0
Tuesday 31 Jan 2012 10:13

بحرین میں پروان چڑھتی اسلامی بیداری (حصہ اول)

بحرین میں پروان چڑھتی اسلامی بیداری (حصہ اول)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

انسانی معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والا کوئی بھی واقعہ جب بھی سیاق و سباق اور معروضی حالات سے ہٹ کر دیکھا جائے گا، تو بدیہی ہے کہ معاملے کی آدھی تصویر ہی نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں کوئی بھی بحرین یا کسی اور مسئلے کے بارے میں کوئی خبر یا بات سنتا ہے تو معروضی حالات سے ناآگاہی کے سبب کسی ایک جانب جھکاﺅ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ 
ء2011 میں جب پورے مشرق وسطٰی کی مانند بحرین میں بھی حکومت مخالف تحریک چلی اور اسے دبانے کے لیے خلیجی افواج بحرین میں داخل ہوئیں تو اس مسئلے نے پاکستان میں فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لیا۔ ہر دو گروہ کے حامیوں نے پاکستان بھر میں عظیم الشان مظاہرے کیے۔ کوئی خلیجی افواج کو جارح کہتا تھا تو کوئی محافظ، جس کا واحد سبب حالات کا عدم ادراک ہے۔ میری اس مضمون میں کوشش ہو گی کہ معروضی حالات کو بیان کروں اور فیصلہ فہم قارئین پر چھوڑ دوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ انسان فطرتا حق پرست ہے اور حق کو تسلیم کیے بغیر اس کے لیے کوئی چارہ نہیں۔ 

آل خلیفہ:
بحرین کے آل خلیفہ، قبیلہ بنی عتبہ نجد کے وہ باسی ہیں جو ترک افوج کے حملے کے بعد اٹھارویں صدی کے اوائل میں نجد کو چھوڑ کر خلیج فارس کی ساحلی پٹیوں پر آباد ہوئے۔ اس قبیلے کے افراد کو العتوب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کویت میں حاکم الصباح خاندان، قطر کا حاکم اسی طرح الرومی، الزیدقبائل جو کویت، بحرین اور سعودیہ میں آباد ہیں، کا تعلق اسی قبیلے یعنی بنی عتبہ سے ہے۔ 1
اوائل میں بنی عتبہ بحرین میں بطور تاجر آئے، تاہم 1783ء میں احمد بن محمد آل خلیفہ کی قیادت میں بنی عتبہ نے بحرین کے جزائر پر قبضہ کیا اور اس وقت سے یہ قبیلہ بحرین پر قابض ہے۔ 2 

آل خلیفہ نے خطے میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور ترک حملوں سے بچنے کے لیے آل سعود کی مانند سامراجی طاقت برطانیہ کے ساتھ معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کے تحت برطانیہ نے بحرین کے دفاع کی ذمہ داری قبول کی، جس کے بدلے میں برطانوی سامراج نے اس خاندان کو ”الحکیم“ کا لقب عنایت کیا اور انہیں بحرین کے حاکم کے طور پر تسلیم کر لیا۔ آل خلیفہ خاندان اور برطانوی سامراج کے مابین ہونے والے متعدد معاہدوں میں 1861ء کا معاہدہ سب سے اہم ہے، جس کے مطابق آل خلیفہ کا کوئی بھی حکمران سلطلنت کا کوئی بھی علاقہ برطانوی حکومت کے علاوہ کسی اور ملک کو نہیں دے گا اور نہ ہی کسی اور ملک کے ساتھ برطانوی حکومت کی اجازت کے بغیر تعلق رکھے گا۔ 1892ء اور 1951ء میں اس معاہدے پر نظرثانی کی گئی۔ 

ھیت الاتحاد الوطنی:
اپنے حقوق کے تحفظ اور برطانوی سامراج کی ملک میں بڑھتی ہوئی مداخلت کو کم کرنے کی غرض سے دیگر عرب ممالک کی مانند دنیا میں رائج دوسرے بڑے نظام کیمونزم کا سہارا لیا گیا۔ مقامی راہنماﺅں اور مزدور یونینوں نے 1954ء میں بائیں بازو کی جماعت ھیت الاتحاد الوطنی کی بنیاد رکھی۔1954ء اور اس کے بعد 1956ء میں کامیاب مظاہروں اور ہڑتالوں کے بعد جس میں برطانوی سیکریٹری خارجہ سیلون لائیڈ کی بحرین میں آمد کے موقع پر کیا جانے والا کامیاب مظاہرہ بھی شامل تھا، اس تنظیم اور اس کی تمام تر شاخوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور اس کی تمام قیادت یا تو گرفتار کر لی گئی یا ملک بدر ہو گئی۔ 3  

مارچ انتفادہ:

برطانوی سامراج کے خلاف اٹھنے والی یہ عوامی تحریک مارچ انتفادہ پر منتہج ہوئی۔ 1965ء میں بائیں بازو کی جماعتوں الجبھة الشعبیة لتحریر البحرین اور الجبھة لتحریر الوطنی البحرین کی جانب سے شروع کی جانے والی اس تحریک میں تقاضا کیا گیا کہ ملک کو برطانوی سامراج کے وجود سے پاک کیا جائے۔ اس تحریک کے نتیجے میں ملک کی تیل کی صنعت کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ آل خلیفہ پولیس اور عوام کے مابین متعدد جھڑپیں ہوئیں، جن میں متعدد نہتے شہری جاں بحق ہوئے ۔ 4 بائیں بازو کی یہ دونوں جماعتیں اپنے نظریاتی مرکز کے زوال کے بعد اپنی قوت برقرار نہ رکھ سکیں۔

برطانوی سامراج سے آزادی:
1968ء میں جب برطانیہ نے شیخوں کی حکومتوں سے کیے گئے تمام معاہدوں کے خاتمے کا فیصلہ کیا تو عرب امارات کی سات ریاستوں، قطر اور بحرین نے ایک اتحاد کی تشکیل کا منصوبہ بنایا جو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اسی اثناء میں بحرین نے 16 دسمبر 1971ء کو ایک آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ 5 

ففتھ فلیٹ:
عرب ریاستوں کے ساتھ کیے گئے برطانوی معاہدوں کے ختم ہونے سے برطانوی افواج تو علاقے سے نکل گئیں تاہم ان کی جگہ امریکی افواج نے لے لی۔ امریکی بحری افواج نے اپنے فوجی مقاصد کے لیے دنیا بھر کے سمندروں کو اپنے مختلف فلیٹس کے سپرد کر رکھا ہے جس میں تھرڈ فلیٹ، سیونتھ فلیٹ، سکستھ فلیٹ، سیکنڈ فلیٹ ، فورتھ فلیٹ اور ففتھ فلیٹ شامل ہیں۔ موخر الذکر یعنی ففتھ فلیٹ خلیج فارس، بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور کینیا تک مشرقی افریقا کے ساحلوں میں امریکی مفادات کا پاسدار ہے۔ 6
اس فلیٹ کا قیام 1944ء میں عمل میں آیا، ابتدا میں یہ فلیٹ کم وسائل کا حامل تھا، جو سن ء2003میں اپنے وسائل کے اعلٰی ترین درجے پر پہنچا۔ 2003ء میں اس فلیٹ میں پانچ USN ائیر کرافٹ کیرئیرز، چھے USN اسالٹ شپس، ان بحری بیٹروں اور جنگی جہازوں سے متعلق زمینی وسائل اور تیس رائل نیوی کی کشتیاں شامل کی گئیں۔7  

1973ء کے پارلیمانی انتخابات:
برطانوی سامراج اور اس کے معاہدوں سے ظاہری علیحدگی کے بعد بحرین میں جمہوریت کا ایک انوکھا تجربہ کیا گیا۔ ملک میں انتخابات کے ذریعے ایک 44 رکنی پارلیمنٹ تشکیل دی گئی، جس میں حکومت کے چودہ وزراء کو انتخاب کے بغیر رکن پارلیمنٹ نامزد کیا گیا، جبکہ بقیہ تیس ارکان بحرین کے مرد رائے دہندگان نے منتخب کیے۔ اس انتخاب میں خواتین کو حق رائے دہی نہ دیا گیا۔ 8   
یہ اسمبلی 1975ء میں امیر سے ایک متنازعہ بل کی توثیق کے بارے میں اختلاف کی بنیاد پر ختم کر دی گئی۔ تب سے 2002ء تک ملک اسی ایمرجنسی قانون کے تحت چلتا رہا۔ 9 اسی سال بحرین کے امیر نے سیاسی خلفشار سے نمٹنے کے لیے خصوصی اسٹیٹ سکیورٹی کورٹس بھی بنائیں، جن کے فیصلے پر ملک کی کسی بھی عدالت میں اپیل نہیں کی جا سکتی تھی۔ 

انقلاب اسلامی ایران:
1979ء میں ایران کا اسلامی انقلاب پورے مشرق وسطٰی کی مانند بحرین کے معاشرے اور سیاست پر بھی اثر انداز ہوا۔ ایران میں شاہ کا زوال بحرین میں ایک سیاسی زلزے کے طور پر دیکھا گیا۔ ریاست میں اگرچہ انقلاب سے قبل بھی مذہبی رجحانات پائے جاتے تھے، تاہم انقلاب اسلامی ایران نے ان رجحانات کو ایک سیاسی جہت بخشی اور ایک نظریہ دیا۔ بحرین کی قیادت نے ایران عراق جنگ کے دوران وجود میں آنے والی خلیج تعاون کونسل کی رکنیت اختیار کی، جو واضح طور پر اس ایرانی انقلاب کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ اس کونسل میں بحرین کے علاوہ کویت، قطر، عمان، سعودی عرب اور عرب امارات شامل ہوئیں۔

1990ء کی عوامی تحریک:
نوے کی دہائی میں ایک مذہبی راہنما عبد الامیر الجمری کی قیادت میں بحرین کے سنی، شیعہ اور قوم پرست راہنماﺅں نے ملک میں سیاسی اصلاحات کے نفاذ کے لیے ایک درخواست دائر کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ملک میں 1975ء کا آئین نافذ کیا جائے اور پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں۔ یہ تحریک بحرین کی سابقہ روایت کے بر خلاف مذہبی بنیادوں پر اٹھی، جس کی ابتداء ایک میراتھن میں خواتین کے غیر مناسب لباس پر اعتراض اور ان پر پتھراﺅ سے ہوئی۔ اس تحریک کو حکومت نے آہنی ہاتھوں سے لیا، جس کے نتیجے میں دونوں اطراف کے چالیس افراد جاں بحق ہوئے۔ 10  

شیخ حمدبن عیسی آل خلیفہ:
1999ء میں بحرین کے حکمران شیخ عیسٰی آل خلیفہ کی وفات کے بعد ملک میں جاری سیاسی تناﺅ اور گھٹن کی فضا کو کم کرنے کے لیے بحرین کے نئے حاکم شیخ حمد بن عیسی آل خلیفہ نے ملک میں نافذ ایمرجنسی قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 1975ء کا آئین نافذ کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر قائم مقدمات کو ختم کر دیا گیا۔ سالوں سے جلا وطن بحرینیوں کو وطن واپس آنے کی اجازت ملی۔ ملک میں قائم سکیورٹی کورٹس کو ختم کر دیا گیا۔ خواتین کو ووٹ دینے کا حق دے دیا گیا۔

حکومتی ایوانوں میں عوامی نمائندگی
2000ء کے اوائل کا زمانہ بحرین کی تاریخ کا سنہری دور تھا، اس دور میں متعدد جلاوطن سیاسی و مذہبی راہنما نہ صرف ملک میں واپس آئے، بلکہ اہم مقامات پر متعین ہوئے، جیسا کہ ڈاکٹر ماجد العلوی جیسے اسلام پسند راہنما لیبر منسٹر بن گئے، اسی طرح شیعہ عالم دین شیخ علی سلیمان الوفاق پارٹی کے سربراہ بنے، جو بعد کے انتخابات میں ملک کی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کی صورت میں سامنے آئی۔ حمد آل خلیفہ نے ملک میں آئین کی حکمرانی کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے چودہ فروری 2001ء میں نیشنل ایکشن چارٹر کا اعلان کیا، جس کے تحت ایوان نمائندگان کو دو ایوانوں میں منقسم کر دیا گیا۔ 

اس چارٹر کے تحت ایوان زیریں چالیس منتخب اراکین جبکہ ایوان بالا شاہ کے نامزد اراکین پر مشتمل تھا۔ ابتدا ملک کی بڑی جماعتوں نے اس چارٹر کی مخالفت کی، تاہم حمد آل خلیفہ نے ملک کی تمام اہم جماعتوں کے سربراہان سے ملاقاتیں کر کے ان کو یقین دہانی کرائی کہ قانون سازی کا اختیار منتخب شدہ ایوان زیریں کے پاس ہی ہو گا، شاہ کے منتخب کردہ ایوان بالا کا مقصد فقط سیاسی امور کے بارے میں سوچ بچار اور مشاورت ہی رہے گا۔ حمد آل خلیفہ کی ذاتی یقین دہانی پر حزب اختلاف کے تمام گروہوں نے اس چارٹر کو منظور کر لیا۔


2002ء کا آئین:
حمد بن عیسی آل خلیفہ نے بحرینی عوام سے پہلی بدعہدی کرتے ہوئے 2002ء کے آئین میں ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں کو آئین سازی کے برابر کے اختیارات دے دیئے۔ جس کے سبب ملک کی اہم ترین چار جماعتوں الوفاق، جمیعة العمل السلامی، جمیعة العمل الوطنی الدیمقراطی اور التجمع القومی الدیمقراطی نے 2002ء کے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ ان چاروں جماعتوں نے 2006ء تک آئین میں اصلاحات کا اپنا مطالبہ جاری رکھا اور 2006ء کے الیکشن میں آئینی اصلاحات کے مطالبے کے ساتھ ہی شرکت کی۔ 11         

2006ء کے انتخابات:
2002ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی تمام تر جماعتیں اس انتخاب میں شریک ہوئیں، جس نے ایوان زیریں کی ہیت ہی بدل کر رکھ دی۔ اس انتخاب میں ملک کے 72 فیصد رائے دہندگان نے ووٹ کا حق استعمال کیا اور ملک میں قائم اسلام پسند جماعتوں کو پارلیمان میں بھاری اکثریت ملی، جبکہ مقابلے میں 2002ء کے انتخاب میں کامیاب ہونے والی کیمونسٹ اور لبرل جماعتوں کو اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ الوفاق 17 سیٹوں کے ساتھ پارلیمان میں اکثریتی جماعت کی صورت میں سامنے آئی، اس طرح جمیعت المنبر الوطنی الاسلامی نے سات اور حکومت کی حامی جماعت جمعیة الاصالة الاسلامیہ نے آٹھ سیٹیں حاصل کیں۔ 12

2010ء کے پارلیمانی انتخابات:
2010ء میں اگرچہ الوفاق کے تمام امیدوار کامیاب ہوئے، تاہم الوفاق نے ان انتخابات میں حکومت کے سکیورٹی اداروں اور میڈیا کی کارکردگی کو انتہائی مشکوک قرار دیا۔ الوفاق کے جنرل سیکریٹری شیخ علی سلمان نے انتخابات کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”انتخابات کے دوران سکیورٹی اداروں کی کارکردگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ایک ہفتے میں ملک دس سال پیچھے چلا گیا ہے۔“ 13
شیخ علی سلیمان نے انتخابات کے دوران واضح طور پر کہا کہ ”حکومت میں عوام کا بھی حصہ ہونا چاہیے۔ اقتدار کا ایک ہی خاندان میں رہنا کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ ہم اس دن کے منتظر ہیں کہ جب اس ملک کا کوئی بھی بچہ چاہے سنی ہو یا شیعہ ملک کا وزیراعظم بن سکے“۔ 14     
(جاری ہے) 

حوالہ جات
1۔ Metz, Federal Research Division, Library of Congress ; edited by Helen Chapin (1994). Persian Gulf States : country studies (2nd ed. ed.). Washington, D.C.: U.S.G.P.O.. pp. 19. ISBN 0844407933.ماخوذ از وکی پیڈیا
2۔ Around the Coast, Amin Reehani, p297ماخوذ از وکی پیڈیا
3۔http://en.wikipedia.org/wiki/National_Union_Committee
4۔ http://en.wikipedia.org/wiki/March_Intifada
5۔ ^ Bahrain Timeline BBC ماخوز از http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_Bahrain#Al_Khalifa_and_British_Protectorate
6۔ http://www.cusnc.navy.mil/leadership/commander.html
7۔^ Tomlinson, Hugh (21 July 2011). "US may quit troubled Bahrain". The Australian. Retrieved 21 July 2011.
8۔ ^ a b c Bahrain, Federal Research Division, 2004, Kessinger Publishing, pp 97 - 98
9۔ ^ Nohlen, D, Grotz, F & Hartmann, C (2001) Elections in Asia: A data handbook, Volume I, p54 ISBN 019924958
10۔ Adel Darwish. "Middle East Review of International Affairs". ماخوز از http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_Bahrain
11۔ http://en.wikipedia.org/wiki/2000s_in_Bahrain
12۔ ^ Islamists hail huge election victory, Gulf News, 2006-11-27
13۔ ^ a b CounterPunch, 3 September 2010, Monarchy v. Democracyماخوذ از۔ ttp://en.wikipedia.org/wiki/Bahraini_parliamentary_election,_2010
14۔^ a b "Bahrainis Vote for New Parliament amid Political Tensions," Al-Manar TV website, 23/10/2010 ماخوذ از http://en.wikipedia.org/wiki/Bahraini_parliamentary_election,_2010
خبر کا کوڈ : 134172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش