2
0
Thursday 28 Aug 2014 16:17
مفتی جعفر حسین قبلہ مرحوم

خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ارض پاک و ہند پر بھی ہمارے مکتب کے ایسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے جنہوں نے اس مکتب کی ایسی خدمت کی کہ رہتی دنیا تک ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی، موجودہ نسل کو ایسے بندگان خدا کی زندگیوں، ان کی ملی و مکتبی و دینی خدمات سے روشناس کروانا تاکہ وہ اس امانت کو اگلی نسلوں میں منتقل کر سکیں ازحد ضروری ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک میں اس طرح کی شخصیات کے نام پر ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کے نام کو زندہ رکھنے کیلئے ڈاک ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ ان کے نام پر تعلیمی وظائف لگائے جاتے ہیں، اور ایسی نابغہ روزگار شخصیات کے نام پر ہسپتال، لائبریریز، اسکولز، یونیورسٹیز، مدارس قائم کئے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ شخصیات اگلی نسلوں تک زندہ رہتی ہیں ان کا کام بھی انہیں زندہ رکھتا ہے، ہمارے ملک جو قبل ازیں برطانیہ کے قبضہ میں تھا اور ایک مشترک معاشرہ تھا جس میں مسلمان، ہندو، سکھ، اور عیسائی سب ایک ساتھ رہتے تھے۔ اس کی آزادی سے قبل کتنے ہی ادارے ہمیں نظر آتے ہیں جو کسی انگریز، کسی سکھ، کسی ہندو کے نام پر قائم ہیں۔ کئی زمینیں اور جائیدادیں اب بھی ایسے ٹرسٹوں کے نام پر ہیں جو کسی ہندو کی تھی، کسی سکھ یا انگریز کی تھی، کتنی شاہراہیں اور سڑکیں ہیں جو ایسے ہی ناموں سے شناخت اور پکاری جاتی ہیں جنہوں نے اس خطے میں کسی حوالے سے سماج کی خدمت کی ان کا نام آج بھی زندہ ہے، یہ زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے ہیروز اور محسنوں کو نہیں بھولتیں ۔

مفتی جعفر حسین قبلہ مرحوم ایک ایسا نام ہے جسے پاکستان کی ملت تشیع کو کسی بھی طرح فراموش کرنا ان کے ملت پر ان گنت احسانات کی ناشکری کرنے کے مترادف ہوگا۔ مفتی صاحب مرحوم کا تعلق پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے تھا، وہ حکیم چراغ دین کے منجھلے صاحبزادے تھے۔ ان سے بڑے کا نام محمد حسن اور ان سے چھوٹے کا نام منظور حسین تھا۔ جعفرحسین 1914ء میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بھائی سے دو سال چھوٹے تھے مگر تعلیمی لحاظ سے دونوں بھائیوں میں ایک جماعت کا فرق تھا جو ایک موقعہ پر جا کر یہ فرق بھی ختم ہو گیا، بڑے بھائی بیماری کے سبب ایک سال تعلیمی سرگرمیاں جاری نہ رکھ سکے اور یوں دونوں بھائی ایک ہی کلاس کے طالبعلم ہو گئے۔ مفتی صاحب کا گھرانہ حکمت و طب میں بہت نامور تھے ان کے چچا حکیم شہاب الدین جنہیں طب میں مہارت حاصل تھی ادبی لحاظ سے بھی ایک مقام رکھتے تھے اور انہیں اردو، فارسی، پنجابی میں شاعری سے شغف تھا۔ چچا حکیم شہاب الدین نے ہی جعفر حسین کی پرورش اور تربیت اپنے ذمہ لی تھی۔ کہتے ہیں کہ چچا کی تربیت اور تعلیم جعفر حسین کے قلب و نظر کو پاکیزہ اور روشن کرنے کا سبب بنی انہیں کم سنی میں ہی معصومین و اہلبیت عظام ؑ کے حالات زندگی اور کارہائے نمایاں سے مکمل آگاہی حاصل ہوئی جس سے وہ بےحد متاثر ہوئے، آئمہ طاہرین ؑ کی حیات مبارکہ اور سیرت رسول خدا ؐ کے نورانی پہلوؤں بالخصوص خدمت خلق، فقر و صبر و سادہ زیستی نے انہیں ان صفات کو اپنے اوپر لاگو کرنے اور عملی انسان بننے کا خوگر بنا دیا جس کو تاآخر انہوں نے قائم رکھا۔

وہ بچپن سے ہی اپنے تایا چچا کی تربیت و رہنمائی میں نماز و روزہ کی پابندی اور کم کھانے کے عادی بن چکے تھے اور انہیں ایام جوانی سے پہلے ہی تقریریں کرنے بالخصوص مقدس ہستیوں کے حالات زندگی بیان کرنے کا شوق تھا۔ صرف پانچ برس کی عمر میں انہیں قرآن و عربی کی تعلیم دی جانے لگی جبکہ دو سال بعد یعنی سات سال کی عمر میں حدیث و فقہ کی تعلیم اپنے مہربان و نگہبان چچا سے حاصل کرنا شروع کی، عربی حدیث و فقہ کی تعلیم چچا کے علاوہ مولانا چراغ علی خطیب مسجد اہلسنت اور حکیم قاضی عبدالرحیم جو مدرسہ ندویہ لکھنؤ کے فارغ التحصیل تھے سے بھی حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ صرف بارہ برس کی عمر میں جعفر حسین طب، حدیث، فقہ اور عربی زبان پر کافی عبور پا چکے تھے اور مختلف خصوصیات کی بدولت صاحبان علم کو متوجہ کئے ہوئے تھے۔ اسی دوران موچی دروازہ لاہور کے مرزا احمد علی مرحوم نے انہیں دیکھا تو ان میں موجود پوشیدہ خصوصیات کو بھانپ گئے اور اس جوہر کمال کو اپنے ساتھ لکھنؤ لے گئے، یہ 1926ء کی بات ہے اس وقت لکھنوء علم و تہذیب کا گہوارہ فصاحت و بلاغت میں ایک نام رکھتا تھا۔ یہاں ادب و ثقافت اپنے اوج پر تھے، لکھنؤ میں آپ کو مدرسہ ناظمیہ میں جناب مولانا ابولحسن عرف منن کے سپرد کر دیا گیا۔ لکھنؤ میں آپ سید علی نقی صاحب، جناب مولانا ظہورالحسن صاحب اور مفتی احمد علی صاحب سے بھی کسب فیض حاصل کرتے رہے اور بحر علم سے مستفیض ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی منازل کو طے کرتے رہے۔

اس علمی و ادبی و ثقافتی بلندی کے ماحول میں رہ کر آپ کے خیالات و افکار میں بھی تنوع پیدا ہوا اور انہیں مختلف خیالات و افکار کو پختہ کرنے کا بھرپور موقعہ ملا، آپ نے یہاں رہ کر تہذیب نفس پر بھی توجہ رکھی اور اس سے کبھی بھی غافل نہ ہوئے۔ لکھنؤ میں اپنے ادبی ذوق کو بھی خوب پروان چڑھایا۔ اس مقصد کے لئے ایک انجمن بنام انجمن مقاصدہ کے پلیٹ فارم سے ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے آپ اس انجمن مقاصدہ کے ایک عرصہ تک ناظم بھی رہے۔ لکھنؤ میں آپ کے تمام اساتذہ اس بات پر متفق تھے کہ جعفر حسین ایک بلند اور روشن ستارہ بن کے سامنے آئے گا اور یہ نام روشن کرے گا۔ نو سال تک مسلسل علم دین کی گہرائیوں کو سمجھنے کی جدوجہد میں آپ نے کئی اعزازات اور نمایاں کامیابیاں سمیٹیں اور اس کے بعد 1935ء میں مزید تعلیم اور علوم اہلبیت ؑ سے مستفید ہونے کیلئے اس وقت کے حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق تشریف لے گئے، وہاں پانچ برس تک مسلسل فقہ کی تعلیم حاصل کی، آپ کی خوش قسمتی کہ نجف میں آپ کو آقائے ابوالحسن اصفہانی جیسے صاحب شریعت اور عالم باعمل استاد میسر آئے۔ نجف میں بھی قیام کے دوران آپ کی خودداری اور زندگی کے ڈھنگ ویسے ہی رہے آپ کسی پر بوجھ بننے کی بجائے بھوک و فاقہ کو اختیار کرتے تھے، نجف اشرف عراق میں قیام کے دوران آپ کی ملاقات اظہر حسن زیدی صاحب سے ہوئی جن سے بعد ازاں گہری دوستی و رفاقت قائم ہو گئی، مولانا اظہر حسن زیدی بعد ازاں بلند پایہ خطیب اور ادبی نابغہ کے طور پر معروف ہوئے، ان کی تقاریر آج بھی خطباء کو مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں، نجف میں پانچ برس قیام اور علوم آل محمد ؑسے فیض یاب ہونے کے بعد آپ واپس لوٹے۔ اس وقت آپ کا تعارف مفتی جعفر حسین کے نام سے ہوا، آپ نے پہلے دو برس تو نوگانواں سادات ضلع مراد آباد میں بہ طور دینی مدرس گذارے۔ اس کے بعد آپ واپس اپنے آبائی علاقہ گوجرانوالہ تشریف لے آئے۔

مفتی جعفرحسین مرحوم ایک مرتبہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور دو بار اسلامی مشاورتی کونسل کے رکن منتخب کئے گئے۔ ان کے ساتھ دینی خدمات سرانجام دینے کیلئے علامہ حافظ کفایت حسین اور علامہ رضی مجتھد ہوتے تھے۔ آپ نے 1951ء میں علماء کے بائیس نکات پر متفق ہونے کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کیا اس تحریک میں آپ کے ساتھ علامہ حافظ کفایت حسین مرحوم بھی فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ 1979ء میں بھکر میں آل پاکستان شیعہ کنونشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں پوری قوم نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی، اس کنونشن میں مفتی جعفر حسین قائد ملت جعفریہ منتخب ہوئے۔ اس وقت پہلی بار یہ نعرہ فضا میں گونجا کہ "ہمارا رہبر تمھارا رہبر مفتی جعفر مفتی جعفر"۔ اس موقعہ پر جب ملک میں مارشل لاء نافذ ہو چکا تھا آپ نے ملت تشیع کی طرف سے حکومت کو شیعہ مطالبات پیش کئے۔ ان مطالبات کو منظور کرانے کیلئے مفتی جعفر حسین قبلہ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہونے کی مہلت دی۔ 30 اپریل 1979ء تک مطالبات تسلیم نہ کئے جانے پر آپ نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے آپ کا استعفیٰ منظور نہ کیا اور ان کو تنخواہ برابر بھیجتے رہے جسے آپ نے بصد شکریہ واپس کر دیا اور کہا کہ جب کام نہیں کیا تو تنخواہ کس بات کی؟یہ آپ ہی کی جرات تھی ،آپ بے حد نڈر اور بےباک تھے۔ آپ صاف گو تھے اور کسی کو اندھیرے میں نہیں رکھتے تھے۔ اپنا ہر کام انتہائی جانفشانی اور لگن و محنت سے کرتے تھے۔ آپ دیانت و صداقت کی چلتے پھرتی تصویر تھے۔ آپ کی تمام زندگی انتہائی سادگی اور تصنع و بناوٹ سے بہت دور رہ کر گذری۔ ان کی سادگی کی ان گنت مثالیں آج بھی بچے بچے کو یاد ہیں۔ کئی جگہوں پر وہ جب مجلس پڑھنے یا دورہ پر گئے اور کپڑوں کو دھونے کی ضرورت محسوس کی تو انہوں نے کسی میزبان کو زحمت دینے کی بجائے خود ہی لباس دھو لیا جبکہ وہ قائد ملت جعفریہ تھے اور علمی لحاظ سے اتنا بلند مقام رکھتے تھے کہ ان کی خدمت کرنا ہر ایک اپنے لئے سعادت و خوشبختی سمجھتا۔ اسی طرح کئی ایک جگہوں پر اس وقت کی عمومی سواری تانگہ میں سوار ہو کر چلے جاتے، لوگ ان کی سادگی کو دیکھ ششدر و حیران رہ جاتے تھے۔

یہ اپریل 1980ء کی بات ہے کہ عراق میں اسلامی انقلاب کی امید مفکر اسلام آیت اللہ باقرالصدر اور ان کی عالمہ بہن آمنہ بنت الھدٰی کو صدام کی ظالم حکومت نے بدترین تشدد کر کے شہید کر دیا۔ ان کی المناک شہادت نے ہر ایک صاحب درد کو غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا، پاکستان کے وہ علماء جو شہید باقر الصدر کی شخصیت سے آگاہ تھے انہوں نے اس ظلم اور سفاکیت کے خلاف عوامی احتجاج کروائے، کئی شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور حکومت عراق تک ملت تشیع پاکستان کا غم و غصہ پہنچایا گیا اسی دوران اسلام آباد میں 4/5جولائی کو ایک کنونشن طلب کیا گیا تاکہ حکومت عراق تک بھرپور احتجاج پہنچایا جا سکے اس دوران چند دن پہلے ہی 30جون کے دن حکومت نے زکوٰۃ آرڈیننس جاری کیا جس میں مکتب تشیع کے نقطہ نظر کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ اس ماحول میں مشاورت اور باہمی تجاویز کے بعد شہید باقر الصدر کی المناک شہادت کے حوالے سے ہونے والے کنونشن کو نفاذ فقہ جعفریہ کے عنوان سے منانے کا اعلان ہوا۔ جس کی توثیق قائد ملت جعفریہ نے بھی کر دی۔ اس کنونشن میں جہاں دیگر تنظیموں اور شخصیات نے اہم کردار ادا کیا وہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور نوجوانان امامیہ (آئی ایس او پاکستان) نے بھرپور کردار ادا کیا۔ ہاکی گراؤنڈ اسلام آباد میں ہونے والے اس کنونشن میں ملک بھر سے ملت جعفریہ کے سپوتوں علماء ذاکرین، زعمائے ملت، شعرائے قوم، طالبعلموں نے بھرپور شرکت کی اور اپنے جذبات و احساسات کو ملکی سطح پر حکمرانوں تک پہنچائے۔ قائد ملت جعفریہ علامہ مفتی جعفر حسین نے اس جلسہ اور احتجاج کی صدارت کی، وزارت مذہبی امور اور صدر مملکت سے مذاکرات کے کئی دور چلے اور بالآخر حکومت کو ملت جعفریہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ایک معاہدہ رو بہ عمل لایا گیا جس کی رو سے یہ طے ہو کہ جو بھی اسلامی قانون بنے گا اس میں فقہ جعفری کا خیال رکھا جائے گا اور زکوٰۃ آرڈیننس میں بھی ترمیم کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اہل تشیع زکوٰۃ دینے سے انکاری تھے بلکہ حکومت کے طریقہ کار اور کرنسی نوٹوں پر زکوٰۃ دینے کے شرعی مسئلہ پر اپنا جدا موقف رکھتے تھے، جس پر احتجاج کیا گیا ملت جعفریہ کی اس جدوجہد کا فائدہ آج بلا تفریق تمام مسالک کے لوگ اٹھا رہے ہیں۔ مفتی جعفر حسین قبلہ کی جدوجہد کا یہ باب کسی بھی طور بھلایا نہیں جا سکتا۔ آج جب پاکستان کے لاکھوں لوگ اسلام آباد میں اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سراپا احتجاج ہیں۔ تو ملت جعفریہ کی تاریخی جدوجہد کے مناظر بھی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں۔

علمی خدمات، قبلہ مفتی جعفر حسین نے گوجرانوالہ میں جامعہ جعفریہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ بر لبِ جی ٹی روڈ قائم کی، وسیع عریض رقبہ پر مشتمل اس درسگاہ کو ملت نے ان کی رحلت کے بعد اس طرح اہمیت نہیں دی جس کا حق رکھتی تھی۔ مفتی صاحب نے ایک کتاب بعنوان سیرت امیر المومنین ؑ تحریر فرمائی، جبکہ مولاعلی ؑ کے خطبات و خطوط و کلمات قصار کے معروف مجموعہ نھج البلاغہ کا ترجمہ و تشریح کی۔ جسے خاص و عام میں بےحد پسند کیا جاتا ہے۔ آپ کے اردو ترجمہ کو ادبی ذوق رکھنے والے حضرات اور الفاظ کی قدر جاننے والوں کے ہاں بہت اہمیت دی جاتی ہے، جبکہ مفتی صاحب قبلہ نے صحیفہ کاملہ کا بھی ترجمہ و تشریح کی ہے، مفتی صاحب قبلہ کو امام خمینی کی ذات اور ایران سے بےحد محبت تھی، ایک بار ہی انقلاب کے بعد ایران دورہ پر تشریف لے گئے جس کا تمام خرچ ذاتی طور پر برداشت کیا، حالانکہ حکومت نے اس دورے کا انتظام کیا تھا۔ مفتی صاحب کی غیرت و خوداری نے یہ برداشت نہ کیا، وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہو گئے تھے پہلے میو ہسپتال لاہور، پھر لندن اور لندن سے پھر واپس لاہور لائے گئے، ان کا انتقال 29اگست 1983ء کو میو ہسپتال لاہور میں ہوا اور کربلا گامے شاہ لاہور میں دفن کئے گئے۔ جنازہ میں ملک بھر سے علماء، عوام کے جم غفیر اور تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ اعلٰی حکومتی عہدیداران نے بھی شرکت کی۔

خبر کا کوڈ : 407018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شکریہ اور بہت بہت شکریہ۔
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ محسن امت اسلام ناب در پاکستان مفتی جعفر حسین قبلہ کا حق ہے کہ ان پر زیادہ سے زیادہ لکھا جائے اور موجودہ نسل کو ان کی خدمات سے آگاہ کیا جائے۔
عرفان علی
thanks irfan bhae
ہماری پیشکش