1
0
Thursday 3 Apr 2014 23:21

کلام فاطمہ سلام اللہ علیہا

کلام فاطمہ سلام اللہ علیہا
تحریر و ترتیب: سیدہ ایمن نقوی

حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا  کی شخصیت کی پہچان اور ان میں موجود فضائل کا عرفان حاصل کرنے کیلئے تاریخ اسلام کے نشیب و فراز کو پہچاننا بھی ضروری ہے اس مقالے کے پہلے حصے میں بھی بندہ حقیر نے ذکر کیا کہ سیدہ کا ایک ایک حرف ہمارے لئے ایک سمندر کی مانند ہے اور اس کو درست سمجھنے کیلئے بھی بہت فہم و فراست کی ضرورت ہے، ہر کوئی کلام سیدہ کو درک نہیں کر سکتا، ہر شخص اپنی علمی و ذہنی سطح اور اپنے عقیدے کے مطابق اس کے مختف معنی نکالے گا۔ یہاں تبرکاً سیدہ کے چند فضائل بیان کرنے کے بعد کلام سیدہ کا بقیہ حصہ بیان کیا جائیگا۔ 

اولاد کی سب سے زیادہ پہچان والدین کو ہوتی ہے، اور سیدہ کا وقت اپنے والد گرامی کیساتھ زیادہ گذرا ہے اور والد بھی وہ جو خود اپنی زندگی میں بےنظیر ہے، وہ کہ جسکے لئے خدا نے دو جہان خلق کئے، وہ جس کا قول و عمل اور کردار صداقت کی معراج پر ہے کبھی بیکار کی باتوں میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہ ، علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو اولین و آخرین کے سرچشمہ علوم یعنی خدائے وحدہ لا شریک سے ہمیشہ رابطہ میں ہے۔ وہ جو ما ینطق عن الھوی کا مصداق ہے، کتنا اچھا ہو گا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی تعریف و توصیف اور منزلت کو اس عظیم المرتبت باپ کی زبانی ذکر کریں جو خود خداوند عالم کے نزدیک کائنات میں سب سے زیادہ عزیز و محبوب ہیں۔  رسول خدا فرماتے ہیں، "فاطمہ زہرا اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں"۔ درحقیقت حضرت زہرا  پیغمبر اکرم ۖ کے اس فرمان کی روشنی میں مسلمان خواتین کی سردار ہیں۔  رسول خدا سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا، مردوں میں بہت سوں نے کمال کی بلندی کو حاصل کیا لیکن صنف نسواں میں چار عورتوں کے علاوہ کسی  نے بھی انسان کامل کے مقام کو حاصل نہیں کیا ان چارخواتین میں ایک آسیہ بنت مزاحم ہمسر فرعون ، دوسری حضر ت مریم بنت عمران، تیسری خدیجہ بنت خویلد اور چوتھی حضرت فاطمہ زہرا  بنت محمدۖ ہیں۔
 
ایک اور مقام پر اسماء بنت عمیس کو خطاب کرتے ہوئے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اے اسماء صحیح معنوں میں فاطمہ زہرا  وہ حور جنت ہیں جسے خدا نے انسان کی شکل میں خلق کیا ۔ ایک دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں، فاطمہ زہرا وہ حور بہشت ہیں جو انسانوں کی شکل میں ہیں۔ پیغمبر اسلام ۖ کی یہ تعبیر ان تعبیروں میں سے ایک بہترین تعبیر ہے جو شخصیت حضرت فاطمہ زہرا کو اور زیادہ نمایاں کرتی ہے۔ ان کی عصمت و طہارت اور ہر طرح کے عصیان و خطاء سے پاک ہونے کا اعلان کر رہی ہے کیونکہ حور کا تقاضہ ہے کہ وہ جسم و روح کی خوبصورتی اور صداقت و خوشروئی و سے مزین ہو ۔ دوسری جہت سے عصمت کی سند بھی ہے یعنی گناہوں سے دوری۔ کیوںکہ حور بہشت کی مخلوق ہے، جہاں گناہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
 
ایک اور جگہ پر پیغمبر خدا ۖ حضرت فاطمہ زہرا  کی شخصیت کو پہچنواتے ہوئے فرماتے ہیں، اگر تمام طرح کی نیکیوں اور حسن و جمال کو کسی ایک پیکر میں دیکھا جائے تو یقینا وہ صرف حضرت فاطمہ زہرا  کا وجود مطہر ہے جس میں دونوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ میری بیٹی فاطمہ زہرا  لوگوں میں کرامت و شرافت کے اعتبار سے سب سے بہتر ہے۔ رسول خدا ۖ کی یہ حدیث حضرت فاطمہ زہرا کے بے شمار کمالات کو بیان کر رہی ہے۔ یعنی حضرت فاطمہ زہرا  میں ہر طرح کی نیکی و خوبی، اخلاق و تواضع، خوش خلقی و ملنساری اور کمالات انسانی کے تمام مدارج پائے جاتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو دین اسلام کے کمال کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے آپ میں موجود ہے، آپکے کمال اور منزلت کا اندازہ آپکے کلام مبارک سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ بی بی عبادات کے ثمرات کے بارے میں فرماتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

21۔ ايمان، نماز، زکواة، روزے اور حج کے ثمرات
قالَتْ (سلام الله عليها)، جَعَلَ اللّهُ الاْيمانَ تَطْهيراً لَكُمْ مِنَ الشّـِرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزيهاً لَكُمْ مِنَ الْكِبْرِ، وَ الزَّكاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ، وَ نِماءً فِى الرِّزقِ، وَ الصِّيامَ تَثْبيتاً لِلاْخْلاصِ، وَ الْحَّجَ تَشْييداً لِلدّينِ۔
فرمايا، خداوند سبحان نے ايمان و اعتقاد کو شرک سے طهارت اور گمراهيوں و شقاوتوں سے نجات قرار ديا اور نماز کو خضوع اور انکسار اور ہرگونہ تکبر سے پاکيزگي قرار ديا ہے اور زکوة (و خمس) کو تزکيه نفس اور وسعت رزق کا سبب گردانا ہے اور روزے کو ارادے ميں استقامت اور اخلاص کے لئے لازم قرار ديا ہےاور حجّ کو شريعت کي بنياديں اور دين کي اساس کے استحکام کي خاطر واجب کيا ہے.
(رياحين الشّريعة، ج 1، ص 312، فاطمة الزّهراء (س) ص 360، خطبه آنحضرت۔ احتجاج طبرسي،ج 1)۔

22۔ عہدشکن ميري ميت پر نماز نه پڑھيں:
قالَتْ (سلام الله عليها): لا تُصَلّى عَلَيَّ اُمَّةٌ نَقَضَتْ عَهْدَ اللّهِ وَ عَهْدَ أبى رَسُولِ اللّهِ فى أمير الْمُؤمنينَ عَليّ، وَ ظَلَمُوا لى حَقىّ، وَ أخَذُوا إرْثى، وَ خَرقُوا صَحيفَتى اللّتى كَتَبها لى أبى بِمُلْكِ فَدَك.
فرمايا، وه لوگ جنہوں نے اميرالمؤمنين علىّ (عليه السلام) کے بارے ميں خدا اور ميرے والد رسول خدا (ص) کے ساتھ کيا ہوا عہد توڑا اور ميرے حق ميں ظلم کا ارتکاب کيا اور ميری ارث کو غصب کيا اور جنہوں نے ميرے لئے وہ صحيفہ پهاڑ ڈالا جو ميرے والد نے فدک کے سلسلے ميں ميرے لئے لکها تها وه ميري ميت پر نماز نہ پڑھيں۔ (بيت الأحزان: ص 113، کشف الغمّة: ج 2، ص 494.)
 
23۔ غدير کے بعد کو‏ئي عذر نہ رہا:
قالَتْ (سلام الله عليها): إلَيْكُمْ عَنّي، فَلا عُذْرَ بَعْدَ غَديرِكُمْ، وَ الاَْمْرُ بعد تقْصيركُمْ، هَلْ تَرَكَ أبى يَوْمَ غَديرِ خُمّ لاِحَد عُذْراٌ.
مہاجرين و انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا، مجھ سے دور ہو جاؤ اور مجھے اپنے حال پر چھوڑو اتني ساري بےرخي اور حق سے چشم پوشي کے بعد، تمہارے لئے اب کوئي عذر باقي نہيں رہا ہے؟ کيا ميرے والد نے غدير خم ميں (اپنے جانشين کا تعين کرکے اور مسلمانوں کو اس امر پر گواہ بنا کر) تمہارے لئے کوئي عذر باقي چھوڑا ہے؟ (خصال: ج 1، ص 173، احتجاج: ج 1، ص 146.)

24۔ ميں سب سے پہلے اپنے والد سے ملحق ہونگی:
قالَتْ (سلام الله عليها): يا أبَا الْحَسَنِ! إنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله عليه وآله وسلم) عَهِدَ إلَىَّ وَ حَدَّثَنى أنّى اَوَّلُ أهْلِهِ لُحُوقاً بِهِ وَ لا بُدَّ مِنْهُ، فَاصْبِرْ لاِمْرِاللّهِ تَعالى وَ ارْضَ بِقَضائِهِ.
فرمايا، اے ابا الحسن! بےشک رسول اللہ (ص) نے ميرے ساتھ عہد باندھا ہے اور مجھے خبر دي ہے کہ ميں آپ (ص) کے خاندان ميں سپ سے پہلے آپ سے جا ملوں گي اور اس عہد سے کو‎‎ئي گريز نہيں ہے، پس صبر کا دامن تھام کے رکھنا اور اللہ کي قضا و قدر پر راضي ہونا۔ (بحارالأنوار: ج 43، ص 200، ح 30)
 
25۔ سيدہ (س) اور آپ کے والد (ص) پر تين روز تک سلام کی پاداش:
قالَتْ (سلام الله عليها): مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ اَوْ عَلَيَّ ثَلاثَةَ أيّام أوْجَبَ اللّهُ لَهُ الجَنَّةَ، قُلْتُ لَها: فى حَياتِهِ وَ حَياتِكِ؟ قالَتْ: نعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنا.
فرمايا، جو شخص ميرے والد رسول خدا (ص) اور مجھ پر تين روز تک سلام بھيجے خدا اس پر جنت واجب کرديتا ہے۔
راوي کہتا ہے، ميں نے عرض کيا يہ سلام آپ اور آپ کے والد (ص) کے ايام حيات کے لئے ہے؟ سيدہ (س) نے فرمايا، ہمارے ايام حيات اور ہماري موت کے بعد کے لئے ہے۔ (بحارالأنوار: ج 43، ص 185، ح 17.)
 
26۔ علي (ع) نے فريضہ الہي پر عمل کيا:
قالَتْ (سلام الله عليها): ما صَنَعَ أبُو الْحَسَنِ إلاّ ما كانَ يَنْبَغى لَهُ، وَ لَقَدْ صَنَعُوا ما اللّهُ حَسيبُهُمْ وَ طالِبهُمْ.
فرمايا، جو کچھ علي عليہ السلام نے رسول اللہ کي تدفين اور بيعت کے سلسلے ميں سرانجام ديا وہ خدا کي جانب سے مقررہ فريضہ تھا اور جو کچھ دوسروں نے سرانجام ديا خداوند متعال ان کا احتساب کرکے انہيں سزا دے گا۔ (الإمامة والسّياسة: ص 30، بحارالأنوار: ج 28، ص 355، ح 69.)
 
27۔ خواتين کے لئے کون سي چيز بہتر ہے:
قالَتْ (سلام الله عليها): خَيْرٌ لِلِنّساءِ أنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَ لا يَراهُنَّ الرِّجالُ.
فرمايا، عورت کي شخصيت کي حفاظت کے لئے بہترين عمل يہ ہے کہ (غير) مرد کو نہ ديکھے اور (غير) مرد بھي اسے نہ ديکھيں. (بحار الأنوارو  ج 43، ص 54، ح 48.)
 
28۔ ياعلي مجھے ہرگز نہ بھولنا:
قالَتْ (سلام الله عليها) أوُصيكَ يا أبَا الْحَسنِ أنْ لا تَنْسانى، وَ تَزُورَنى بَعْدَ مَماتى.
بي‌بي سيدہ (س) نے اپني وصيت کے ضمن ميں فرمايا، اے ابالحسن! ميں آپ کو وصيت کرتی ہوں کہ ميري موت کے بعد مجھے کبھي نہ بھولنا اور ميري زيارت و ديدار کے لئے ميري قبر پر آيا کرنا۔ (زهرة الرّياض کوکب الدّرى: ج 1، ص 253.)
 
29۔ خواتين کي ميت بھي نامحرموں کي نظروں سے محفوظ ہو:
قالَتْ (سلام الله عليها): إنّى قَدِاسْتَقْبَحْتُ ما يُصْنَعُ بِالنِّساءِ، إنّهُ يُطْرَحُ عَلىَ الْمَرْئَةِ الثَّوبَ فَيَصِفُها لِمَنْ رَأى، فَلا تَحْمِلينى عَلى سَرير ظاهِر، اُسْتُرينى، سَتَرَكِ اللّهُ مِنَ النّارِ.
سيدہ عليہاالسلام نے اپني عمر مبارک کے آخري ايام ميں اسماء بنت عميس سے مخاطب ہو کر فرمايا، ميں يہ عمل بہت ہي برا اور بھونڈا سمجھتي ہوں کہ لوگ خواتين کي موت کے بعد ان کي ميت پر چادر ڈال اس کي تشييع کريں اور قبرستان تک لے جائيں اور بعض لوگ ان کے اعضاء اور بدن کے حجم کا مشاہدہ کرکے دوسروں کے لئے حکايت کريں چنانچہ ميري ميت کو ايسي چارپائي يا تختے کے اوپر مت رکھنا جس کے ارد گرد بدن چھپانے کا انتظام نہ ہو اور اس پر ايسا وسيلہ نہ ہو جو لوگوں کے تماشے کے لئے رکاوٹ ہو. اور پورے پردے ميں ميري ميت کي تشييع کرنا خداوند متعال تمہيں دوزخ کي آگ سے مستور و محفوظ رکھے۔ تهذيب الأحکام،( ج1، ص 429، کشف الغمّه: ج 2، ص 67، بحار:ج 43، ص 189،ح 19.)
 
30۔ حجاب سیدہ سلام اللہ علیہا:
قالَتْ (سلام الله عليها)، ۔۔۔۔إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراهُ، وَ هُوَ يَشُمُّ الريح. 
ايک روز ايک نابينا آدمي داخل ہوا تو حضرت زہراء (عليہا السلام) نے پردہ کيا. رسول اکرم (ص) نے فرمايا: جان پدر! يہ شخص نابينا ہے اور ديکھتا نہيں ہے تو عرض کيا، بابا جان اگر وہ مجهے نہيں ديکھ سکتا تو ميں تو اسے ديکھ سکتي ہوں! اور پھر يہ کہ وہ ہوا ميں عورت کي بو سونگھ سکتا ہے۔ (بحارالأنوار: ج 43، ص 91، ح 16، إحقاق الحقّ: ج 10، ص 258.)
 
31۔ ترک دنيا اور غاصبوں کي ابدي مخالفت ...
قالَتْ (سلام الله عليها): أصْبَحْتُ وَ اللهِ! عاتِقَةً لِدُنْياكُمْ، قالِيَةً لِرِجالِكُمْ.
فدک غصب ہو جانے اور سيدہ سلام اللہ عليہا کے استدلال و اعتراض کے بعد مہاجرين  و انصار کي بعض عورتيں آپ کي خدمت ميں حاضر ہوئيں اور آپ کا حال پوچهنے لگيں تو سيدہ سلام اللہ عليہا نے فرمايا، خدا کي قسم! ميں نے تمہاري دنيا کو آزاد کيا اور ميري اب تمہاري دنيا سے کوئي دلچسپي نہيں ہے اور تمہارے مردوں کي ہميشہ کے لئے دشمن رہوں گي۔ (دلائل الإمامة: ص 128، ح 38، معانى الأخبار: ص 355، ح 2.)
 
32۔ شيعيان اہلبيت کون ہيں؟
قالَتْ (سلام الله عليها): إنْ كُنْتَ تَعْمَلُ بِما أمَرْناكَ وَ تَنْتَهى عَمّا زَجَرْناكَ عَنْهُ، قَأنْتَ مِنْ شيعَتِنا، وَ إلاّ فَلا.
فرمايا، اگر تم ہم اہل بيت عصمت و طہارت کے اوامر پر عمل کرو اور جن چيزوں سے ہم نے نہي کي ہے ان سے اجتناب کرو تو تم ہمارے شيعوں ميں سے ہو ورنہ تو نہيں. (تفسير الإمام العسکرى عليه السلام ص 320، ح 191)
 
33۔ نئي شادي کے سلسلے ميں علي (ع) کو وصيت:
قالَتْ (سلام الله عليها): أُوصيكَ اَوّلاً أنْ تَتَزَوَّجَ بَعْدى بِإبْنَةِ اُخْتى أمامَةَ، فَإنَّها تَكُونُ لِوُلْدى مِثْلى، فَإنَّ الرِّجالَ لابُدَّ لَهُمْ مِنَ النِّساءِ.
بي‌بي سيدہ نے اپني عمر کے آخري لمحات ميں علي (ع) کو سفارش کي، ميرے بعد ميري بھانجي "أمامه" کے ساتھ شادي کرنا، کيونکہ وہ ميرے بچوں کے لئے ميري طرح ہمدرد اور دلسوز ہے اور پھر مردوں کے لئے عورتوں کي ضرورت ہوتي ہے۔ (بحارالأنوار: ج 43، ص 192، ح 20، أعيان الشّيعة: ج 1، ص 321.)
 
34۔ ماں کي خدمت اور اس کے ثمرات:
قالَتْ (سلام الله عليها): الْزَمْ عجْلَها فَإنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أقْدامِها و الْزَمْ رِجْلَها فَثَمَّ الْجَنَّةَ.
فرمايا، ہميشہ ماں کي خدمت ميں اور اس کے پابند رہو، کيونکہ جنت ماں کے قدموں (پاؤں) تلے ہے؛ اور تمہارے اس عمل کا نتيجہ بہشتى نعمتيں ہيں۔ (کنزالعمّال: ج 16، ص 462، ح 45443.)
 
35۔ روزہ کس طرح ہونا چاہیئے؟
قالَتْ (سلام الله عليها): ما يَصَنَعُ الصّائِمُ بِصِيامِهِ إذا لَمْ يَصُنْ لِسانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوارِحَهُ.
فرمايا، وہ روزہ دار شخص جو اپني زبان اور کانوں اور آنکھوں و ديگر اعضاء و جوارح کو قابو ميں نہ رکھے اپنے روزے سے کوئي فائدہ نہ اٹھائے۔ (مستدرک الوسائل۔ ج 7، ص 336، ح 2، بحارالأنوار: ج 93، ص 294، ح 25.)
 
36۔ خوشروئي اور اس کے ثمرات:
قالَتْ (سلام الله عليها): اَلْبُشْرى فى وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصاحِبهِ الْجَنَّةَ، وَ بُشْرى فى وَجْهِ الْمُعانِدِ يَقى صاحِبَهُ عَذابَ النّارِ.
فرمايا، مؤمن کے سامنے تبسّم اور شادمانى جنت ميں داخلے کا باعث بنتا ہےجبکہ دشمنوں اور مخالفين کے سامنے تبسم عذاب سے بچاؤ کا سبب بنتا ہے۔ (تفسير الإمام العسکرى (ع) ص 354، ح 243، مستدرک الوسائل: ج 12، ص 262، بحار: ج 72، ص 401، ح 43.)
 
37۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کي ضرورت:
قالَتْ (سلام الله عليها) لا يَلُومَنَّ امْرُءٌ إلاّ نَفْسَهُ، يَبيتُ وَ فى يَدِهِ ريحُ غَمَر. 
فرمايا، جو شخص کھانا کھانے کے بعد ہاتھ نہ دھوئے اور اس کے ہاتھ آلودہ ہوں؛ اگر اس کو کوئي پريشاني (بيماري وغيره) لاحق ہو جائے تو اپنے سوا کسي پر بهي ملامت نہ کرے۔ (کنز العمّال: ج 15، ص 242، ح 40759.)
 
38۔ جمعہ کے روز دعا کا بہترين موقع:
قالَتْ (سلام الله عليها): اصْعَدْ عَلَى السَّطْحِ، فَإنْ رَأيْتَ نِصْفَ عَيْنِ الشَّمْسِ قَدْ تَدَلّى لِلْغُرُوبِ فَأعْلِمْنى حَتّى أدْعُو۔
روز جمعہ غروب آفتاب کے قريب غلام کو حکم ديا کرتی تھيں گھر کي چھت پر جا کر بيٹھو اور جب آدھا سورج ڈوب جائے مجھے خبر کردو تا کہ ميں (اپنے اور دوسروں کے لئے) دعا کروں۔ (دلائل الإمامة: ص 71، س 16، معانى الأخبار: ص 399، ضمن ح 9.)
 
39۔ خدا تمام گناہوں کو بخش ديتا ہے:
قالَتْ (سلام الله عليها) إنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَميعاً وَلايُبالى.
فرمايا، بےشک خدا تمام گناہوں کو بخش ديتا ہے اور اس سلسلے ميں کسي کي پروا نہيں کرے گا۔ (البتہ حق الناس اور شرک قابل بخشش گناہ نہيں ہيں جس پر قرآن ميں بھي تصريح ہوئي ہے اور احاديث ميں بھي، البتہ خدا اگر کسي کے سارے گناہ (سوائے شرک کے) بخشنا چاہے تو وہ وسيلہ ساز ہے اور اگر کسي کا اس شخص پر کوئي حق ہے تو اس کے دل ميں عفو و درگذر کا احساس پيدا کرتا ہے يا اس کو انعام و اکرام سے نواز کر مطلوبہ شخص کے گناہ بخشوا ديتا ہے اور يہ سارے امور اللہ کے لئے آسان ہيں)۔ (تفسير التّبيان: ج 9، ص 37، س 16.)

40۔ خواتين اپنے مردوں کو مشقت ميں نہ ڈاليں:
قالَتْ (سلام الله عليها): يا أبَا الحَسَن، إنّى لأسْتَحى مِنْ إلهى أنْ أكَلِّفَ نَفْسَكَ ما لا تَقْدِرُ عَلَيْهِ. 
بي‌بي سيدہ نے اپنے شريک حيات حضرت اميرالمؤمنين علىّ (عليہ السلام) سے مخاطب ہوکر فرمايا، ميں اپنے معبود سے شرماتي ہوں کہ آپ سے ايسي چيز کي درخواست کروں جس کي فراہمي آپ کے لئے ممکن نہ ہو۔ (أمالى شيخ طوسى : ج 2، ص 228.)
خبر کا کوڈ : 368489
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

خداوند کریم آپ کی اس محنت اور حسن ترتیب کو قبول فرمائے اور آپ کو چالیس احادیث محفوظ کرنے والوں میں سے شمار فرمائے۔ آمین
اسد عباس تقوی
ہماری پیشکش