17
0
Thursday 13 Nov 2014 20:57

علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی! ہوشیار باش

علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی! ہوشیار باش
تحریر: قسور عباس برقعی

مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والی کالعدم جماعت سپاہ محمد کے سربراہ علامہ سید غلام رضا نقوی کی سعودی حمایت یافتہ نواز حکومت کے دور میں رہائی کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ وہ لوگ جو مشرق وسطٰی کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس رہائی کو ان حالات سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ اس میں شک نہیں کہ علامہ سید غلام رضا نقوی کو بے جرم و خطا قید رکھا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی مانند کئی ایک افراد آج بھی پاکستانی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ ان افراد کو فی الفور رہا کیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ کار خیر ایک سعودیہ نواز حکومت کے ہاتھوں انجام پائے گا، جس کا انچ انچ سعودیہ اور بحرین سے ملنے والی امداد میں ڈوبا ہوا ہے، کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
 
اگر کوئی کہے کہ علامہ غلام رضا نقوی کو عدالت نے باعزت بری کیا تو انتہائی دست بستہ عرض ہوں کہ گذشتہ اٹھارہ سال یہ عدالتیں کہاں تھیں۔ یہ عدالتیں اگر چند ماہ میں محرم علی کو ملزم سے مجرم بنا کر پھانسی کی سزا سنا سکتی ہیں اور اس پر عمل کروا سکتی ہیں تو علامہ غلام رضا نقوی کے مقدمے کو چلانا اور انھیں باعزت بری کرنا ان کے لئے مشکل نہ تھا۔ حالیہ ماڈل ٹاؤن لاہور کا واقعہ اور اس کے بعد دھرنوں کے سلسلہ میں لاہوری عدلیہ کے احکامات لوگوں کے ذہنوں میں یقیناً تازہ ہوں گے۔ کبھی کنٹینر لگانا خلاف قانون تھا تو کبھی دھرنے کرنا آئین کے خلاف۔ اگر توہین عدالت نہ ہو تو کہنے دیجئے کہ اسی عدلیہ نے پہلی مرتبہ گلو بٹ کو باعزت بری کر دیا تھا۔ حکومت کے دوبارہ پکڑنے پر عدلیہ کو پتہ چلا کہ نہیں حاکم کچھ اور چاہتے ہیں۔ تب جا کر عدلیہ نے گلو بٹ کو گیارہ سال کی سزا سنائی۔ موضوع پر رہنے اور اپنی جان خلاصی کے لئے میں اس معاملے کو یہیں پر چھوڑتا ہوں۔
 
علامہ غلام رضا نقوی پاکستان میں ان چند مذہبی راہنماؤں میں سے ہیں جو عسکریت پسندی کے قائل ہیں۔ وہ سیاسی جدوجہد کے بجائے مسلح جدوجہد کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اپنی اسی فکر کے سبب انھوں نے اٹھارہ سال قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں۔ اٹھارہ سالہ جیل کی زندگی ان کے ارادوں کو متزلزل نہ کرسکی اور آج وہ اپنی رہائی کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک میں مسلح جدوجہد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ علامہ غلام رضا نقوی کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ وہ واحد شیعہ راہنما ہیں جنھوں نے گولی کا جواب گولی سے دینے کا نعرہ لگایا تھا اور آج بھی لگا رہے ہیں۔
 
علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی انصاف کے تقاضوں کے عنوان سے نہایت خوش آئند ہے، تاہم ملک میں فرقہ وارانہ فضا کے عنوان سے انتہائی تشویش ناک۔ آج سے قبل ملک میں جو بھی سنی راہنما یا کارکن قتل ہوا اسے اندھا قتل ہی تصور کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ کچھ ادارے سپاہ محمد کے چند بھگوڑوں کے عنوان سے اس قتل کو شیعہ قوم کے سر تھوپنے کی کوشش کیا کرتے تھے، حالانکہ دوست و دشمن ہر کوئی جانتا ہے کہ سپاہ محمد نامی تنظیم اپنے قائدین کے قتل اور اسیری کے بعد فعال نہ رہ سکی تھی۔ لہذا کوئی بھی اس الزام کو کبھی بھی سنجیدہ نہ لیتا تھا اور نگاہیں اصل قاتلوں کو بہرحال ڈھونڈتی رہتی تھیں۔ علامہ سید غلام رضا نقوی کی رہائی اور ان کے مسلح جدوجہد کے نعروں نے ماسٹر مائنڈز کی یہ مشکل بھی رفع کر دی۔ اب مشکل نہیں رہا کہ کوئی سنی راہنما مارا جائے اور اس کا قتل علامہ غلام رضا نقوی اور ان کی تنظیم اور نتیجتاً شیعہ قوم کے سر تھوپ دیا جائے۔ دوسری جانب داعش نام کی تنظیم کو بھی ملک میں بڑھاوا دینے کی کوششیں جاری ہیں۔
 
داعش ہو یا شیعہ قوم کی کوئی مسلح تنظیم، ان کے اخلاص پر شبہ نہیں، مسئلہ تو ان کے فہم کا ہے۔ شیعہ مسلح تنظیم جس کے متوقع طور پر آئندہ سربراہ علامہ غلام رضا نقوی ہوں گے اور داعش جس کا سربراہ ملک اسحق ہوگا، بڑے ہی اخلاص سے ایک دوسرے کے خلاف مارو مارو کے نعرے لگائیں گے۔ مارنے کا کام یہ کریں یا کوئی اور شیعہ مرے گا تو داعش، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ذمے اور سنی مرے گا تو غلام رضا نقوی کے ذمے۔ قتل چاہے کسی کا بھی ہو آخر کار دوسرے مکتب کے ذمے۔ یوں ملک میں فرقہ واریت دن دگنی رات چگنی ترقی کرے گی۔ 

علامہ غلام رضا نقوی صاحب کے مسلح جدوجہد اور مارو مارو کے نعروں سے ممکن ہے متحارب گروہ پر تھوڑی بہت دھاک بیٹھے اور وہ لوگ خوفزدہ ہوں کہ ماریں گے تو مرنا بھی پڑے گا، تاہم تاریخ فرقہ واریت بتاتی ہے کہ یوں کبھی بھی فرقہ واریت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی بلکہ مزید بھڑکی ہی ہے، کیونکہ ایک ظاہری دشمن کے علاوہ ایک باطنی دشمن بھی ہے، جو جلتی پر تیل ڈال کر بہت خوش ہوتا ہے۔ اس قتل و غارت میں براہ راست طور پر اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ شیعہ مرے یا سنی دونوں کا قتل اس کے مفاد میں ہے۔ کوئی سنی کو دھمکائے یا شیعہ کو، اس کے مقاصد کے عین مطابق ہے۔ اس بدامنی اور بے چینی کی فضا میں اسے کھل کھیلنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔ یہی کچھ ہم نے عراق اور شام میں مشاہدہ کیا۔ لہذا نواز دور میں یہ رہائی غور کرنے والوں کے لئے نشان عبرت ہے۔

مذہبی و سیاسی تنظیمیں جو ملک میں کسی بھی مکتب کے لئے فعال ہیں، کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے، کیونکہ جب ملک میں ایک مرتبہ فرقہ وارانہ آگ بھڑکے گی تو اس کے شعلے ان تنظیموں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ ممکن ہے یہ آزادیاں انہی تنظیموں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور ان پر کالعدم کی مہر لگانے کے لئے ظہور میں آئی ہوں۔ فرقہ واریت کو کنٹرول کرنے کے عنوان سے پہلے بھی ہم نے سیاسی و مذہبی جماعتوں پر پابندیوں کا مظاہرہ دیکھا ہے۔ اہلسنت والجماعت اور اسلامی تحریک اسی مظاہرے کا نتیجہ ہیں۔
 
اس تحریر کے ذریعے میری علامہ سید غلام رضا نقوی سے بھی التجاء ہے کہ خدارا حکومت کے کرنے کے کاموں کو اپنے ذمے مت لیجئے۔ دہشتگردوں، قاتلوں اور فسادیوں کا خاتمہ یا انھیں قرار واقعی سزائیں دینا حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ اگر عدالتی نظام میں کوئی سقم دیکھتے ہیں یا یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت آپ کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہیں دیتی تو اس کا حل بندوق اٹھا کر خود سے سزا کا اجراء کرنا نہیں بلکہ اس حکومت اور نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا ہے، تاکہ نظام کی بہتری کے سبب ملک کا قانون اور عدلیہ درست راہ پر گامزن ہو۔ آپ کو یقیناً ملک سے بہت سے ہتھیار اٹھانے والے مل جائیں گے، تاہم یہ عسکریت پسندی کسی طرح بھی ملک اور ملت کے مفاد میں نہیں ہوگی۔۔۔ میں آپ کو وقت کے امام عج کا واسطہ دے کر استدعا کرتا ہوں کہ اپنے ہر بیان اور عمل میں انتہائی محتاط رویہ اپنایئے، تاکہ آپ کی ملت پرامن زندگی گزار سکے۔
خبر کا کوڈ : 419428
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاءاللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ خدا توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
کئی دنوں سے علامہ صاحب کی آزادی کی خبر کی وجہ سے مجھ پر خوشی اور حیرت جیسی، دونوں کیفیات حاوی تھی۔ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر عوامی تاثرات کو دیکھ کر مجھے اپنی ذاتی رائے پر شک ہونے لگا، کہ شاید ہماری ملت تصویر کا ایک رُخ دیکھنے کو ہی قوم کیلئے بہتر سمجھتی ہوگی۔ تاہم قصور عباس برقعی صاحب کی مذکورہ تحریر کو پڑھ کر مجھے اب اندازہ ہوا کہ پاکستان میں صرف "میں" نہیں بلکہ کچھ اور صاحبانِ بصیرت و نظر افراد بھی موجود ہیں۔
یقیناً علامہ صاحب کی آزادی ملت جعفریہ کیلئے باعث مسرت ہے اور علامہ صاحب اپنی اس آزادی کو ملت کے بہترین مفاد کیلئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ وقت جذبات نہیں بلکہ حکمت و دانائی سے کام لینے کا ہے۔
بروقت، دردمندانہ تحریر
اللہ رحم فرمائے
United States
بروقت، دردمندانہ تحریر
MashaAllah... doosron ko b apni baseerat aor hikmat men shareek kar k aap ne waqei farakh dili aor aali haosalay ka saboot dia he.. subhan Allah, Allah aap ko mazeed baseerat o hkmat se nawazay..
جزاک اللہ سپاہ محمد تشیع کیلئے ہی درد سر بنے گی، یہ ایک واضح ترین بات ہے، تشیع کی بقاء غیر واضح دشمن کے مقابل ہتھیار کے زور پر تو نہیں ہے نظریات کے زور پر ہے ___
جہاں پر علامہ غلام رضا نقوی کو حالات اور ملکی معاملات کو سمجھنے اور پرامن جدوجہد کے ذریعے ملت کے حقوق کی جنگ لڑنے کا سوچنا ہوگا، وہاں ہماری دیگر ملی تنظیموں اور شخصیات کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ علامہ غلام رضا نقوی کے ساتھ بیٹھ کر انہیں حالات کی نزاکت سمجھائیں اور انہیں قومی اور ملکی دھارے میں اپنا حقیقت پسندانہ کردار ادا کرنے کے لئے قایل کریں۔ اگر انہیں اسی طرح غیروں کی طرح ہمارے لیڈران نے چھوڑ دیا تو پھر ان کا اتنا قصور نہیں ہوگا جتنا ہمارے دیگر لیڈران کا ہوگا۔ سپاہ محمد کو قومی دھارے میں مثبت سوچ کی حامل تنظیم کے طور پر آنے کے قایل کرنا ہوگا۔ علامہ صاحب بھی ملت کے ہی فرد ہیں، اگر سپاہ صحابہ اور طاہر اشرفی ملک اسحاق کو اون کرسکتے ہیں تو کم از کم ہمارے رہنما بھی ان سے ملاقات کرکے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ہم سپاہ محمد کو شدت پسندی ترک کرنے پر قایل کر رہے ہیں، جس طرح حمید گل، جماعت اسلامی و دیگر سپاہ صحابہ کے لئے تاویلیں گھڑتے رہتے ہیں۔ سپاہ محمد کا شمار لشکر جھنگوی سے نہیں بلکہ سپاہ صحابہ کے مقابل ہونا چاہیے اور یہ ہماری دیگر ملی تنظیموں کے مفاد میں ہے۔
United States
salam
jo tahreer mosuuf nay aj likhe hay ya nazaria quaid e muhtaram nay 26 saal pehlay he day dia tha lakin us waqt qoum k muktalif groups may unhay shadid tanqeed ka samna karna parha aur un per buzdil jaisi tuhmataay bhe lage.
Alhamdulilah aj qoum may kuch bedarri nazr a rahe hay
Khuda is bedarri may mazid izafa farmahay.
Pakistan
بہت خوب لکھا ہے، عمدہ تحریر ہے حالات کے مطابق۔
Pakistan
سلام
قسور عباس برقعی صاحب کے احترام کے ساتھ کہ بہت ہی اچھا زاویہ نظر ہے اور بندہ صرف اس میں ۲ ترمیم تجویز کرنے کی جسارت پر مجبور ہے۔ سپاہ محمد کے بارے میں بہت حد تک میرا بھی وہی نظریہ ہے جو آپ کا ہے، لیکن اس تنظیم کے کھاتے میں تکفیری دہشت گرد رہنمائوں کے قتل ہیں نہ کہ سنی۔ نہ ہی سپاہ محمد نے سنی کی بنیاد پر کسی کے خلاف کچھ کہا۔ لہذا اس کی درستگی فرمالیں۔
دوسرا یہ کہ داعش کے اخلاص پر جامع معلومات کی بنا پر مجھے یقین ہے نہ کہ شک کہ یہ نیابتی جنگ میں صہیونیت زدہ عالمی استعمار اور ان کے عرب و عجم اتحادیوں کی پیداوار ہے۔ امید ہے کہ ناراض نہیں ہوں گے۔ آخری پیراگراف پاکستان کے شیعہ موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔ التماس دعا از عرفان علی
Pakistan
بہت خوب، ایک انتہائی اہم اور بروقت تحریر ہے۔
salaam
gulam raza sahb wo pejly rehnuma nhi hy qibla, aur nawaz hukumat ko ilzaam ya aap ki sooch ki tang nazri daikh kr khair ki umeed nhi rakhi ja sakti
سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اور اپنے نفس کو خواہشات بے جا سے محفوظ رکھا۔ بہت ہی اعلٰی انداز میں شیعہ قوم کے افکار کی ترجمانی کی گئی ہے۔
بے شک دشمن بہت ہی شاطر اور اخلاقیات کے دائرے سے باہر ہے، ہمارے قائدین کو بہت ہی ہوش مندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، تاکہ ملک میں مزید فسادات کی آگ نہ بڑھکنے پائے۔۔۔۔
مالک کائنات سب مسلمانوں کو عقل و بصیرت اور صبر و استقامت کی دولت سے مالا مال فرمائے، تاکہ عالم اسلام میں امن و امان قائم ہوسکے ۔۔۔۔
طالب خیر
Pakistan
Allama Ghulam raza naqvi sb b apni jaga thek hain k wo nhii dekh skty Shia shaheed hoty rhain aur qayadat b thek kehti h k abi sabar krna hoga bahar haal Qayadat aur Allama GR naqvi sb ko mil k beth kr koe faisla krain agar Musalah hona h to sb ikhaty hon agar pur aman rehna h to b ikhaty rhain warna bht nuqsan hoga millat e tashayo ka
verey good
ham log dharbe hartal aur ehtijaaj ke aadi ho chuke hein is liye hathyar ka naam bhi sun kar darte hen Allama saheb se guzarish he ki mulk mein amn o amaan qayim karne ke liye pak army ke sath mil kar dehshat gardon ka safaya kar den.
jinab qaswar hussain jis tahaffuzaat ka ap ne izhaar kia he bhot hi mayus kun he kionki siasi jidd o jahd karne walon ki kia kami thi jo aap Allama se bhi mang rahe hein!!!!!!!!!!!!!!!!!! Allama Ghulam raza naqvi sahb se yun kahen ki aap koi musallah jidd o jahd karne ke bajaye apne shia masajid shia imam bargahon aur shia abadi ki hefazat ki zemma dari len kionki ye haqiqat he ki hakomat hamen tahaffuz dene men nakam ho gayi he ya tahaffuz dena nahi chahti he ese men Allama ki rehayi hamare liye ek umeed ki kiran he..........aap ne jis tahaffuz ka izhaar kia he is se lagta he ki aap Allama ki rehai se khush nahi he balki ap Allama ko sipah e sahaba ka palla samajh kar dehshat gard mante hen jo intihai sharamnaak baat he........
ہماری پیشکش