5
1
Tuesday 22 Apr 2014 13:53
شیعہ مخالف عناصر کے ایم کیو ایم سے بہت اچھے تعلقات ہیں

غیروں کیساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو ایم ڈبلیو ایم اور شیعہ علماء کونسل کو ایک ساتھ بھی بیٹھنا چاہیئے، ایس ایم حیدر

ایران نے دہشتگرد ریگی کو پھانسی چڑھایا اور ہم نے دہشتگرد ملک اسحاق کو پروٹول اور خرچہ دیا
غیروں کیساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو ایم ڈبلیو ایم اور شیعہ علماء کونسل کو ایک ساتھ بھی بیٹھنا چاہیئے، ایس ایم حیدر
ایس ایم حیدر کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ آپ پاسبان عزاء پاکستان اور حزب وحدت پاکستان کے سربراہ ہیں۔ ایس ایم حیدر گذشتہ 30 سالوں سے قومیات کے حوالے سے فعال ہیں، آپکا شمار کراچی کی فعال شیعہ شخصیات میں ہوتا ہے، آپ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے دور سے لیکر آج تک ملی جماعتوں کے ساتھ مسائل کے حل اور ملی خدمات کے حوالے سے کوشاں ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں ایس ایم حیدر کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر ایک نشست کی، اس موقع پر آپ کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: طالبان بنانے کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ایس ایم حیدر: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ کی تشریف آوری کا بہت شکریہ، دیکھیں آمر ضیاءالحق کے پروردہ طالبان، جنہیں اس وقت حکومت اور پاکستانی ایجنسیوں نے بنایا تھا، انہوں نے امریکی ڈالرز لے کر مدارس بنائے، ان میں جہادیوں کی پرورش کی، پھر طالبان بنانے کی ٹائمنگ دیکھئے کہ جس وقت ایران میں اسلامی انقلاب آنے والا تھا، امریکہ کو یقین ہوگیا تھا کہ ایران میں شہنشاہیت نہیں رہے گی، اسے وہاں سے بھاگنا ہوگا، اس لئے وہ ایران کے پڑوس پاکستان میں ضیاءالحق کو سامنے لایا، ڈالرز دے کر مدارس قائم کروائے، مجاہدین بھرتی کروائے، پھر خود بے نظیر دور میں وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے کہا کہ Taliban are my kids۔ تو انہوں نے بھی طالبان کی شکل میں بچے پالے، پہلا مدرسہ کہاں بنا، کتنی رقم دی گئی، کس نے معاملات کئے، یہ تمام باتیں میں ثبوت کے ساتھ کرسکتا ہوں۔ تو یہ سارے عناصر ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں، اب جو ان کے زیراثر ہیں وہ Good Taliban ہیں اور جو ان کے زیر اثر نہیں ہیں وہ Bad Taliban ہیں۔ اس وقت انہوں نے امریکی ڈالرز لے کر طالبان کو پروان چڑھایا، میں نے انکی ہائی اتھارٹیز کو اس وقت بتایا تھا کہ یہ آپ کے کبھی وفادار نہیں ہونگے، آج دیکھ لیں کہ یہ آپ پر بھی حملہ آور ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان سے حکومتی مذاکرات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیا مذاکرات ہی طالبان کو کنٹرول کرنے کا واحد حل ہے یا پھر فوجی آپریشن۔؟
ایس ایم حیدر: طالبان سے حکومتی مذاکرات کا جو ڈرامہ ہے یہ صرف اور صرف دھوکہ ہے، اسکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دیکھیں طالبان کے خود نامعلوم کتنے گروہ ہیں، یہ ڈالرز اور ریال لے کر جہاد کرنے والے لوگ ہیں، کس سے آپ مذاکرات کریں گے، اچھا پھر اگر آپ ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ نے ان کو مارا کیوں، واضح رہے کہ آپ نے ہی انہیں امریکہ کے کہنے پر پالا پوسا اور جوان کیا ہے اور پھر امریکہ کے کہنے پر مارا بھی۔ تو یہ سب ڈرامے بازی اور عوام کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں۔ دیکھیں کوئی Good Taliban اور Bad Taliban کی بات نہیں ہے، یہ سب انسانیت کے دشمن ہیں، پاکستان دشمن ہیں، عوام کو مار رہے ہیں، فوجی ہو یا سول ہر جگہ کو یہ نشانہ بنا رہے ہیں، انہیں ختم کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہ نسلِ یزیدیت سے ہیں، طالبان سے مذاکرات ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ یزید سے مذاکرات کر لو۔ طالبان کو آپ نے ہی پالا تھا، آپ ہی انہیں ختم کریں، سینکڑوں طالبان ایسے ہیں جنہیں سزائے موت ہوچکی ہے، آپ اس پر عمل درآمد نہیں کرتے۔

خود پیپلز پارٹی کے دور میں، بے نظیر کے دور میں بھی انہیں طالبان کو پالا گیا، خود آصف زرداری نے طالبان کو پھانسی پر لٹکانے سے صاف منع کر دیا، اس کے بعد نواز شریف کو بھی صاف کہہ دیا کہ جب تک میں صدر مملکت ہوں، آپ بھی طالبان کو پھانسی نہیں دینگے۔ تو وہ جو پچاس ساٹھ ہزار عوام و افواج پاکستان کے جوان شہید ہوگئے، ان کے ورثاء کو کون انصاف دلائے گا، تو یہ سب ڈرامہ بازی ہے اور عوام کو دھوکہ دینا ہے۔ جو مولوی حضرات طالبان سے مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں، وہ ان ہزاروں شہداء کو بھی انصاف دلانے کی بات کریں۔ پشاور میں چرچ پر حملہ ہوتا ہے تو طالبان کہتے ہیں کہ یہ حملہ ہم نے نہیں کیا، مگر جس نے بھی کیا ہے شریعت کے مطابق کیا ہے۔ ایران میں اگر کبھی ایسا ہوتا ہے تو وہ اسے پکڑ کر لٹکا دیتے ہیں، تو اگر ہماری حکومت نے بھی سنجیدگی کے ساتھ کام کیا تو مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ ایران نے دہشتگرد تنظیم جنداللہ کے سرغنہ عبدالمالک ریگی کو ناصرف زندہ پکڑا بلکہ تمام تر تحقیقات کرنے کے بعد اسے پھانسی چڑھا دیا جبکہ ہمارے ہاں سینکڑوں شہریوں کے قتل کا اعتراف کرنے والے دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کے سرغنہ ملک اسحاق کو حکومت اور عدلیہ کی جانب سے پروٹوکول دیا جاتا ہے، گھر کا خرچہ دیا جاتا ہے یا تو آپ عوام کو انصاف دیں یا پھر اسے بدلہ لینے کا حق دیں، تاکہ عوام خود ان دہشتگردوں کے مقابلے میں، ان سے بدلہ لینے کیلئے میدان میں آجائے۔ طالبان سے مذاکرات کرکے کبھی بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا، ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ایس ایم حیدر: دیکھیں یہ نواز حکومت انجینئرڈ انتخابات کے تحت برسر اقتدار آئی ہے، آپ کو الہام ہوا تھا کہ آپ ہی وطن کی خدمت کرینگے کہ آئین میں تیسری بار وزیراعظم بننے کیلئے ترمیم کی گئی، انہوں نے پنجاب میں دہشتگردوں کو جتنا پالا ہے، انہیں سہولتیں فراہم کی ہیں، انکے ثبوت عوام کے سامنے ہیں، یہ الزام برائے الزام نہیں ہے، انکے وزراء دہشتگردوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، انہوں نے دہشتگرد تنظیم سپاہ صحابہ کے سرغنہ احمد لدھیانوی کو قومی اسمبلی میں پہنچا دیا ہے، ملک اسحاق جیسے سینکڑوں بےگناہ شہریوں کے قاتل کو آزاد کیا، شیلٹر فراہم کیا، گھر کا خرچہ و سہولیات دیں، تو یہ دھاندلی کی پیداوار ہیں، ان سے کسی بھی قسم کی بہتری اور اچھائی کی امید کیسے رکھی جاسکتی، چاہے یہ تیس بار بھی اقتدار میں آجائیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے کردار اور خصوصاً نواز حکومت کو دی گئی ڈیڑھ ارب ڈالرز کی سعودی امداد کے حوالے سے آپکی نگاہ کیا کہتی ہے۔؟
ایس ایم حیدر: سعودی عرب کا منافقانہ کردار دنیا بھر میں بےنقاب ہوچکا ہے، میں مختصراً یہ کہوں گا کہ جس سے آپ سعودی کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایران کے مقابلے میں سعودی عرب اور اسرائیل ایک زبان بول رہے ہیں، تم اپنے آپ کو خادمین حرمین شریفین کہتے ہو، تمہیں تو عالم اسلام کو لے کر چلنا چاہیئے تھا، عالم اسلام کا دفاع کرنا چاہئیے تھا، مگر سعودی عرب کو شرم آنا چاہئیے کہ وہ عالم اسلام کو لے کر چلنے کے بجائے ایران کے خلاف وہ زبان استعمال کر رہا ہے کہ جو صیہونی اسرائیل استعمال کر رہا ہے، تو اس سے آپ سعودی کردار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پہلے امریکی ڈالرز آتے تھے، اب سعودی ریال آئیں گے، مگر بات تو یہ کہ کس کیلئے آرہے ہیں، کوئی زلزلہ سیلاب وغیرہ آیا ہوا ہے، مقصد یہ ہے وہ پاکستانیوں کو یہاں سے لیکر جائیں گے، یہ مختلف ممالک میں سعودی عرب کے مفادات کیلئے کام کریں گے، فوج بھی ان کی خادم بنی ہوئی ہے، خدمت گزار ہے، حکمران بھی اس کے خدمت گزار ہیں، شریف فیملی سعودی عرب کی خدمت گزار، اطاعت گزار اور احسان مند ہے، یہ سعودی عرب کی کوئی بات رد کر ہی نہیں سکتے، یہ پاکستان میں سعودی عرب و امریکہ کی پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھیں گے، یہ ایران و شیعیت مخالف بھی جائیں گے، اس سے پاکستان عدم استحکام سے دوچار ہوگا، ضیاءالحق کے دور کو دوبارہ دہرایا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ایس ایم حیدر: ایک تو وہ گروہ ہے جو کرائے کے قاتل ہیں، جو پیسے لیکر سب کو مارتے ہیں، دیکھیں کون سا گروہ ایسا نہیں ہے جو اپنی رٹ قائم نہیں کرنا چاہتا، کون کراچی سے مال کمانا نہیں چاہتا، اس کیلئے بینک ڈکیتیاں ہوتی ہیں، اغواء برائے تاوان کئے جاتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ ہے، چار یہاں کے مار دیئے، دو ان کے مار دیئے، چھ کسی اور کے مار دیئے، ہم یہ کہتے ہیں کہ اصل قاتلوں کو، انکے نیٹ ورکس کو پکڑیں، انکی سرپرستی کرنے والوں کو پکڑیں، یہ نہیں کہ شیعہ مارے جائیں تو سنی پکڑ لئے، سنی مارے جائیں تو شیعہ پکڑ لئے، نہیں، بلکہ اصل قاتلوں کو گرفت میں لایا جائے۔ بیس پچیس سال سے رینجرز موجود ہے، آپ نے کونسا امن قائم کر دیا، آپ کے آنے کا کیا فائدہ، دھماکہ ہوگیا اس کے بعد آپ بندوقیں لیکر آگئے، کیا فائدہ، پولیس سیاسی جماعتوں کی لونڈی بنی ہوئی ہے، تو یہاں پر دہشتگرد عناصر موجود ہیں، انہیں پیسے دیکر ہر قسم کا کام کروایا جا رہا ہے، ایسے عناصر کا پتہ چلا کر ان کا خاتمہ کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے کراچی کی ایک سیاسی جماعت کا نام بھی لیا جاتا ہے، جبکہ اس سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے شیعہ کارکنان کی بھی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ایس ایم حیدر: دیکھیں جب ایم کیو ایم کا شیعہ کارکن مارا جاتا ہے تو اس سے ایک تیر سے دو شکار ہوتے ہیں کہ شیعہ اور مہاجر کا مارا جانا، دوسری جانب پھر ہمارے پاس یہ بھی ثبوت ہیں کہ شیعہ مخالف عناصر کے ایم کیو ایم سے بہت اچھے تعلقات ہیں، ایم کیو ایم کے اندر فرقہ کی بنیاد پر مضبوط لابیاں ہیں، اب تو یہ بات عام ہوچکی ہے، یہ لابیاں اپنے لوگوں کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اسی طرح اے این پی میں بھی ایسے عناصر ہیں، لہٰذا لسانی عنصر بھی شامل ہے، مذہبی عنصر بھی شامل ہے۔ ہم طالبان کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان سیاسی جماعتوں میں موجود فرقہ پرست عناصر کی بات نہیں کرتے، اسی طرح خود سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی صفوں میں موجود فرقہ پرست عناصر اور کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا کہیں گے ان جماعتوں اور قائدین کے بارے میں کہ جو طالبان کیلئے ناصرف نرم گوشہ رکھتی ہیں، بلکہ انہیں اپنا بھائی اور بیٹا تک کہتی ہیں۔؟
ایس ایم حیدر: یہ طرز فکر و عمل تو ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے، ہم کبھی متحدہ مجلس عمل میں جا کر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، کبھی ملی یکجہتی میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، مگر یہ لوگ طالبان سے ہمدردی کرتے ہیں، انہیں اپنا بھائی بیٹا کہتے ہیں، ہمیں ان سے کیا فائدہ پہنچ رہا ہے، دیکھیں ہم کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ تو کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ طالبان ہمارے بھائی ہے، تو پھر ہم ان کیلئے کیا ہیں، تو ہمیں کم از کم احتیاط کرنی چاہیئے۔ دیکھیں ہمیں منافقت نہیں کرنی چاہیئے، غلط کو غلط کہنا ہوگا، ایم ڈبلیو ایم والے ایک طرف ایم کیو ایم کو بُرا بھلا کہتے ہیں، شیعہ دشمن کہتے مگر دوسری طرف پردے کے پیچھے جا کر ان سے ملتے بھی ہیں، اسلام آباد میں بھی ملتے ہیں، کراچی میں بھی ملتے ہیں، آن ریکارڈ ملاقات کرتے ہیں، شیعہ علماء کونسل بھی ایم کیو ایم کو برا بھلا کہتی ہے اور وہی شہنشاہ نقوی صاحب جعفریہ ڈیزاسٹر سیل کے دفتر میں ایم کیو ایم کی دعوتیں کر رہے ہوتے ہیں، پتہ نہیں آپ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں یا لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
 
میرے کہنے کا سارا مقصد یہ ہے کہ جب آپ غیروں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، انکے پاس جاسکتے ہیں تو ایک ساتھ جانا ہے، ایک ایجنڈے پر جا کے بات کرنا ہے، ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا ہے، تو لہٰذا جو لوگ آپ کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے، اگر آپ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں تو اپنوں میں، آپس میں ایک ساتھ مل جل کر بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے، تو اگر غیروں کے ساتھ بیٹھا جاسکتا ہے تو مجلس وحدت مسلمین اور شیعہ علماء کونسل کو بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا چاہیئے، ملکر ملی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنی چاہیئے، اس کے ساتھ ساتھ سب لوگوں کو دعوت دیں، اسی طرح آغا ساجد علی نقوی صاحب کو بھی اپنی بڑائی کا، بُردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، شفقت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کہ ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے، کوئی پیسوں کے لین دین کا جھگڑا نہیں ہے۔ تو یہ انتشار و تفرقہ بازی ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ سب سے پہلے ہم اپنے گھر کے معاملات ٹھیک کریں، ہم ایک دوسرے کو برداشت کرلیں، ہم عزاداری کے نام پر سیاست کے قائل نہیں ہیں، ہم جہاں اتحاد بین المسلمین کی بات کرتے ہیں، ہمیں سب سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا، ایکدوسرے سے مشاورت کے ساتھ قومی و ملی معاملات کو آگے بڑھانا چاہیئے، کیونکہ کوئی ایک جماعت یا تنظیم، کوئی ایک قائد، ملت کے تمام مسائل کو حل نہیں کرسکتے۔
خبر کا کوڈ : 375140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Australia
bhai yeh sahib sub per tanqeed kar rahay hain khud inki kiya haisiyat hai aur inka halqa kiya hai.
Germany
GooD 0ne.. (y)
BILKUL DURUST BATAY KI HAI HAIDER SAHAB NE. APNE MILLAT KI HAQIQAT MAI BOHAT KHIDMAT KI HAI.. MOLA A.S ISKA AJAR ZAROOR DENGE APKO .. MOLA A.S APKO SEHAT ATA KAREN OR BI KHIDMAT KI HIMMAT DEN
Pakistan
Slam. En ki tmam baten to theek nhi hen siyasi mamlat men othna bethna hota rhta hy mgr en ki ye 100% drst hy k agr hm mili yakjehti aur MMA men dushmno k sath beth skty hen to MWM aur SUC apus men Q nhi ek jaga beth jaty?
Ji mashaAllah , achi kawish hay apki bht senior hasti hain janab Hayder bhai, acha interview hay, jazakAllah
ہماری پیشکش