تحفظات ہیں۔ عام آدمی کو روٹی چاہیئے۔ اب روٹی تو آسمان سے آنی والی نہیں ہے۔ اس صوبے کو قدرت نے جن چیزوں سے نوازا ہے، جب تک اسکے اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا۔ تب تک ان نعمتوں کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے قدرتی ذخائر زمین سے کب نکلے گی۔؟
عبدالرحیم زیارتوال: قدرتی ذخائر بلوچستان کی زمین سے تو نکلے گی مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگلے آدمی کا ارادہ کیا ہے۔ اب آپ پورے پنجاب کو صنعتی زون میں تبدیل کرچکے ہیں تو کیا یہاں پر بلوچستان کی مائنز کی صنعت کو ترقی دینے کیلئے اس نے کچھ نہیں‌ کرنا تھا۔؟ جس دن ہم پاکستان کیساتھ شامل ہوئے اس وقت شاہی جرگے میں قائداعظم محمد علی جناح صاحب کو کہا گیا کہ ہم آپکے پاکستان میں شامل ہو رہے ہیں لیکن آپکو ہمیں‌ معاشی لحاظ سے ترقی دینا ہوگی۔ لیکن آج تک اس معاہدے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

اسلام ٹائمز: فرنٹئیر کور بلوچستان کے بارے میں اکثر سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہیں۔ تو کیا آپ ایف سی پر آپکا کنٹرول ہے یا نہیں۔؟
عبدالرحیم زیارتوال: سابقہ حکومت کی کارکردگی پر تو میں کچھ نہیں کہونگا۔ لیکن اس وقت موجودہ حکومت نے وفاق سمیت تمام ریاستی اداروں‌ کے سامنے بلوچستان کی صورتحال واضح انداز میں رکھ دی ہے۔ ہمارے کوشش ہے کہ سب کو ایک پیج پر لائے۔ بلوچستان میں باغی تحریک اور انتہا پسندی کے مسئلے پر ہم نے تمام قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ہیں۔ لہذا پچھلے دس مہینوں میں معاملات کافی حدتک تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب ایف سی وفاقی اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں۔

اسلام ٹائمز: ناراض بلوچوں سے اب تک حکومت مذاکراتی عمل کو کیوں شروع نہیں کر پائی۔؟
عبدالرحیم زیارتوال: مذاکرات اتنا آسان مرحلہ نہیں ہے۔ اسکے لئے سب سے پہلے عملی طور پر ایسے اقدامات اُٹھانے ہوتے ہیں، جس سے اعتماد سازی ہو سکے۔ یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ مسخ شدہ لاشوں کا تھا۔ اب پچھلے چند مہینوں سے مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ جسے ہم بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ اب دوسرا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے۔ اس کیخلاف سپریم کورٹ سمیت سب نے آواز بلند کی ہے کیونکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے اسے حل کرنے میں وقت لگے گا۔ لہذا جب تک ہم اپنے ناراض دوستوں کے اعتماد کو نہیں جیت لیتے تب تک مذاکرات کیلئے جانا سودمند ثابت نہیں ہو سکتا۔

اسلام ٹائمز: سانحہ مستونگ کے بعد بلوچستان کے شیعہ ہزارہ قوم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کونسے اقدامات کر رہے ہیں۔؟
عبدالرحیم زیارتوال:‌ ہماری حکومت سے پہلے کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ خاص طور پر کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کافی بےگناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا لیکن ہم نے کوشش کی کہ سب سے پہلے ٹارگٹ کلنگ کے مسئلے کے حل کیا جائے۔ جس میں ہم کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ دوسری جانب اب مستونگ کا جو علاقہ ہے وہ 700 کلومیٹر کے ایریا پر مشتمل ہیں۔ لہذٰا وہاں پر سکیورٹی مسائل ہمیں پیش آ رہے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے زائرین کیلئے فضائی سروس شروع کرنے کا اعلان کیا۔ جسکے لئے ہم وفاقی حکومت کے انتہائی شکر گزار ہیں۔ اسکے علاوہ یہ مسئلہ پورے ملک کو درپیش ہیں۔ انتہا پسندی کی وجہ گذشتہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ جس کا مقابلہ کرنے کیلئے وقت درکار ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا زمینی راستے پر دہشتگردوں کیخلاف کاروائی کرنے کی بجائے زائرین کو فضائی سروس فراہم کرنا، اصل مسئلے سے بھاگنا نہیں۔؟
عبدالرحیم زیارتوال: سب سے اہم تو انسانی جان کا تحفظ ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے تمام شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اب ہم ان دہشتگردوں کیخلاف بھی کاروائی کررہے ہیں۔ جن میں سے اکثر دہشتگرد کا عدالتوں میں ٹرائل ہو رہا ہے۔ اب عدالتی نظام انکے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے، یہ ان پر منحصر ہے کیونکہ ماضی میں عدلیہ کا کردار اس حوالے سے قابل تعریف نہیں رہا۔ اب عدالتی نظام پر ایک علیحدہ بحث ہونا لازمی ہے۔

خبر کا کوڈ : 375308
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش