0
Tuesday 5 Jun 2012 19:42

لبنان میں شام کے بحران کی جھلک (2)

لبنان میں شام کے بحران کی جھلک (2)
تحریر: زاہد مرتضٰی

فرقہ واریت:۔
لبنان کی فضا میں فرقہ واریت کو بنیاد بنا کر حالات خراب کئے جا رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے اسرائیل، امریکہ اور اس کے عرب حواری اس کوشش میں تھے کہ حزب اللہ کی بھرپور مزاحمت اور علاقے میں قائم اسرائیل مخالف مزاحمت اتحاد میں فرقہ واریت کے جذبات ابھار کر ضرب لگائی جائے، کیونکہ اسرائیل مخالف مزاحمتی اتحاد فرقہ واریت سے کہیں دور اور بالا تر ہو کر استعماری ایجنڈے کے خلاف سرگرم ہے۔ اور اسی اتحاد کی بدولت استعمار کے دانت کھٹے کرتا رہا، لیکن عرب بیداری کی لہر کے نام پر شام میں جو کچھ کیا جار ہا ہے، شام کے حالات خراب کرنے میں فرقہ واریت کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل مخالف مزاحمتی اتحاد جس نے تمام عربوں کو ان کے مخالف دشمنوں سے پنجہ آزمائی کیلئے اختلافات سے بالاتر ہو کر تمام گروپوں اور مزاحمت کاروں کو اکٹھا کرکے ایک اہم اسٹریٹجک کامیابی حاصل کرلی تھی۔ آج وہ مزاحمتی اتحاد دشمن کی طرف سے فرقہ واریت کو پھیلانے کی حکمت عملی کے باعث مشکلات کا شکار نظر آتا ہے۔ مخصوص نظریات کے حامل سلفی گروپس سعودی عرب اور قطر کی مالی سرپرستی میں مزاحمتی اتحاد کو توڑنے کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں مصروف عمل ہیں، جسے اسرائیل اور امریکہ مل کر حاصل نہیں کرسکے تھے۔ شام کے خلاف القاعدہ، سلفی انتہا پسند امریکہ، اسرائیل، نیٹو اور بعض غلام مسلمان حکمران مل کر کام کر رہے ہیں۔ شام اسرائیل مخالف مزاحمتی اتحاد کا ایک اہم رکن ہے، کوئی بتا سکتا ہے کہ کون کس کی لڑائی لڑ رہا ہے ؟ اور کون کس کا آلہ کار ہے۔؟

لبنان میں متحرک شام مخالف شمال کے مسلح سلفی گروپس سعد حریری کو سنیوں کی قیادت کے قابل نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ 7 مئی 2008ء کے واقعات میں شکست غیر منظم ہونے کی وجہ سے ہوئی، بلکہ اس سے بھی اہم ترین بات یہ تھی کہ ایمان کی کمی کی وجہ سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اب ان لوگوں نے لبنان کے شمالی علاقہ کے اسٹیج پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ شام اپوزیشن سے اظہار یکجہتی اور "شیعہ تسلط" مخالف ٹائٹل کے نام سے کام کر رہے ہیں۔ واقعات یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ ان سلفی انتہا پسندوں کا پہلا نشانہ المستقبل پارٹی بن چکی ہے۔ وہ گلیوں سے نکل آئے ہیں، انہوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر حریری لبنان اور شام میں سنیوں کی جنگ لڑنا چاہتا ہے تو اسے آج یہ ذمہ داری اٹھانا ہوگی، ورنہ اس کا خلا کوئی دوسرا آکر پر کر دے گا۔

اس پارٹی کے درمیان انتہا پسند انہیں ڈراتے ہیں کہ حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت اسی صورت ہو سکتی ہے جب طاقت کے ناقابل انکار عناصر درکار ہوں اور سیاسی مطالبات کو تسلیم کرانے کیلئے عسکری توازن پیدا کرنا بہت ضروری ہوگا۔ ان مسلح گروپس کا مقصد یہ بھی ہے کہ شمال میں چِکا سے شروع ہونے والے تریپولی کے علاقہ اور لبنان شام بارڈر کے درمیان عکار اور وادی خالد کے علاقے کو سٹیٹس کو کیلئے ایک سنی منطقہ پیدا کیا جائے۔

ایک تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ سنی ویسا ہی سٹیٹس کو چاہتے ہیں کہ جیسا حزب اللہ حاصل کر چکی ہے۔ وہ تمام جوانوں کو تربیت یافتہ اور مسلح کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ ہدف حاصل کرنے کیلئے معاشرے اور دوسرے ٹیلنٹس کو متحرک کریں گے۔ تب وہ شامی انقلاب کو مضبوطی سے سپورٹ کر سکتے ہیں، جس کی فتح شام و لبنان میں سنیوں کی آزادی ہوگی۔ یہ پراجیکٹ سیاسی، سماجی اور اخلاقی طور پر زرخیز زمین رکھتا ہے، اسے صرف معمولی ذرائع اور چھوٹی سی تنظیم کی ضرورت ہے، یہ نظریہ رکھنے والے کسی دوسرے تجزیے یا وضاحت کی پرواہ نہیں کرتے، اس صورتحال سے لگتا ہے کہ لبنان کے فسادات نے سیاسی جماعتوں میں ایک گہری تقسیم نمایاں کر دی ہے۔

ایک اور لبنانی تجزیہ نگار اسد ابو خلیل اپنے کالم میں لبنان کی ممکنہ خانہ جنگی میں اسرائیل کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لبنان کا عمومی مزاج فرقہ واریت کی طرف جھکاؤ رکھنے والا ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خانہ جنگی کا ہر فریق خواہشمند ہے۔ 1975ء کی خانہ جنگی کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو اب اور اس وقت کی صورت حال میں کچھ فرق معلوم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلینجسٹ اور کئی دوسرے اسرائیل حامی مسلح گروپ شکست کھا چکے ہیں۔ لبنان کی سیاست میں فلسطینی مسلح موجودگی ایک طاقتور فیکٹر نہیں رہا۔ اس وقت فلینجز کی طرح کوئی پارٹی موجود نہیں جو خانہ جنگی کی خواہشمند ہو، جیسے اس نے 1975ء میں اسرائیل اور سی آئی اے کے اکسانے پر کیا۔

ملک میں فورسز کے درمیان طاقت کے توازن کا کوئی عنصر موجود نہیں، (حزب اللہ بڑی آسانی کے ساتھ تمام داخلی معاملات میں وارد ہو سکتی ہے) لیکن اس سب کچھ کے باوجود کچھ واقعات میں مماثلت بھی پائی جاتی ہے، ان میں ایک کئی طاقتور بیرونی قوتوں کی لبنان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔ سماجی ، اقتصادی ناانصافی کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے، علاقائی صورتحال ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے، برسراقتدار طبقے میں پایا جانے والا تضاد بہت نمایاں ہے اور فرقہ وارانہ کشیدگی 1975ء سے زیادہ بری صورتحال میں پائی جاتی ہے۔

لبنان افواہوں سے بھرا ہوا ملک ہے اور عوام جانتے ہیں کہ تمام حالات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ چند پریشان کن اشارے بھی موجود ہیں۔ سعودی شاہ عبداللہ نے لبنانی صدر کو لکھے خط میں لبنان کے ایک بڑے فرقے کی ہیئت کذائی سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا ہے، جبکہ خلیج تعاون کونسل (GCC) کے رکن ممالک نے اپنے شہریوں کو لبنان کا سفر نہ کرنے کی ہدایات کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ واقعات ایک دوسرے سے متصل ہیں یا یہ محض اتفاق ہیں۔؟

آگے چل کر لکھتے ہیں، یہ حالات اسرائیل کے منصوبے کا حصہ ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل 1975ء کی طرح لبنان میں موجود اپنے ایجنٹس کے ذریعے اپنے دشمنوں کے خلاف عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ 1975ء میں اسرائیل دشمن PLO تھی، آج حزب اللہ ہے۔ اسرائیل جیسا اسلام و مسلمانوں کا کھلا دشمن حزب اللہ کو حقیقی دشمن سمجھتا ہے اور ایسا ہی عرب حکمران بالخصوص سعوی عرب، قطر، گلف ریاستیں ترکی بھی سمجھتے ہیں۔ کیا یہ عام مسلمان فرد کیلئے سوچنے کا مقام نہیں کہ عرب ممالک کا حکمران اسرائیل جیسے کھلے دشمن سے تعاون و ہم آہنگی کبھی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہوسکتی؟ اور ان عربوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کی سازش کا مقصد حزب اللہ کو خانہ جنگی میں گھسیٹ کر مزاحمتی تحریک کو کمزور اور پارٹی کی عسکری قوت کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ جیسے ماضی میں پی ایل او کو لبنان کی خانہ جنگی میں گھسیٹ لیا گیا تھا۔ کتابوں میں درج ہے کہ یاسر عرفات کے زیر اثر PLO لبنانی خانہ جنگی میں الجھنا نہیں چاہتی تھی، لیکن فلسطینی تنظیم PFLP کی طرح کچھ فلسطینی تنظیمیں " Rejectionst " تھیں، جن کا نظریہ یہ تھا کہ لبنان میں تصادم عرب اسرائیل تصادم کا حصہ ہے، عرفات لبنان میں اپنا قیمتی کیمپ محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔

حزب اللہ اسرائیل کی اس گھناؤنی سازش سے آگاہ ہے۔ حریری کیمپ نے 5 مئی 2008ء میں دانستہ طور پر حزب اللہ کو مشتعل کیا تھا، جس کے نتیجے میں 5 مئی کے واقعات رونما ہوئے۔ مزید برآں یہ سوچنا ایک بیوقوفانہ عمل ہوگا کہ حزب اللہ اور اس کے مراکز فرقہ وارانہ کشیدگی کے مظاہروں سے جلد اثر قبول کر لیں گے۔ پارٹی فرقہ واریت پر مبنی بدزبانی کو نظرانداز کرتی ہے۔ سعودی عرب اور مارچ14 کی منافقت انگیز پراپیگنڈہ مہم کو ناقابل اعتنا سمجھا۔ شام میں الیپو سے لبنانی زائرین کی بس کا اغوا ایک بڑی کوشش تھی کہ حزب اللہ کو شام کے بحران میں گھسیٹ لیا جائے۔ فری سیرئین آرمی اور اس کی سرپرست جماعت SNC چند ماہ سے مسلسل حزب اللہ، ایران اور عراق کے ٹروپس کی شام میں موجودگی کے قصے سنا رہی ہیں، جیسے شام کی فورسز کو اپنے ملک میں کسی کی مدد درکار ہے۔؟

حزب اللہ کو خانہ جنگی میں گھسیٹنے کے منصوبے پر سعودی عرب اور اسرائیل کے فنگر پرنٹس بہت نمایاں ہیں۔ حزب اللہ کو اس سازش کا چارہ نہ بنایا جا سکا۔ سید حسن نصر اللہ نے الیپو واقعہ کے فوری بعد حزب اللہ اور امل ملیشیا کے کارکنوں کو خطاب کیا اور کہا کہ وہ اطمینان رکھیں اور کسی سے بدلہ نہ لیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ حزب اللہ کو شام کے معاملے میں ابھی تک روکے گئے بندھن سے آزاد کرایا جائے اور اسے میدان میں اتارنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس بات کو کہیں زیادہ واضح انداز میں نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ شیعہ زائرین (جن میں امل کے بزرگ مرد اور خواتین شامل تھے) درحقیقت حزب اللہ کے جنگجو تھے۔

حزب اللہ نے بیروت کے علاقے طارق الجدیدے میں دو سنی گروپس کے درمیان ہونے والی لڑائی میں بھی حصہ نہ لیا، جو یقیناً ان فسادات میں اپنے آپ کو ملوث ہونے سے بچانے کی ایک کوشش تھی، چہ جائیکہ مخالفین نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ شام کے حامی سنی گروپ کے لیڈر کو حزب اللہ ہی بچا لے جانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ حزب اللہ نے دشمن کا یہ وار بھی اپنی بہترین حکمت عملی سے ناکام بنا دیا۔ حالات مشکل ضرور ہیں، لیکن اللہ کی جماعت کو یہ مکمل یقین ہے کہ وہ ماضی کی طرح اللہ کی نصرت و حمایت سے دشمن کی سازشوں کو اسی طرح ناکام کرتی رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 168121
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش