0
Thursday 27 Mar 2014 23:21

قبلہ اول خطرے میں! مسلم امہ کہاں ہے؟ (حصہ دوم )

قبلہ اول خطرے میں! مسلم امہ کہاں ہے؟ (حصہ دوم )
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


مقالے کی پہلی قسط میں ہم نے مشرق وسطیٰ سمیت دیگر مسلم ممالک کا مختصراً حال پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ کس طرح مسلم دنیا کو عالمی سازشوں کے تحت الجھایا جا رہا ہے اور عالمی سامراجی طاقتیں امریکہ اور اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں، مقالے کے دوسرے حصے میں فلسطین اور قدس سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بات کی گئی ہے جبکہ بیت المقدس کی موجودہ صورتحال کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ فلسطین کے شہر قدس (یروشلم) کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ آئے روز صیہونی فلسطینیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، صیہونزم کے پیروکار مسلسل ان کوششوں میں مصروف عمل ہیں کہ قبلہ اول کو یہودیا لیا جائے اور اسے یہودیوں کی مستقل عبادت گاہ کے طور پر متعارف کروایا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم امہ اپنے تیسرے مقدس مقام اور قبلہ اول سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے۔ صیہونی یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ بیت المقدس کا کنٹرول صیہونیوں کے حوالے کیا جائے اور اسرائیلی کنیسٹ اس کے تمام تر اختیارات کی مالک ہو جبکہ موجودہ دور میں مسجد اقصیٰ کے معاملات اردن کی طرف سے سنبھالے جاتے ہیں۔

صیہونیوں نے قبلہ اول کے خلاف ایک واضح اور خطرناک مںصوبہ بندی کی ہے جس کے تحت وہ مسجد اقصیٰ کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے وہ مسجد اقصیٰ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی منصوبی بندی کر رہے ہیں، لیکن سوال پھر وہی اٹھتا ہے کہ مسلم امہ کیا کر رہی ہے اور کہاں ہے؟ کیا مسلم امہ اپنی آپس کی لڑائیوں کو ترک کر کے امت کے وسیع تر مفاد کے لئے قبلہ اول کی بازیابی کے لئے ان مٹھی بھر صیہونیوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں نہیں ملا سکتی؟ حالانکہ صیہونیوں کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہیں، کیونکہ بین الاقوامی قوانین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے اور صیہونی قابضین کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ قبلہ اول کو یہودیوں کا مقدس مقام قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے دستبردار کر دیں۔

صیہونی جارح ریاست اسرائیل نے ایک نہیں دو مرتبہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، پہلے فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا اور اب مسلمانوں کے مقدس مقام قبلہ اول کو یہودیانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں قدس کے اوقاف کا انتظام اردن کے زیرانتظام ہے اور اسرائیل اسے تبدیل کر کے اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے تا کہ مسلمانوں کو اور فلسطینیوں کو القدس سے دور رکھا جائے۔ واضح رہے کہ اردن کے پاس یہ اختیار فلسطین اور اردن کے مابین ہونے والے ایک معاہدے کے تحت دیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں دستخط کئے گئے ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدسات کا القدس میں تحفظ کیا جائے گا جو کہ وہاں پر پہلے سے موجود ہیں جبکہ اگر غور کیا جائے تو ان مقامات پر صیہونیوں کا کوئی ایسا مقدس مقام موجود نہیں کہ جس کی خاطر صیہونی قبلہ اول کو یہودیانے کی کوشش کریں، تاہم صیہونی ایسا کرنے میں مصروف ہیں۔

بین الاقوامی قوانین میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر مسلط ہو جائے اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے خدوخال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اسرائیل کو ایک غاصب ریاست تصور کیا گیا ہے کہ جس نے فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا ہے، Hague Regulations کی شق 42 میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور فلسطین پر قبضہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیل نے چوتھے جنیوا کنونشن کے تمام فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ جس میں اسرائیل کو کہا گیا ہے وہ فلسطینی زمینوں پر قبضے اور القدس کے حوالے سے خدوخال تبدیل کرنے سے اجتناب کرے۔

بین الاقوامی قوانین کی رو سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل ایک غیر قانونی اور جارح ریاست ہے کہ جس نے فلسطین پر قبضہ کیا اور قبلہ اول کو یہودیانا چاہتی ہے۔ بہرحال اسرائیل نے پورے مشرق وسطیٰ میں آگ کا کھیل رچا رکھا ہے اور اس کی آڑ میں فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم کے ساتھ ساتھ قبلہ اول کے تقدس کی پامالی اور بے حرمتی سے بھی دریغ نہیں کر رہاہے۔ غزہ کی پٹی میں پندرہ لاکھ سے زائد فلسطینی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں اور مصر کی صورتحال تبدیل ہونے کے بعد غزہ کے لاکھوں افراد کی زندگیاں سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہیں جو کہ صیہونی سازشوں کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح محصور ین غزہ پر روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل بمباری بھی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن افسوس پھر یہی ہے کہ غزہ کے ہمسائیگی میں مصر جیسی ریاست موجود ہے کہ جس کا تاریخی پس منظر بھی موجو دہے اور مصریوں نے ہمیشہ طاغوت شکنی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم آج ہم دیکھ رہے ہیں مصر بھی صیہونی سازشوں کے جال میں پھنس چکا ہے، اسی طرح فلسطین کے دوسرے اطراف میں شام اور لبنان ہیں جہاں کی صورتحال کے بارے میں ہم پہلی قسط میں ہی تذکرہ کر چکے ہیں، غرض یہ کہ قبلہ اول روز بروز اسرائیلی شکنجوں میں پھنستا چلا جا رہا ہے اور مسلم امہ ہے کہ خواب غفلت سے ہی بیدار ہونے کو نہیں۔

غرض یہ کہ مشرق وسطیٰ سمیت افریقائی ممالک اور ایشائی ممالک میں پیدا شدہ بھونچال کا براہ راست فائدہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو پہنچ رہا ہے اور اس کا براہ راست نقصان فلسطین اور فلسطینی کاز کو پہنچ رہا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی دشمن نے مسلم دنیا کو آپس میں باہم دست و گریباں کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب وہ فلسطین پر اپنے مکمل تسلط سمیت مشرق وسطیٰ اور ایشیاء میں گریٹر اسرائیل جیسے ناپاک منصوبے کی تکمیل کی طرف آگے بڑھ رہا ہے، مسلم امہ کہاں ہے؟ کیا مسلم امہ اب بھی بیدار نہ ہو گی؟ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئی تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 365626
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش