1
Saturday 7 Sep 2013 10:18

ملا سنگین کون؟

ملا سنگین کون؟
رپورٹ: ایس این حسینی

جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر ملا سنگین زدران ہلاک ہوگئے۔ متعدد مقامی ذرائع اور حکام نے تصدیق کی ہے کہ پاک افغان سرحد کے قریب واقع درگو منڈی میں ہونے والے حملے میں ملا سنگین اپنے پانچ ساتھیوں سمیت مارے گئے ہیں۔ مرنے والوں میں چار غیر ملکی بھی بتائے جاتے ہیں۔ تاہم حقانی نیٹ ورک نے تادم تحریر ملا سنگین کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ ملا سنگین حقانی نیٹ ورک کے سب سے اہم کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کا تعلق افغانستان میں ایک معروف زدران پختون قبیلے سے تھا۔ جو کہ افغانستان کے صوبوں پکتیا اور پکتیکا کے علاقے میں آباد ہیں۔ ملا سنگین حقانی نیٹ ورک کے سربراہ مولوی جلال الدین حقانی کے رشتہ دار بھی تھے۔ 

2001ء میں امریکی حکومت نے کمانڈر سنگین کا نام مطلوب دہشت گردوں کے فہرست میں شامل کرلیا تھا۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغان طالبان کے لئے صوبہ پکتیکا کے "شیڈو" گورنر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف بڑے بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں بھی ان کا گروہ "زدران گروپ" کے نام سے مشہور تھا اور ان کا بڑا چرچا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان سے لاپتہ ہونے والے مغوی امریکی فوجی رابرٹ برگدال ان کے تحویل میں رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ میں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے مسجدوں سے اعلانات کئے گئے، جس میں کہا گیا کہ ملا سنگین امریکی جاسوس طیارے کے حملے میں مارے گئے ہیں۔ بنوں کے ایک مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ انکی ایسے افراد سے بات ہوئی جنہوں نے کمانڈر سنگین کے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ نماز جنازہ میرانشاہ میں ہی کسی مقام پر ادا کی گئی، جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

ملا سنگین پر افغانستان میں اغوا اور جنگجو بھجوانے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ملا سنگین زدران کو اقوام متحدہ نے دہشتگرد قرار دے کر بلیک لسٹ کیا تھا۔ نامہ نگاروں کے مطابق امریکی ڈرون حملے میں ملا سنگین زدران کی ہلاکت یقیناً حقانی نیٹ ورک کے لئے انتہائی شدید دھچکہ ثابت ہوگا۔ وہ مشرقی افغان صوبوں خصوصاً پکتیکا میں سرگرم اہم ترین کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے سال 2009ء میں یرغمال بنائے جانے والے ایک امریکی فوجی سارجنٹ بوی برگدل کو وہ "شیلڈ" کے طور پر گذشتہ تین برس سے اکثر اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ بعض امریکی تحقیقاتی اداروں کے مطابق اس فوجی کی ایک مختصر ویڈیو کافی عرصہ قبل سامنے آئی تھی، جس میں ملا سنگین بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ ملا سنگین نے امریکیوں سے افغان علاقوں میں اپنی کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو فوجی کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے زیراہتمام جنگجو نہ صرف افغان اور پاکستانی شدت پسند ہیں بلکہ عرب، چیچن اور ازبک بھی انکے قافلے میں شامل ہیں۔ ماضی میں بھی ان پر کئی ڈرون حملے ہوچکے ہیں، جن میں متعدد اہم کمانڈروں کی ہلاکت کے باوجود وہ خود بچ گئے تھے۔

امریکہ کے علاوہ ملا سنگین اقوام متحدہ کی پابندیوں کا بھی سامنا کر رہے تھے۔ امریکہ نے ملا سنگین کے علاوہ چار مزید افراد کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا مطلب ہے کہ ملا سنگین کسی بھی ملک سفر نہیں کرسکتے، ان کے اثاثے منجمد ہوگئے ہیں اور ان کو اسلحے کی فروخت پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

حقانی نیٹ ورک اور جلال الدین حقانی
حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہے اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائیدادیں ہیں۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔ امریکی حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ جلال الدین حقانی اس وقت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ جلال الدین حقانی کا شمار پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے پسندیدہ کمانڈروں میں ہوتا تھا، جو یہ فیصلہ کرتا تھا کہ کس کمانڈر کو سابقہ سویت یونین کے خلاف لڑنے کے لئے کتنے فنڈز اور ہتھیار درکار ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور مغرب میں متعدد افراد جلال الدین حقانی کو آئی ایس آئی کا اثاثہ سمجھتے ہیں، لیکن پاکستان کی فوج اس کی تردید کرتی ہے۔
 
امریکہ ماضی میں پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی حمایت اور اس کی قیادت کے لئے اپنے زیرِانتظام قبائلی علاقے شمالی وزیرِستان میں محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے، تاہم پاکستان شدت پسندوں کو اپنی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزام کی تردید کرتا ہے۔ گذشتہ سال 6 نومبر 2012ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حقانی نیٹ ورک پر عالمی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ سلامتی کونسل کی کمیٹی برائے افغانستان/ طالبان نے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ تنظیم کے خودکش کارروائیوں کے نگراں قاری ذاکر پر بھی پابندیاں عائد کی تھیں۔ 

پاکستانی طالبان سے بات چیت کرنے کی حمایتی اور حکومت کو مذاکرات میں تعاون کی پیشکش کرنے والی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان جان اچکزئی نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈرون حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے جب طالبان سے بات چیت شروع ہونے کے شواہد سامنے آ رہے تھے تو اس وقت کالعدم تحریک طالبان کے نائب امیر مولوی ولی الرحمان کی ہلاکت سے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا تھا اور اس وقت ڈرون حملے ایک بار پھر بات چیت کو ناکام کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 299440
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش